ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے

ہسپانیہ پر عیسائیوں کے قبضہ کے بعد مسلمانوں کے علوم کے باعث ایک نئی قوت سے جاگ اٹھاجبکہ گجرات کے چرب زبان وزیر اعلی اور اس سے بھی زیادہ بی جے پی وزیر اعظم عہدہ کے مشہورومعروف امیدوار نریندر مودی بغلیں بجارہے ہیں۔بی جے پی اور امریکی خارجہ کے ترجمان و ہندوستان میں امریکی سفیر نینسی پاول Nancy Powell کے مابین محض 50 منٹ کی’ نیم خفیہ‘گفت و شنیدنے زعفرانی خیمہ میں جشن کا سا ماحول قائم کردیاہے ۔ ذرائع کے مطابق نینسی پاول نے مودی سے ملنے کا وقت مانگا تھا ۔ اس واقعہ کو ہندوستانی میڈیا نے قومی اہمیت کا بنا دیا جبکہ امریکی میڈیا میں اس کا کوئی ذکر تک نہیں ہوا ۔ بی جے پی میڈیا کے اضافی ترجمان کے مطابق گویا ہند – امریکی دوستی اور تعاون کا نیا دورشروع ہوگیا ۔
انسانی حقوق کا سب سے بڑا قاتل:
امریکہ میں مقیم لوک سبھا انتخابات کی تشہیری مہم میں مصروف ہند نژادشاید بھول گئے کہ انکل سام نے 2005 میں ہی مودی کا ویزا ردد کر دیا تھا ۔ اختیار طور پر سبب بتایا گیا تھا کہ گجرات فسادات کی وجہ سے امریکی انسانی اقدار اور جمہوری تصورات کی خلاف ورزی ہوئی ہے ۔ ویسے یہ معلوم ہے کہ ہندوستانی آئین میں بنیادی حقوق کا کالم ہی امریکی آئین بلکہ اس’ ڈکلریشن آف رائٹس ‘ سے متاثر ہو کرتیار کیا گیا ہے ۔ امریکہ اس وجہ سے دنیا جمہوریت میں خود کو انسانی حقوق کا سب سے بڑاخدائی فوجدار بتانے میں گریز نہیں کرتا ۔ وہ دنیا کے ہر ملک میں انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کا دم بھرتے ہوئے سب سے زیادہ انسانی حقوق کو ہی مصلوب کرتا رہتا ہے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سنگھ پریوارنے محب وطن متشدد چہرہ ہونے کے باوجودمودی ویزا معاملہ میں امریکی انکار پر خود کو ذلیل اور سزاوار سمجھا ہے۔پابندی لگنے کی دیر تھی کہ مودی امریکہ جانے کیلئے مسلسل سیاسی کوششیں کرتے رہے ۔ گجراتی اور کئی تارکین وطن ہندوستانی رسوخ رکھنے والوں نے بھی وائٹ ہاؤس میں دستک دی کہ گجرات کے 2002 کے فسادات میں مودی کے کردارپر ان کیساتھ امریکہ حقارت کا برتاؤ نہ کرے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تمام کاوشوں کے باوجودامریکی حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔ ایسا کرنے کے پس پشت امریکہ کو تضادات سے بھی دو چار ہونا پڑا تھا ۔ ہندوستان میں یو پی اے کی حکومت سے پہلی بار مراسم اورتال میل محسوس کرنے کی وجہ سے منموہن حکومت سے خوشگوار تعلقات رکھنا چاہتا تھا ۔
امریکی درپہ دی حاضری:
دوسری طرف عالمی اسلامی برادری کو پیغام دیا جا رہا تھا کہ امریکہ اسلامی دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے باوجود سیکولرزم کے معاملہ میں گجرات کی کٹر ہندو حکومت کو سیکولر سرٹیفکیٹ نہیں دینے جا رہا ۔ یہ الگ بات ہے کہ جس طرح امریکہ نے حق پرستی کی علامت عراق کے صدام حسین اور اسامہ بن لادن کی شبیہ داغدارکرتے ہوئے اور بین الاقوامی قوانین کے بخیہ ادھیڑتے ہوئے سفاکانہ طریقہ سے موت کی نیند سلایا‘ تاریخ کے صفحات میں اس سیاہی کودھوناامریکہ کے بس کی بات نہیں ہے ۔