یقیناہر پر امید اور سر فراز شخص کو اس مرد مجاہد پر فخر کرنا چاہئے ! جی ہاں اگر اسے ایک مسلمان کی حیثیت سے دیکھا جائے تو انتہائی خدا ترس، پا بند شریعت اور دین کا شیدائی نظر آتا ہے ۔ایک مجاہد کے روپ میں دیکھا جائے تو ایک مضبوط اعصاب کا سپاہی دکھا ئی دیتا ہے ۔جرنل کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ایک عظیم جنگی سوجھ بوجھ رکھنے والا سپہ سالا ر نظر آتا ہے ۔اور وطن دوست کی حیثیت سے دیکھا جائے تو اس کی آبرو پہ جان لٹا دینے والا ایک سچا محب وطن بن کر ان کی ذات ہماریے نگا ہوں میں ابھر آتی ہے ۔
الغرض ٹیپو سلطان کی دلیری ،جواں مردی،حب الوطنی ، بلند ہمتی، روشن ضمیری ،انگریز دشمنی ،اعلیٰ درجہ کا انداز حکمرانی ،انسان دوستی ،رعایا پروری ،ترقی پسندی اور خدا ترسی نیز زندگی میں جوش وولولہ بھر دینے والی توانیاں تاریخ کے اوراق پہ روشن نقوش بن کر ثبت ہیں ۔کو ن نہیں جانتاکہ انہوں نے ہی سب سے پہلے ۱۹۷۷ ء میں انگریزوں کے خلاف راکٹ کا استعما ل کرکے انگریزوں کا دانت کھٹا کیا تھا ؛مگر اپنوں کی غداری نے جہاں ملک کو مزید غلامی کے عمیق غار میں دھکیلا ؛وہیں اس عظیم اسلامی سپوت کے لئے شہادت کا راستہ ہموار ہوا۔
کون نہیں جانتا ان کے علم دوستی اورتحقیق وتخلیق کا عالم یہ تھا کہ ان کی ایجادات آج بھی مغرب کے تحقیقاتی شعبوں میں مشعل راہ کا کام انجام دے رہی ہیں ۔چنانچہ ملک کے سابق صدراے پی جی عبدالکلام صاحب اپنی کتاب ’’ونگس آف فائر‘‘ میں ایک بڑاہی چشم کشا اور عبرت سے بھرا؛آنکھوں دیکھا واقعہ اس سلسلہ میں نقل کرتے ہیں ۔’’جب وہ ورجینیا کے جزیرے ’ولّو پس میں جو ’ناسا ‘ کے راکٹ پروگرام کا ایک مرکز ہے ، وہاں وہ ٹریننگ کے لئے گئے تھے ۔اوہاں ان ہوں نے ایک تصویر کو نمایا ں انداز میں آویزاں کئے ہوئے دیکھا جو میدان جنگ کا ایک منظر پیش کر رہی تھی ؛جس کے پس منظر میں کچھ راکٹ فضا میں بلند ہو رہے تھے ۔کلام صاحب نے پہلے تو اچٹتی نظر اس پر ڈالی مگر جب اس کے قریب جاکر دیکھا تو …معلوم ہوا کہ وہ کالے لوگ افریقہ کے نہیں بلکہ ٹیپو سلطان کے فوجی تھے اور یہ منظر ان کی جنگ کا تھا ۔جنہیں ہم نے تو بھلا دیا مگر حرف اول کے طور پہ ان ہوں نے آج بھی احترام کے ساتھ اس کو آویزاں کئے رکھا ہے۔‘‘[دیکھئے انگلش کتا ب اصل صفحہ ۳۸]
اس مذکورہ واقعہ کے بعد کیا ہمارے لئے اورہمارے سیا ستدا نوں کے لئے اس میں کوئی سبق نہیں؟کیا آج کی نئی نسل جو ہر آن اپنے کو کتا بوں کے بوجھ تلے ہی دبا ہو امحسوس کرتی ہے اس کے لئے اس موجد میزائیل کا کارنامہ لائق تقلید نہیں؟ کیا آج ملک میں کرپشن اور بدعنوانی کے ذریعہ ملک کو کھو کھلہ کر کے سویس بنکوں میں ملکی کرنسی کو منتقل کرنا ملک کو غلامی کے راستہ پہ پھر سے ڈالنا خودکشی کے مترادف نہیں؟کیا ہمارے ہندوستانی بالخصوص اسلامی بھائیوں کے لئے ان کااپنایا ہوا طریق زندگی آئیڈل نہیں ہے؟ کیا ان کے طریقہ درس وتدریس اور ملک کے لئے کچھ کر گذرنے والا جذبہ ہم اسکول اور مدرسوں کے لئے نمونہ نہیں ہے ؟ ورنہ دنیا ہم یہی طعنے مارتی رہیگی کہ ’’قوم مسلم بھی عجیب ہے ،ازالہ مرض کے لئے ایجاد تو ایک سوئی نہیں کرتی البتہ ایجاد کرنے والوں کو گالی دیتی ہے پہاڑوں برابر ‘‘اور پھر ہم بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا ’’فلاں فلاں ملک جو روز مرہ کے کاموں میں برتے جانے والے ساماں و دوائیاں آئے دن مہیا کرا رہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں ’’خیر الناس من ینفع الناس ‘‘ کا مصداق بن کر اللہ کے حضور عارضی طور سے سہی سرخ رو تو بن رہے ہیں اور ہم ’خدا ترسی ونفع ناس ‘جیسے اہم نکات کو ترک کرکے مانند جھاگ ہواوں کے جھونکے میں اپنا وجود کھوتے جارہے ہیں ۔
مجھے امید ہے اس موقع سے جب کہ ہم نے بھی بجائے استقلال واستمرار کے غیروں کی دیکھا دیکھی اپنوں کو یاد کرنے لئے ایک دن خاص کرلیا ہے ان سوالات کے جوابات سبھی غیر ت مند حضرات ڈھونڈ نے کی کوشش کریں گے!۔اور اس کے لئے بس اتنی سی ضرورت ہے ان کی خدا ترسی سے بھپور اور نفع ناس سے لبریززندگی سے سبق لینے اور اپنے مقدور بھر قدم اٹھانے کی ہم سب پیہم کوشش کریں ! پھر ان شاء اللہ وقت بھی ہمارا ہوگا اور دنیا کو پھر کچھ دے سکنے والے ثابت ہونگے۔اور ٹھوکروں کے بجائے ہم استقبال کے مستحق ٹھہریں گے!
جواب دیں