ہاشم اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑاتھا ،میٹرک کا طالبِ علم تھا،دوچھوٹی چھوٹی بہن ،ایک ماں ،بیمار باپ اور ہاشم ،پانچ لوگوں پہ مشتمل یہ پورا گھر شہر کی چینخ وپکار کے بیچ اپنی خاموش سسکیوں کے سہارے زندگی کے صبح وشام کو کسی طرح گزارنے کی کوشش کر رہاتھا ،ہاشم کے والد صاحب ایک معمولی قسم کی نوکری کرتے تھے،اتنی آمدنی ضرور ہوجاتی تھی جس سے ان کا پریوارچل سکے ،بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے ،لیکن اچانک اس کے والد صاحب کی طبیعت اتنی بگڑ گئی کہ بچنے کی امید لگ بھگ ختم ہو چکی تھی ،معمول کے مطابق ایک روز اس کے والد صاحب آفس سے گھر آئے توبیٹھے بیٹھے اچانک ان کو زور کی کھانسی آنے لگی اور چند منٹوں کے بعد منہ سے خون نکل آیا ،سینے میں درد کا احساس اتنا تیز ہوگیا کہ انہیں ہا سپیٹل لے جانا پڑا ۔ڈکٹروں نے جانچ پڑتال کے بعد بتایا کہ انہیں کینسر ہو گیاہے اور علاج میں لاکھوں روپیے خرچ ہوں گے،،فوری طور پر ڈاکٹروں نے کچھ دوادیدیا جس سے ان کے سینے کا درد کم تو ہوگیا لیکن مستقل علاج کے لیے لاکھوں روپیوں اکٹھاکرنا ایک میڈل کلاس فیملی کے لیے بہت مشکل تھا ۔
ہاشم کی ماں نے کال کرکے خاندان کے کچھ قریبی رشتہ داروں کو اپنے حالات سے آگاہ کرایااورمدد کی فریاد کی لیکن سبھوں نے چند تسلّی بھرے جملے کہہ کر ،کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اپنا دامن جھاڑ لیا ۔جبکہ جب تک ان کے گھر کی حالت اچھی تھی اس کے رشتہ داروں میں گاؤں دیہات کے مالدار لوگ بھی جب شہر آتے تو ان کے یہاں ہی ٹھہر تے اورخوب ہاشم کے ابّو جی بھر کے ان کی میزبانی کرتے،مختلف قسم کی چیزیں کھلاتے لیکن مصیبت کے وقت جب ان لوگوں کوپکارا گیا توکوئی مددکے لیے سامنے نہیں آیا۔آخرکار مجبور ہوکر اس کی ماں اپنا سارا زیور لے کر دُکان پر اس کی قیمت معلوم کرنے اس ارادے سے پہونچی کہ کم از کم اسی کو بیچ کر اتنے پیسے اکٹھے ہو جائیں جن سے ان کے شوہر کا علاج ہو سکے لیکن وہاں سے بھی انہیں مایوس ہی لوٹنا پڑا کیونکہ پورے زیور کی قیمت ڈاکٹروں کی مانگ سے بہت کم تھی۔اس پورے حالات سے اس کی ماں نے اپنے شوہر کو آگاہ تو انہوں نے بے بسی کے عالم میں بیوی کو تسلّی دیتے ہو ئے کہا کہ: تم کاہے کو اتنی پریشان ہو رہی ہو ؟ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میری قسمت میں اب بہت دنوں تک زندہ رہنا نہیں لکھا ہے ،میں بس چنددنوں کا مہمان ہوں،جوبھی پیسے زیورات ہیں اُنہیں بچاکر رکھویہ سب بچوں کی پرورش اور ان کی پڑھائی لکھائی میں جہاں تک ممکن ہو سکے خرچ کرنا۔کیاکروگی دنیا اسی کانام ہے،جب حالات اچھے ہوتے ہیں توسینکڑوں ہمدردوغمگسار نکل آتے ہیں لیکن بُرے وقت میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا،غم نہ کرو،صبر سے کام لو ،اللہ بہت بڑا ہے،بس دعا کروکہ کسی طرح پروردگارِ عالم عزت کے ساتھ ایمان پہ قائم رہتے ہوئے مجھے اس دنیا سے اٹھالے۔
شوہر کی زبان سے آخری جملہ سن کر ہاشم کی ماں برداشت کی قوت کھو بیٹھی اور شوہر کے سینے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی،بچّے جو سارے حالات سے بے پرواہ دوسرے کمرے میں لکھ پڑھ رہے تھے دوڑتے ہوئے آئے اور ماں کو روتا دیکھ کر بغل میں بیٹھ کر سب کے سب رونے لگے ۔ہاشم چونکہ ہو شمند تھا سارے حالات سے اچھی طرح واقف تھا،وہ کنارے بیٹھ کر آنکھوں میں آنسو لیے کبھی ابّو کے چہرے کو دیکھتاتو کبھی ماں کی بے بسی کو تکتا ،کبھی بہنوں کے اُترے ہوئے چہرے پہ نظر ڈالتا اور دیکھتے ہی دیکھتے بلک بلک کر روپڑتا ،یہ سلسلہ کئی روز سے جاری تھا۔’’شہر کی بھاگ دوڑ اور اپنی اپنی فکر میں مست لوگوں کی زندگی بھی کیا ہو تی ہے ،آس پڑوس کے لوگوں کو اس بات کا احساس تک نہیں تھا کہ ان کے بیچ ایک ایسا گھر بھی ہے جو اپنی زندگی کے ایک ایک پل کوگھُٹ گھُٹ کر گزاررہاہے،جن کو معلوم تھا تو وہ اس وجہ سے دوبارہ عیادت کرنے سے کترا تے تھے کہ کہیں حالات کی ماری ہاشم کی امّی کسی سے مدد کی فریاد نہ کر بیٹھے‘‘ ایسے عالم میں ہاشم کے ابّو نے بہت اس کی ماں کو سمجھایا،ہاشم کو بھی وہ ڈھیروں نصیحتیں کرتے کہتے:بیٹا!تم تو ہوشمند ہو اپنی ماں کو سنبھالو،یہ پگلی خواہ مخواہ آنسو بہاتی رہتی ہے،جبکہ اس کو سوچنا چاہیے : کون ہے جواس دنیا میں رہنے کے لیے آیا ہے ؟ہر کسی کو ایک نہ ایک روز اس چمکتی حسین دنیا کو الوداع کہناہی پڑتا ہے۔ یاد رکھنا جس کا کوئی نہیں اس کا اللہ ہوتاہے،تم لوگ میری فکر مت کرو ،رمضان کا مہینہ چل رہا ہے جس کی برکت وعظمت کا کیا کہنا اللہ تعالٰی اس مہینے میں بندے کے دل سے نکلی ہوئی دعاؤں کوخالی نہیں جانے دیتا ،قبول کرتا ہے،تم لوگ سب مل کرپابندی سے روزہ رکھنا،مسجد میں پابندی سے نمازپڑھنے جانا اور میرے لیے دعاکرنا،جس اللہ نے مجھے اس آزمائش میں ڈالاہے وہ اس سے نجات بھی دے سکتا ہے۔یہ ڈاکٹر،ہاسپیٹل،دوا سب اس کے سامنے کچھ نہیں یہ تو بس ایک بہانا ہے،ایک ذریعہ ہے اصل شفاء دینے والا ،بیمار کرنے والا ،مصیبتوں کے جہنم سے نکالنے والاتو بس وہی ایک معبود ہے جس کے ہاتھوں میں ساری دنیا کا اختیار ہے،کیا پتہ وہ کب اپنی کونسی کرامت ظاہر کردے ،کب اپنی قدرت سے مجبوروبے بس بندے کی زندگی کا رخ پلٹ دے،کوئی نہیں جانتا اسی لیے بیٹا! اسی مالک سے حقیقی مدد کی امید رکھو ،اسی سے لو لگاؤ اور ہاں !میری فکر میں تم لوگ اس کی عبادت سے ہرگز غافل مت ہونا،سجدے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ میری صحتیابی کی دعائیں کرنا۔ابّو کی پیار بھری نصیحتیں ہاشم کے دل میں اُترتی چلی گئیں ،اُسے کافی سکون کا احساس ہوا،اس نے دل میں تہیّہ کرلیا کہ رمضان کے اس مہینے میں دن ورات ایک کرکے ابّو کی نصیحتوں پر عمل کرنا ہے،پابندی سے پانچوں وقت کی نماز ادا کرنی ہے،روزہ رکھنا ہے،گندے اور بُرے الفاظ سے اپنی زبان کو بچاکر رکھنا ہے وغیرہ وغیرہ……
رمضان کا آخری عشرہ چل رہاتھا،اللہ کے محبوب بندے اپنی عبادت کو کثرت سے انجام دے رہے تھے،ہاشم زیادہ تر وقت مسجد ہی میں گزارا کرتا تھا،قرآن کی تلاوت کرتا ،نماز پڑھتا،اور دیر تک سجدے میں سر رکھ کر اللہ تعالی سے اپنے مریض باپ کی شفاء یابی کی دعا کرتا،جس مسجد میں وہ نمازپرھتا تھااس میں امام صاحب روز عصر کے بعددرس دیا کرتے تھے ،وہ رمضان کی رحمت وبرکت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ہر عشرے کی اہمیت وفضیلت بھی بیان فرماتے تھے ۔بیس روزہ مکمل ہونے کے بعد امام صاحب نے آخری عشرے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا:سامعین! ان دس راتوں میں ایک ایسی رات بھی ہے جس رات کی عبادت ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اس رات میں فرشتوں کے سردار جبرئیل علیہ السلام کا نزول ہوتا ہے،اس رات میں مانگی گئی دعا رد نہیں ہوتی،اسلیے آپ لوگ ان راتوں میں خوب دل لگاکر عبادت کیجیے ،خوش نصیب ہے وہ مسلمان جسے وہ رات ہاتھ آجائے ۔امام صاحب کی بات ہاشم کے دل میں بیٹھ گئی اس نے یہ عہد کرلیا کہ ایک رات بھی ضائع نہیں جانے دوں گا،اپنے آرام وراحت کو چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ اپنے مالک کے سامنے آنسو بہاؤں گا،اللہ سے ابّو کی زندگی کی بھیک مانگوں گا،امام صاحب کی زبان سے حدیث کی پیشن گوئی سن کر ہاشم کو مکمل یقین ہوگیا کہ اگر وہ اس رات کو پالے گاتوضرور اس کی دعا قبول ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ’’ جب ایک مومن مسلمان اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو دل میں جگہ دے کر مکمل یقین واعتماد کے ساتھ خالقِ کائنات کے سامنے اپنے سر کو جھکا تا ہے،اس سے اپنا رشتہ مضبوط کرتا ہے تو وہ بندے کی نیک تمنّاؤں کو ضروری پوری کرتا ہے،کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جوبندہ عاجزی وانکساری کے ساتھ اپنی آنکھوں کو آنسوؤں سے تر کرکے اس سے کچھ مانگتا ہے تووہ اسے پورا کرتا ہے‘‘۔اسی لیے ہاشم خلوص دل کے ساتھ عبادت میں مصروف ہوگیا،پوری پوری رات جاگ کر ،سجدے میں سر رکھ کر ،بلک بلک کر وہ اللہ کے حضور اپنے ابّو کے لیے دعا ئیں کرتا،یہ عمل اسکا مستقل دس دنوں تک جاری رہا،جب آسمان پر عید کا چاند نمودار ہوگیا تو دیر رات تک عبادت کرنے کے بعد بوجھل قدموں کے ساتھ وہ مسجد سے اپنے گھر کی طرف چل پڑا،اپنے فلیٹ میں پہونچ کر اس نے ابّو کے کمرے کی طرف مڑکر دیکھاتو خلافِ معمول اندھیری کوٹھری میں بلا کی چمک تھی، ایسا لگ رہا تھا جیسے پورا روم جگمگا رہا ہو اور اس کے والد صاحب عام دنوں کی طرح تکلیف سے کروٹیں نہیں بدل رہے ہیں بلکہ آرام کی نیند سورہے ہیں ،چہرے سے سکون واطمینان کی لکیریں صاف جھلک رہی تھیں ،دل ہی دل ہاشم کو یہ منظر دیکھ کر بے حد خو شی ہوئی وہ بھی بستر پہ جاکر آرام کی نیند سوگیا۔
صبح جب فجر کی نماز کے لیے اس کے گھر کے لوگ جاگے تو دیکھتے کیا ہیں کہ ہاشم کے ابّو بستر پہ موجود نہیں ہیں جبکہ ان کی حالت اتنی خراب تھی کہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھے،کمزوری کا یہ عالم تھا کہ بغیر سہارا کے اٹھنا بیٹھنا دشوار تھا،اسی لیے انہیں بستر سے اس طرح اچانک غائب پا کر گھر کے سبھی لوگوں کے ہوش اڑ گئے،زور زور سے کلیجہ دھڑکنے لگا،ٹینشن سے دماغ کام نہیں کر رہاتھا۔ اسی بیچ ہاشم کی ماں نے اس سے کہا:بیٹا! ذرا اِدھر اُدھر دیکھو تو تمہارے ابّو کدھر ہیں ؟تیزی سے ہاشم بدحواسی کے عالم میں ابّو کی تلاش میں نکل پڑا،ابھی اس نے چند قدم کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ کیا دیکھتا ہے اس کے ابّو سفید کُرتا،پائجامہ ،ٹوپی پہنے مسجد کی طرف سے آرہے ہیں ،یہ منظر دیکھتے ہی ہاشم کے حیرت کی انتہا نہ رہی،اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ خوشی سے پاگل ہوجائے گا،پھر کیا تھا دوڑتا ہو اابّو کے کلیجے سے لپٹ گیااور دونوں باپ بیٹے مسکراتے ہوئے گھر آگئے ، اس کی امّی جو کافی دیر سے دروازے پہ پلکیں بچھائے اپنے بیمار شوہر کا بے قراری سے انتظار کررہی تھی ،اس طرح باپ بیٹے کو مسکراتے ہوئے آتے دیکھی توحیرت سے تکتی ہی رہ گئی، سوچنے لگی ہائے اللہ ! یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں ؟ کیا یہ سچ ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں خواب دیکھ رہی ہوں؟ قریب سے شوہر پہ نظر پڑی تب جا کر اپنی آنکھوں پہ اُنہیں یقین ہوا،حیرت سے پوچھ بیٹھی آخر اتنی جلدی یہ سب کیسے ہوگیا؟تب ہاشم کے ابّو نے سنجیدگی سے بتانا شروع کیا :’’رات جب میں لیٹا ہواتھا تو دولوگ سفید کپڑے میں ملبو س میرے پاس آئے ،مجھے جگایا ،میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اُن دونوں کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا ہے اور پورا گھر اس کی روشنی سے منوّر ہے ،شاید وہ فرشتے تھے دونوں نے باری باری سے مجھے کچھ پڑھ کر دم کیا ،چند لمحوں کے لیے میری آنکھیں بند ہو گئیں ، آنکھ کھلی تو دونوں غائب ہو چکے تھے ‘‘اس کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے پورے بدن میں پہلی جیسی طاقت پیدا ہو گئی ہو، مکمل شفاء مل گئی ہو،پھر میں چپکے سے اُٹھا اور اللہ کا شکر ادا کرنے مسجد پہونچ گیا ،یہ سنکر اچانک ہاشم کی زبان سے نکل گیاابّو! لگتا ہے میری دعا کام آگئی ، اس کے ابّو نے پوچھا بیٹا وہ کیسے؟؟تو اس نے آخری عشرے کی اپنی پوری عبادت کی تفصیل سے بتادی ۔پھر کیا تھاعید کی صبح دوسرے گھروں کی طرح اس کا گھر بھی خوشی ومسرّت میں ڈوب گیااور ہاشم کا پورا پریوار عید جیسی اہم عبادت میں سب کے صف بصف شامل ہوگیا ۔(یو این این)
جواب دیں