بی جے پی کے قومی صدر راج ناتھ سنگھ نے اپنے امریکہ قیام میں اولین ترجیح کے طورپر سفارت کاروں کے دروں پر حاضری دیتے ہوئے سیاسی منتیں بھی کیں لیکن امریکہ ٹس سے مس نہیں ہوا ۔ ہو سکتا ہے راج ناتھ سنگھ نے مودی کے بی جے پی کے اختیارات پر بھی بات چیت کی ہو ۔ اس کے باوجود آر ایس ایس کا موہن بھاگوت کی قیادت والا گروپ امریکی بے رخی کی پرواہ کئے بغیر مودی کی قیادت پروان چڑھاتا رہا ۔ البتہ مودی اس کی پہلی ترجیح نہیں تھے ۔ یہ تو نتن گڈکری کیخلاف بدعنوانی کے الزامات کا اثر تھا کہ ریفرنڈم میں مودی قبول کر لئے گئے ۔ اس لئے شدت پسندی کیلئے مودی کی قیادت آکسیجن ثابت ہوئی۔ جبکہ گڈکری کی صدارت مزید دو مدت تک قائم رکھنے کیلئے بی جے پی نے اپنا آئین تک تبدیل کر لیا تھا ۔ مودی کو امریکی ویزا نہیں ملا تو کیا ہوا ۔ انہیں سنگھ پریوار کی سربراہی کا سرٹیفکیٹ تو مل ہی گیا ۔
مودی مخالف پالیس برقرار:
مودی اور نینسی کی ملاقات کے بعد بھی ویزا کے حوالہ سے امریکی موقف میں تبدیلی کا کوئی سرکاری بیان نہیں آیا ہے ۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساقی نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ مودی کیساتھ امریکی سفیر نینسی پاول کی ویلنٹائن ڈے پر ملاقات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مودی کے امریکہ داخلہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہے ۔ایک عام ہندوستانی یہ کادردناک سوال یہ ہے کہ ان کا ہر بڑا سیاستدان امریکہ جانے کو کیوں تڑپتا رہتا ہے ۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ اس فہرست کے سب سے بڑے نام ہیں ۔ ہندوستانی پارلیمنٹ میں وہ اوباما کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھتے وقت بچھے بچھے جا رہے تھے ۔ اپنے امیگریشن قوانین کی آڑ میں یہ ٹھنڈا ، ظالمانہ اور مطلق العنان امریکہ ہی ہے جس نے سابق صدر عبدالکلام ، سابق وزیر دفاع جارج فرنانڈیز ، مشہورومعروف بالی ووڈ آرٹسٹ شاہ رخ خان اور ان گنت ہندوستان کی سیکورٹی جانچ کے نام پرنہ صرف کپڑے تک اتروا کر توہین کی بلکہ اس کی خودہی تشہیر بھی کی ہے ۔
کتنی زیادتیاں گنوائیں؟
امریکہ نے ہندوستانی طالب علموں کے پیروں میں بیڑیا ں تک ڈالی ہیں ۔ اس نے ہندوستانی سفارتی دیویانی کھوبراگڑے کے خلاف فوجداری مقدمہ تک حکومت ہند کی سخت مخالفت کے باوجود چلا رکھا ہے ۔درخواست دہندگان ج بھی امریکہ کی ویزا پالیسی میں کرنسی کی شرائط پر رعایت کیلئے پرامیدہیں۔ ہندوستان کوجواہر لال نہرو دور میں مریکہ سے بدنام زمانہ پی ایل480 کا معاہدہ ا کرنا پڑا تھا ۔ اس کے تحت تقریبا سڑا ہوااناج درآمد ہوا تھا ۔ امریکہ بر سوں سے تکنیکی جانچ کے بعد انسانوں کیلئے ناقابل استعمال ادویات کو بھی ہندوستانی مارکیٹ میں فروخت کرتا رہا ہے جبکہ بڑی تعداد میں ہندوستانی مریض مرتے ہیں ۔ اس تجارتی ملک نے اپنی کاسمیٹکس کو فروخت کیلئے ہندوستانی خواتین کوحسینہ عالم کے خطاب مسلسل عطا کرنے کے سازش تیا رکی ہے ۔