حضرت علی ؑ …اوروں کی نظر سے……

چنانچہ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے باب میں کچھ ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔
گو کہ بہت سوں کو 14سو برس بعد بھی ان کی شخصیت حلق سے نہیں اترتی اوروہ اعتراف عظمت علی میں برملا زبان نہیں کھول پاتے، اللہ جانے یہ ان کی مجبوری یا مصلحت ،مگر آپ کی ذا ت والا صفات کے سلسلے میں جو دوسروں نے بیان دیئے ہیں ایک با حیا اور منصف مزاج طبیعت کو اکسانے کے لئے کافی ہے ۔درآنحالیکہ ان کا براہ راست علی سے ایمانی واسطہ نہیں ہے ۔
ذیل میں دنیا کی غیر مسلم شخصیات کے اقوال پیش ہیں ملا حظہ کریں ۔
پنڈت جواہر لال نہرو 
حضرت علی کیسا تھ جوان کی تاریخ زندگی وابستہ ہے وہ ہمیں بڑی سے بڑی مشکلات میں حوصلہ و ہوش مندی سے کام کرنے کی صلاحیت عطاکرتی ہے ہمارے عزم و استقلال ان کی ثبات قدمی سے تحریک پاتے ہیں تا کہ ہم ناموافق حالات میں شکست نہ کھانے پائیں (کشکول نیو جرسی ص۸۱)
ڈا کٹر راجندر پرساد سابق صدر جمہوریہ ہند 
حضرت علی کی ناقابل بیان جرأت و بے باکی اور ان کے اٹو ٹ ارداے آج بھی عالم انسانسیت کے لئے مشعل راہ ہیں ۔(ڈیلی ماس آف انڈیا دہلی )
ڈاکٹر ایڈورڈ بل
سفر ہو حضر رزم ہو یا بزم ہر حال میں علی اور ان کے بابا ابوطالب نے رسول کا ساتھ دیا تاریخ کو ئی اس طرح کاتیسرا نام پیش نہیں کر سکی (سرفراز لکھنؤ ۱۹۶۳ ؁ ء) 
مسٹر ولسن 
جس طرح تیز آندھیوں کا زور پہاڑ کا ٹکراکے رہ جاتا ہے اسی طرح بڑے بڑے شجاعان عرب علی ؑ سے ٹکر ا کے خود فنا ہوئے ۔
مسٹر سڈلومو رخ فرانس 
اگر قرابت سے ہیبروقت علیکو خلافت میسر آگئی ہوتی تو بربادی کے جھگڑے نہ ہوئے ہوتے جس نے اسلام کو مسلمانوں کے خوں سے رنگین کردیا ( اسپرٹ آف اسلام )
مسٹر بریف سروے 
علی۶۵۵ ؁ء میں تخت خلافت پر بٹھائے گئے جو حقیقت کے لحاظ سے چالیس سال رسول کی رحلت کے بعد ہی ہوناچاہئے تھا ( تاریخ اسلام) 
مسٹر وا شنگٹن ایرونگ 
سب سے پہلے اعلان اسلام کرنے والوں میں حضرت علی ؑ تھے چنانچہ بعد پیغمبر آپ ہی افضل ترین انسان تھے آپ ہی وہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے علوم وفنون کی ترقی وتحفظ کے لئے غیرمعمولی ، پیش رفت کی (محمد اینڈ ہز سکسیسرس) 
مسٹر گبن 
محمد ﷺ اعلان رسالت میں ذرا تامّل سے کام لے رہے تھے بالآخر انہوں نے نور وحدانیت کے پھیلانے اور اظہار مقصد کی غرض سے چالیس افراد کو جمع مدعو کیا ان کے کھانے کا اہتمام کیا بعد ضیافت لوگوں سے مخاطب ہوئے فرمایا اے لوگوں میں تمہارے لئے افضل ترین نعمتیں اور دنیا آخرت کا کا میاب راستہ لیکے آیا ہوں جسے میرے سو اکوئی دوسرا تمہیں نہیں دیگاخدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں لوگوں کو اس کی عبادت کی طرف بلاؤں پس تم میں سے جو بھی مرے اس کام میں میرا ہاتھ بٹائے گا وہ میرا وزیر ہوگا ۔ رسول کی اس بات کا جواب نہ ملا یہاں تک کہ چودہ سالہ حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کے جواب سے خاموشی کا دامن تارتار ہواانہوں نے کہا یا نبی میں آپ کے ساتھ رہوں گا ، آپ کی نصرت کرو نگا ، محمد نے علی کی درخواست قبول کی مگر حاضرین نے ابو طالب کو ان کے لڑکے کی فضلیت پر طنزیہ کلمات کہے( ڈکلائن آف رومن ایمپائر )
مسٹر جر جی زیدان 
حضرت علی کے بارے میں کیابیان کیا جائے ، اصول اسلام کے انتہائی پابند اور قول وفعل میں بے پناہ شریف تھے جعل و فریب ، دھوکہ، مکر، گویا آپ جانتے ہی نہ تھے آپ کی تما م ترہمت و بے باکی محض دین کے لیے رہی آپ کا اعتماد اور بھروسہ صرف سچائی اور حق پر تھا ۔( تاریخ تمدن اسلامی )
مسٹر ویلز 
اگرعلی ؑ کو امن و سکوں سے حکومت کرنے دی گئی ہوتی تو ان کی نیکیاں، استقلال، اعلیٰ صفات کی بدولت سلطنت جمہوری ضروری رہ جاتی مگرقاتل کے خنجر نے امیدوں کو خا ک میں ملا دیا ( البرٹ اسلام )
ڈاکٹر شنکر دیال شرما سابق صدر جمہوریہ ہند 
جس مقدس ہستی نے آن حضرت کو اپنی پست پرٹہرایاہو اس کی عظمت و بلندی کا کیا کہنا ، مجھے یہ شرف حاصل ہوا کہ دو مرتبہ کوفہ ، نجف ، کربلا گیا ، میں نے حضرت علی ؑ کے خطبات نہج البلاغہ کو پڑھا ۔ انسان دوستی ، اصول پسندی ، صداقت ، راست بازی ،جوان مردی ، دشمنوں کومعاف کرنااوران کی زندگی کی قربانیاں ان کی نمائیاں وصف ہیں ۔ حضرت علی ؑ کی کامیابی ان کی جسمانی طاقت سے زیادہ ان کی سچائی کی طاقت تھی ۔ (اخبار سیاست ۹ جون ۱۹۸۵ ؁ء )

شبلی نعمانی 

عرب کا مادہ پرست مورخ جو کمیونزم اور الحاد کا نظریہ رکھتا تھا اور ماوراء الطبیعت کا منکر تھا اس اعلیٰ شخصیت کے متعلق پر جوش اور ستائش آمیز لہجے میں کہتا ہے ۔’’ حضرت علی ابن ابی طالب ؑ دنیا کے تمام بزرگوں کے بزرگ اور زمانہ کے واحد و یکتا نسخہ تھے کہ دنیائے مشرق و مغرب نے اپنی آنکھوں سے عصر قدیم و جدید میں کوئی ایسی تصویر نہ دیکھی ہو گی جو ان جیسی ہو ۔‘‘ ( کشکول نیو جرسی ص۸۷)
ذکر شدہ اقتباسات سے بآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت علی ؑ کی شخصیت کی جہاں عالم اسلام کے لئے نظریاتی چوہرائے کی حیثیت رکھتی ہے وہیں وہ عالم انسانیت کے لئے مقام اتحاد بھی ہے ۔ بہر حال کما ل وہ ہے جس کی غیر بھی گواہی دے ۔
غیر مسلم دانشمندوں اور مورخوں کے مذکورہ اقوال کے پیش نظر اتنا تو واضح ہے کہ علی قیامت تک کے لئے دنیا کی ہر فرد بشر کے تئیں ان کے مشکلات و مسائل کی خاطر ایک مثالی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے ہر انسان آج بھی بقدر ظرف و اہلیت تہذیب حیات کی بھیک لے رہاہے.

«
»

16مئی کا سورج کو ن سا پیغام لے کر آئے گا؟

کشمیر پھرتلوار کی دھار پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے