تحریر :جاوید اختر بھارتی
اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عورت کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے، عورت کے اندر طاقت نہیں ہے، عورت کے اندر کار آمد صلاحیت نہیں ہے اس لیے کہ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے تب سے بیشمار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ اس میں عورت کا کردار انتہائی اہم رہا ہے. کیونکہ ایک عورت کے اندر بہت کچھ کر گزرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اگر صبر کے میدان میں دیکھا جائے تو اس میں بھی عورت یعنی حوا کی بیٹیاں کامیاب نظر آتی ہیں صرف کمانے والی عورت کامیاب نہیں ہوتی بلکہ گھر بسانے والی عورت کامیاب ہوتی ہے، ماں باپ کی خدمت کرنے والی اور شوہر کی فرمانبرداری کرنے والی عورت کامیاب ہوتی ہے بچوں کی پرورش کرنے والی عورت کامیاب ہوتی ہے اور جہاں مرد کی آواز کو دبانے اور طاقت کے بل پر کچلنے کا ماحول پیدا ہوجائے تو وہاں ڈھال بن کر کھڑی ہوجانے والی عورت کامیاب ہوتی ہے. فرعون ایک ظالم تھا لیکن اس کی بیوی آسیہ کا مقام بہت بلند ہے، حضرت ہاجرہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپکی اداؤں کو حج کے ارکان میں شامل کر دیا، حضرت خدیجہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ بیوہ ہوتے ہوئے چالیس سال کی عمر میں رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں، حضرت فاطمہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ جنتی خاتون کی سردار ہوں گی جب انکی سواری پل صراط سے گذرنے والی ہوگی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوگا کہ سارے کے سارے لوگ اپنی نگاہیں نیچی کرلو فاطمہ کی سواری گذرنے والی ہے حضرت بی بی رحمت ایک کامیاب عورت ہیں جب حضرت ایوب علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہونے لگی یعنی امتحان ہونے لگا تو سخت مصیبت کے عالم میں جب سبھی لوگوں نے ساتھ چھوڑ دیا اور بستی سے بھی نکال دیا تب بھی بی بی رحمت نے ساتھ نہیں چھوڑا.
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی زندگی کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ سید الکونین کی بیٹی ہو کر چکیاں چلاتے چلات ہاتھوں میں چھالے پڑجایا کرتے تھے پھر بھی دن رات اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں.
حضرت حنظلہ کی شادی ہوئی ہے ابھی پہلی رات ہے بیوی کے ساتھ شب زفاف منارہے ہیں کہ جہاد کا اعلان ہوتا ہے حنظلہ اٹھتے اور جہاد میں شریک ہونے کیلئے نکلنے لگتے ہیں بیوی غسل کرنے کے لئے روکنے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ نہیں رکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنے میں بہت دیر ہو جائے گی اور پھر بیوی سے کہتے ہیں کہ اگر جنگ میں میں شہید ہوجا ؤں تو تمہیں دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے تم دوسری شادی کرلینا بیوی بھی بول تی ہے کہ ائے میرے سرتاج جاؤ رسول اللہ کی جانب سے جہاد کا اعلان ہوگیا ہے تو ضرور جاؤ مگر ایک وعدہ کرو کہ جنگ میں شہید ہوگئے تو کل میدان محشر میں اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں داخل کریگا تو مجھے بھول نہ جانا بلکہ مجھے بھی ساتھ جنت میں لیجانے کے لیے اللہ رب العالمین سے سفارش ضرور کرنا جنگ میں حضرت حنظلہ کی شہادت ہوئی روایات میں یہی ملتا ہے کہ بیوی نے دوسری شادی نہیں کی.
تعلیم و تربیت کے میدان میں دیکھا جائے تو صحابی ربیع الفروخ کی بیوی حاملہ ہیں اور ربیع الفروخ جہاد کے لیے جارہے ہیں اور چالیس ہزار اشرفیاں بیوی کو دیکر میدان جنگ کیلئے روانہ ہوجاتے ہیں اور واپس آنے میں ستائیس سال لگ جاتے ہیں یعنی ستائیس سال کے بعد جب واپس آتے ہیں تو ڈائریکٹ گھر نہیں آتے بلکہ شریعت پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیوی کو پیغام بھیجتے ہیں کہ میں گھر آرپار ہوں شریعت کا یہی اصول بھی ہے کہ جب تم زیادہ دنوں کے بعد گھر واپس آؤ تو پہلے گھر خبر کردو، بیوی ہو تو اس تک پیغام پہنچا دو تاکہ وہ تمہارے استقبال کی تیاری کرلے چنانچہ جب ربیع الفروخ نے گھر آنے کا پیغام بھیجا تو بیوی نے کہا کہ آپ مسجد میں ٹھہریں عشا کے بعد گھر آنے کی اجازت ہے ربیع الفروخ مسجد میں ٹھہرتے ہیں ظہر، عصر، مغرب، عشا کی نماز ادا کرتے ہیں ایک نوجوان امامت کرتا ہے شاندار قرأت سن کر اور بعد نماز خطاب سن کر ربیع الفروخ نے نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں اور ہاتھ پھیلا کر دعائیں کرتے ہوئے زبان سے یہ کلمات ادا کیا اے اللہ کاش میرے پاس بھی کوئی بیٹا ہوتا تو میں بھی اسے ایسا ہی عالم دین بناتا بعد نماز عشاء بیوی نے پیغام بھیجا اے ربیع الفروخ اب آپ گھر تشریف لاسکتے ہیں پیغام ملنے کے بعد وہ اپنے گھر کیلئے روانہ ہوگئے دروازے پر پہنچ کر دستک دیتے ہیں تو وہی امامت کرنے والا نوجوان آکر دروازہ کھول تا ہے ربیع الفروخ سوچتے ہیں کہ میں کہیں کسی اور کے دروازے پر تو نہیں پہنچ گیا لیکن پھر دل میں یہ خیال آیا کہ یہ گھر تو میرا ہی ہے نوجوان سے بھی کہتے ہیں کہ یہ گھر میرا ہے ان کی بات سن کر نوجوان کہتا ہے کہ یہ گھر آپ کا نہیں ہے بلکہ یہ گھر میرا ہے میں نے آج تک آپ کو اس گھر میں کبھی دیکھا ہی نہیں ہے ساری باتیں سن کر بیوی دروازے پر آتی ہے سلام کرتی ہے استقبال کرتی ہے اور گھر میں داخل ہونے کی دعوت دیتی ہے نوجوان سے کہتی ہے کہ بیٹے یہ تمہارے باپ ہیں جب تم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے میرے پیٹ میں تھے تبھی تمہارے والد جہاد کے لیے چلے گئے تھے اور آج ستائیس سال بعد واپس آئے ہیں اس کے بعد ربیع الفروخ سے بیوی بولتی ہے کہ آپ نے جاتے وقت چالیس ہزار اشرفیاں جو دی تھیں میں نے اس سے تمہارے اس بیٹے کی پرورش کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا بتائیے کیا آپ مجھ سے خوش ہیں تو انہوں نے جواب دیا ائے میری بیوی تم ایک کامیاب عورت ہو حوصلہ مند عورت ہو تم نے میری شریک حیات ہونے کا حق ادا کردیا تم نے امانت میں کوئی خیانت نہیں کی میں تم سے بیحد خوش ہوں.
ایک اور عورت جن کا نام اسما ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ہیں اور جب حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر کو قتل کر دیا تو اسما بنت ابوبکر کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ میرے پاس آئیں تو حضرت اسما نے حجاج کے دربار میں حاضر ہونے سے انکار کر دیا حجاج بن یوسف نے قتل کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر کا سر لٹکا دیا تو حضرت اسما وہاں پہنچ کر مسکراتی بھی ہیں اور روتی بھی ہیں حجاج بن یوسف یہ ماجرا دیکھ کر ہنسنے اور رونے کی وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ ماں ہونے کی بنیاد پر بیٹے کے قتل پر غم ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ قتل ہونے کے بعد بھی میرے بیٹے کا سر اونچائی پر ہے اور قاتل زمین پر میرے بیٹے کے پیروں کے برابر کھڑا ہے یہ سن کر حجاج بن یوسف غصے میں آگ بگولہ ہوکر بولتا ہے اے عورت اپنے بیٹے کا انجام دیکھ تو حضرت اسما نے جواب دیا کہ دیکھ رہی ہوں تونے میرے بیٹے کی زندگی تباہ کردی لیکن میرے بیٹے نے راہ حق میں شہادت پاکر تیری آخرت تباہ کردی یہ تھا حضرت اسما کا دو ٹوک جواب کہ ظالم کے سامنے بھی حق گوئی و بیباکی کا مظاہرہ کیا.
بلند ترین مقام رکھنے والی عورتوں میں ایک نام حضرت مریم کا بھی ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں وہ حضرت مریم جنہوں نے ملک الموت سے بھی گفتگو کی ہے جب انکی روح قبض کرنے کی غرض سے عزرائیل آئے تو حضرت مریم نے کہا کہ کس لئے آئے ہو انہوں نے جواب دیا کہ روح قبض کرنے کے لئے تو مریم نے کہا کہ میں روزے سے ہوں اور میرا بیٹا جنگل میں پھل لینے کے لیے گیا ہے اسے واپس آلینے دو تو عزرائیل نے کہا کہ تمہارا بیٹا جنگل سے آئے یا نہیں آئے مجھے اس سے مطلب نہیں ہے وقت مقررہ سے ایک لمحہ ادھر اُدھر نہیں ہوسکتا اور ایسا ہی ہوا کہ جب وقت پورا ہوا تو عزرائیل نے روح قبض کرلی حضرت عیسٰی علیہ السلام جنگل سے پھل لیکر واپس آئے تو دیکھتے ہیں کہ والدہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ہے.
عورت یقیناً گھروں کی زینت ہے عورت بذات خود ایک زیور ہے اس لیے ضروری ہے کہ عورت کی خوبیوں پر نگاہ ڈالا جائے خوبصورتی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے بلکہ نیک سیرت ہونا کامیابی کی ضمانت ہے عورت کے اندر صبر کا مادہ بھی زیادہ ہوتا ہے جب اس کا چھوٹا بچہ سخت سردی کے موسم میں بھی بستر پر پیشاب کردیتا ہے تو اس وقت وہ عورت اتنا حصہ لپیٹ کر بچے کو اس پر سلاتی ہے اور خود بغیر بستر کے سوجاتی ہے یہ صبر نہیں تو اور کیا ہے، یہ مضبوط حوصلہ نہیں تو اور کیا ہے آج کے ماحول میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ مرد کو رمضان المبارک کا فرض روزہ گراں گذر تاہے لیکن عورت ہے جو رمضان کے روزے بحسن خوبی رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر ایام میں نفلی روزے کا بھی اہتمام کرتی ہے.
ایک عورت کا حوصلہ اور صبر دیکھنا ہو تو کربلا کی تاریخ کا مطالعہ کرلیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یکے بعد دیگرے لوگ شہادت کا جام پیتے جارہے ہیں اور حضرت زینب سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتی جارہی ہیں بلکہ لاشوں کو ترتیب سے خیمے کے اندر رکھتی جارہی ہیں اور وہ وقت بھی آیا کہ اب بھائی کا نمبر آگیا یعنی حضرت زین العابدین بیمار ہیں بستر سے اٹھنے کی طاقت نہیں ہے اب سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ خود میدان کارزار میں جارہے ہیں اور حضرت زینب نے میدان جنگ میں اپنے بھائی حسین کو روانہ کرکے صبح قیامت تک کے لئے پیغام دیدیا کہ ائے حوا کی بیٹیوں جب اسلام پر آنچ آئے تو اپنے بھائیوں کو شہادت کی راہ میں دولہا بنا کر روانہ کر دینا اسی سرزمین کربلا سے حضرت شہربانو نے یہ پیغام دیا ہے کہ اے حوا کی بیٹیوں جب کوئی اسلام کا سہاگ اجاڑنا چاہے تو تم اپنا سہاگ اجاڑ کر مذہب اسلام کا سہاگ اجڑنے سے بچالینا.
اور آج ہندوستان میں بھی عورتوں کا حوصلہ دیکھا جاسکتا ہے جمہوریت ھندوستان کی آن، بان اور شان ہے، دستور ہند ملک کا زیور ہے، امن و رواداری ہندوستان کا سرمایہ ہے اور اس سرمائے کو لوٹنے کی کوشش کی جانے لگی، آئین تحت آئینی منصب پر فائز ہونے کے بعد غیر آئینی قدم اٹھایا جانے لگا، این آر سی، سی اے اے جیسا قانون بنایا گیا تو شاہین باغ، گھنٹہ گھر سمیت بیشمار مقامات پر عورتوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا اور آج دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی شاہین باغ میں خواتین جمہوریت بچانے کی آواز بلند کر رہی ہیں اور متنازعہ شہریت قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں اس دوران انکے اوپر الزامات بھی لگائے گئے، سردی کے موسم میں بچوں کی موتیں بھی ہوئیں، انہیں توڑنے کی اور منتشر کرنے کی بار بار کوشش کی گئی لیکن وہ ملک اور ملک کے آئین کو اصلی حالت میں برقرار رکھنے کے لئے شیشہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہیں اور آج ملک کے کسی بھی حصے میں شہریت قانون سے متعلق احتجاج ہوتا ہے تو اس میں شاہین باغ کا ذکر ضرور ہوتا ہے آئے حوا کی بیٹیاں تمہارے حوصلوں کو سلام –
مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
25فروری 2020
جواب دیں