ہندوستان شایدتن تنہا ملک ہے جس کی دو خواتین کی خوبصورتی کو مسلسل مس ورلڈ اورمس یونیورس کا خطاب امریکی بازارواد کی ایما پر دیئے گئے تھے ۔ ہندوستانی مارکیٹ میں امریکی کاسمیٹکس کی دھاک جمنے کے بعد اب ہندوستانی حسینائیں بین الاقوامی مقابلہ حسن میں کامیابی حاصل رنے سے محروم ہورہی ہیں ۔ امیریکہ پرست ہندوستانی اسی خوش فہمی میں جی رہے ہیں کہ کئی امریکی نژاد لوگوں کو ادب ، سائنس ، طبی وغیرہ کے عالمی ایوارڈ ملتے رہتے ہیں ۔ بھلے ہی ایسے غیر ملکی ہندوستانی بھی امریکہ کی پرستش میں مبتلا ہو چکے ہوتے ہیں ۔
ایک حمام میں سبھی۔۔۔
امریکہ نے خود کو تعلیم وصنعت کے سب سے بڑے مثالی ادارہ کے طور پر تیار کرنے کا دعوی کر رکھا ہے ۔ ایشیائی اور افریقی ممالک کے لاکھوں طالب علم امریکہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنا اپنا ملک چھوڑنے کی دوڑ میں شامل ہیں ۔ امریکہ کو نسبتا سستی کی شرح پر بہتر انسانی کل پرزے مل جاتے ہیں جبکہ ہندوستان کو ایسے مواقع سے احساس تفاخر ہوتا ہے ۔ وہ اس کے بدلے میں ان ممالک میں اپنی ثقافت اور نیم برہنگی پر مبنی فیشن فروخت کرتا ہے ۔وہ کئی بار براہ راست اور بالواسطہ طور پر سمندر پار ہندوستانیوں کے ذریعہ بھی ان ممالک میں سیاسی مداخلت کرتا ہے ۔ وہ یہ بھی طے کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہندوستان سمیت تمام افریقی ایشیائی ملکوں میں کس پارٹی یا نظریہ کی حکومت قائم ہو جس سے اس کی رفاقت پروان چڑھ سکے ۔ اسے منموہن سنگھ کے طور پر ایک دوست سیاستدان مل ہی گیا جس کی وجہ سے ہند امریکی جوہری معاہدہ اور تھوک اور خوردہ کاروبار میں غیر ملکی سرمایہ کاری سمیت کئی دیگرامریکی مفادات پر مبنی معاہدے کئے گئے ۔ اس عمل میں اس نے کانگریس پارٹی کی چولیں ہی ڈھیلی کر دیں۔ اس سے اتحادیوں کے اضافی بایاں محاذ نے بھی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔
گوروں کے سیاہ ارادے:
گجرات کے وزیر اعلی اور ان کے سرگرم حامیوں کو’ نریندر‘ نام بہت بھاتا ہے کیونکہ وہ سوامی وویکا نند کا حقیقی نام ہے ۔ اپنے ساڑھے تین سال کے امریکی قیام میں پہلے تو وویکا نند نے امریکہ کی دل کھول کر تعریف کی ۔لیکن جب انہوں نے گورے امریکیوں کے سیاہ ارادوں کی اذیت برداشت کرتے تو ، پھر اس کی خوب تنقید کی ۔ مودی کو وزیر اعظم بنانے کی خواہش سے لبریزآر ایس ایس کارکن ان کا موازنہ وویکا نند سے کرتے ہیں ۔ مودی اگر امریکہ کے بارے میں وویکا نند کو پڑھ لیں تو امریکہ جاناہی بھول جائیں گے یا پھروویکا نند کوفراموش کردیں گے ۔مودی گجرات میں سردار پٹیل کامجسمہ تعمیر کرنے کی کاوش میں مشغول ہیں جو عالمی سطح پر بلند تریں ہوگا ۔ انھیں سردار پٹیل کے گرو ،بابائے قوم مہاتما گاندھی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔
طاق پہ رکھابابائے قوم کو:
بابائے قوم مہاتماگاندھی نے ہندوستان کی آزادی کیلئے امریکی صدر روزویلٹ کی انگریزی حکومت سے ثالثی کی دوستانہ پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا ۔ گاندھی نے کہا تھا کہ ہندوستان اپنی آزادی کی لڑائی لڑنے کیلئے خود انحصار ہے ۔ آج سے زیادہ خراب اقتصادی حالات کے باوجود نہرو نے امریکی خیمہ کے آگے سربجودہونا قبول نہیں کیا تھا ۔ انہوں نے امریکی اور کمیونسٹ خیموں کے درمیان تیسری طاقت کی تعمیر کرکے اس کی قیادت خود کی تھی جبکہ امریکہ اسی وقت سے ہندوستان کے خلاف پاکستان کی اقتصادی ، فوجی اور سیاسی مدد دوستی میں مسلسل نقب زنی کر رہا ہے ۔ بحر ہند میں امریکہ کا ساتواں جنگی جہازوں کا بیڑا کھڑا رہنے کے باوجود وزیر اعظم اندرا گاندھی کے جرات نے آخر بنگلہ دیش کی تشکیل کروا ہی دی جبکہ کانگریس نے خود کو امریکہ کی گود میں دھکیل دیا ہے ۔ لیکن قوم پرستی کا نعرہ بلند کرنے والی بی جے پی بھی کارپوریٹ دنیا کے چنگل میں پھنس گئی ہے ۔ نریندر مودی سے فیس لے کر امریکی کمپنیاں تشہیر کر رہی ہیں ۔سردار پٹیل کی دنیا کی سب سے اونچی مجوزہ مورتی کاجھنجھنا بھی ان کے ہی ہاتھوں میں ہے ۔ عالمی اور ہندوستانی کارپوریٹ گھرانوں کے اتحاد سے نریندر مودی کو وزیر اعظم کی کرسی کی طرف د ھکیلا جا رہا ہے ۔ ہندوستانی جمہوریت کاتلخ سوال ہے کہ تمام اقتصادی مشکلات کے باوجود کیوں ضروری ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو مغربی ممالک کی مدح سرائی کرنے ولوں میں شامل کر دیا جائے ۔ 
کیسا رہا رکشا بندھن؟
مودی گجرات کی ترقی کے حوالے سے چیلنج کرتے ہیں کہ ایسی ترقی کرنے کیلئے 56 انچ کا سینہ چاہئے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی اپنی وہی چھاتی امریکہ نہ جانے کا اعلان کرکے کیوں نہیں پھلاتے ؟آخر بی جے پی کے’ راشٹرگورو‘ یہ اعلان کیوں نہیں کرتے کہ انہیں امریکی ویزا کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملک جن میں تھائی لینڈ، نمیبیا ، عراق ، مصر ، شام ، افغانستان اور پاکستان وغیرہ شامل ہیں ، امریکہ کے شکار ہوئے ہیں ۔ ایشیا اور افریقہ براعظموں میں امریکی پالیسی سازوں نے ہندوستان اور ترقی پذیر ممالک کے سیاست دانوں کو اپنے پنجوں میں دبوچنے کی ہے ۔ امریکی سفیر اور گجرات کے وزیر اعلی نے ’رکشا بندھن‘ تو نہیں منایا ہوگا ۔ نریندر مودی اور نینسی پاول کی ویلنٹائن ڈے سے عین ایک دن قبل ہونے والی ملاقات کا رومانی پس منظر سمجھنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ پتہ نہیں وہ کونسا راز ہے جو ہندوستانی لیڈروں کو امریکہ جانے کے نام پر ان کے عزت نفس تک پر چوٹ پہنچاتا رہتا ہے ! اپنا علاج کروانے کیلئے صنعت کار ، لیڈر ، نوکرشاہ اور فلمی فنکاروں امریکہ جاتے رہتے ہیں ۔ یہاں تک تو سمجھ میں آتا ہے لیکن سیاست کوئی کینسر کی بیماری نہیں ہے اور امریکہ کوئی قابل ڈاکٹر نہیں ہے !یہی وہ عقلیت ، مادیت اور سائنسی ترقی ہے جس کیخلاف علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کھل کر آشکارہ کروانے کی کوشش کی تھی۔
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بناسرمایہ داری ہے
یہ پیر کلیسا کے کرامات ہیں آج
بجلی کے چراغوں سے منور کئے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پر مرادل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار

«
»

ایک تھا بادشاہ

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے