ہاتھ سجھائی نہیں دیتا

یہ اسلحہ مزارشریف ،کنٹر،قندھار،ہرات،ہلمنداوردیگرعلاقوں میں قائم ان فوجی کیمپوں سے غائب ہواہے جہاں امریکیوں فوجوں نے قیام کیاہے۔اب چونکہ امریکی فوجیوں نے ان کیمپوں کومسمارکردیاہے اوروہاں سے بگرام میں رپورٹ کرنے کے بعدیہ بات سامنے آئی ہے کہ ہلکے ہتھیارجن میں ایم ۱۶،لیزرگن اورفوجی پسٹل بمع سائلینسر شامل ہیں،زیادہ تعدادمیں غائب ہیں۔
بعض ذرائع کے مطابق یہ خطرناک اسلحہ منتقل کرتے ہوئے افغان ڈرائیوروں نے فروخت کردیاہے جبکہ ذرائع کے مطابق اس فروخت میں امریکی فوجی بھی مبینہ طورپرملوث ہیں جبکہ افغانستان کے وہ فوجی جواس اسلحہ لانے والے روٹس پر تعینات تھے ،وہ بھی اس میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق اسلحہ اونے پونے داموں مزاحمت کاروں کوفروخت کردیاگیاہے جبکہ بعض اسلحہ قبائلی مارکیٹوں اوروسطی ایشیاء کے علاقوں میں بھی فروخت ہورہاہے۔اس میں امریکی شارٹ گنزکے علاوہ دیگرخطرناک اسلحہ بھی شامل ہے۔امریکی فوج کے انخلاء کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پراسلحہ خردبردہوا ہے جبکہ کمپیوٹراوردیگرسامان پہلے ہی مختلف مارکیٹوں میں فروخت کیاجارہاہے۔امریکی فوج کیلئے آنے والافرنیچربھی افغانستان اورپشاورکی مارکیٹوں میں پہنچناشروع ہوگیاہے۔ 
دوسری جانب ذرائع کاکہناہے کہ یہ اسلحہ ۵۰۰ملین ڈالرسے کہیں زیادہ کاہے کیونکہ امریکیوں نے جواسلحہ فروخت کیاہے اس کیلئے انہوں نے پہلے یہ مؤقف اختیارکیاکہ یہ جنگ کے دوران بم دہماکوں میں تباہ ہوگیاہے تاہم انخلاء کے اعلان کے ساتھ ہی امریکی فوج نے آپریشن میں حصہ لینے سے نہ صرف انکارکردیابلکہ وہ اب جلد سے جلدیہاں سے نکلناچاہتے ہیں۔اسلحے کے اس قدربڑے سکینڈل کوچھپانے کیلئے امریکی فوجیوں کی جانب سے دومتضادرپورٹیں پینٹاگون کوارسال کی گئی ہیں۔پہلی رپورٹ میںیہ مؤقف اختیارکیاگیاکہ طالبان سے لڑائی کے دوران یہ اسلحہ تباہ ہوگیاہے اوردوسری رپورٹ میں یہ کہاگیاکہ اس اسلحے کوخوداپنے ہاتھوں سے اس لئے تباہ کیاگیاکہ مبادایہ طالبان کے ہاتھ نہ آسکے۔ پینٹاگون ان دومتضادرپورٹس کی بناء پراعلیٰ پیمانے پرتحقیقات کررہاہے تاکہ کانگرس کے سامنے اس رپورٹ کوکس طرح پیش کیاجاسکے ۔ 
افغان حکومت کوملنے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکانے ۲۰۰۱ء سے ۲۰۱۳ء تک افغانستان کے سب سے بڑے فوجی اڈے بگرام میں بنائی گئی دوہزارعمارات میں سے اٹھارہ سوعمارتوں کومنہدم کردیاہے اوراس کافرنیچر بگرامی بازارمیں کوڑیوں کے بھاؤ امریکی فوج نے فروخت کردیاجبکہ امریکی ذرائع نے خودتصدیق کی ہے کہ ۳۱دسمبر۲۰۱۴ء تک مزید باقی ۲۰۰عمارتیں بھی منہدم کردی جائیں گی اوراس پرکام تیزی سے جاری ہے۔۱۵۰عمارتیںیکم دسمبرتک ہرحال میں منہدم کرکے وہاں زمین کوہموارکردیاجائے گا۔ذرائع نے بتایا کہ ان دوہزارعمارتوں میں چھوٹے بڑے بنگلے،سیف ہاؤسزاورزیرزمین تہہ خانے بھی شامل تھے جہاں پرہزاروں مشتبہ مسلمانوں کوسخت اذیتیں دیکرحراست میں رکھاگیا چونکہ افغانستان سے اسٹرٹیجک معاہدے پردستخط کے بعدوہاں۸۹۰۰/امریکی فوجی رہ جائیں گے اوریہ فوجی پانچ اڈوں یعنی بگرام،قندھار،ہرات،جلال آباداورمزارشریف میں امریکی اوراتحادی فوج کے طیاروں ،ٹینکوں، فوجی گاڑیوں کے پانچ سوارب ڈالرسے زائدکے اسکریپ اورسلحہ کی حفاظت کریں گے۔ تاہم امریکانے وہاں پرقائم بڑے ہالزاورپرانی عمارتوں کومرمت کے بعدچھوڑدیاہے جبکہ ۲۰۰۱ء کے بعداپنی فوج کی عیاشیوں اورمسلمانوں کوقیدکے دوران اذیتوں کیلئے تعمیرکئے گئے قیدخانے اوربنگلے مسمارکردیئے ہیں تاکہ ممکنہ طورپرطالبان کی جانب سے قبضے میں کئے جانے کے بعددنیاکی رسائی ان مقامات تک نہ ہو۔
ادھر اسلحے کے بڑے بڑے ڈیلروں نے افغانستان میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اورانہوں نے افغان فوج اور پولیس کے ذریعے امریکی اسلحہ خریدناشروع کر دیا ہے ۔ مبینہ طور پر امریکی فوج نے دس طیاروں پرمشتمل قندھارسے خطرناک اسلحے کی بڑی مقدار لوڈ کرکے شام میں پیش مرگہ کردجنگجوؤں کیلئے جہازسے اتاراتھا جوکہ داعش کے مفتوحہ علاقوں میں گرگیا۔یہ کس قدرمضحکہ خیزبات ہے کہ امریکاجوبظاہرفضائی ٹیکنالوجی کی معراج پرہے لیکن اس کے پائلٹ داعش اورکردجنگجوؤں کے علاقوں میں کوئی تمیزنہ کرسکے۔ایک خبریہ بھی ہے کہ امریکانے عربوں کومزیدڈرانے کیلئے داعش کاجوہوّاکھڑاکیاہے ،یہ اسی پلان کے مطابق ہے۔بہرحال پچاس ارب ڈالر کا ایسااسلحہ جس میں ہلکے مگرخطرناک ہتھیارشامل ہیں امریکی فوج اس کیلئے خریدارچاہتی ہے کیونکہ اسلحے کی واپسی پر(۱۰۰)سوارب ڈالرکاخرچ اٹھے گا جس سے امریکاکودوگنانقصان ہوگا۔
روس اورچین نے اس اسکریپ کوخریدنے کااشارہ کیاتھالیکن امریکااوراس کے اتحادیوں نے انکارکردیا۔علاوہ ازیں دنیاکاکوئی اور ملک اس اسلحے کوخریدنے کیلئے تیارنہیں ہے کیونکہ یہ اسلحہ استعمال شدہ ہے جبکہ خلیجی ممالک نے داعش کے خلاف جنگ کرنے والوں کوبھی اس اسلحے کوخریدنے سے منع کردیاہے جس کے بعدیہ اسلحہ افغانستان میں رہ جائے گاجبکہ امریکی فوج افغان فوج کویہ اسلحہ دینے کیلئے قطعاًتیارنہیں ہے کیونکہ افغان فوج سے یہ اسلحہ شدت پسندوں،طالبان اورپاکستان کی مارکیٹ تک پہنچ سکتاہے اورامریکی اتحادی بھارت کوڈرہے کہ یہ اسلحہ کشمیری مجاہدین کے ہاتھ بھی لگ سکتاہے اس لئے یہ اسلحہ امریکااوربھارت کیلئے دردِ سربناہواہے۔پاکستان کویہ اسلحہ بطورامداددینے کی کوشش کی گئی لیکن پاکستان نے بھی یہ اسلحہ لینے سے انکارکردیاہے تاہم ذرائع کاکہناہے وسط ایشائی ممالک کی خفیہ مارکیٹ کے توسط سے یہ اسلحہ پاکستان میں فروخت ہورہاہے جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر تشددجوپہلے سے عروج پرہے ،اس میں اضافے کاخدشہ ہے ،اس اسلحے کوروکنے کیلئے اب تک حکومت کی طرف سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے اورنہ ہی اس حوالے سے کوئی قانون سازی کی جارہی ہے جبکہ اسلحے کے بڑے بڑے ڈیلربھی اس انتظارمیں ہیں کہ وہ کس طرح اس اسلحے کواپنے ہاتھوں میں لیں۔امریکی پسٹل بمعہ سائلنسرکی قیمت اس وقت پاکستان میں پانچ سے سات لاکھ کے قریب ہے لیکن بلیک مارکیٹ میں ڈیڑھ سے دولاکھ میں دستیاب ہے اورآئندہ دنوں میں اس کی قیمت میں مزیدکمی کاامکان ہے۔قوی امکان ہے کہ جنرل راحیل کے امریکی دورے میں اس خطرناک اسلحے کے بارے میں بات کی جائے لیکن سابقہ آرمی چیف کے دورمیں بھی اس اسلحے اوراسکریپ کے بارے میں جنرل کیانی نے اس میں عدم دلچسپی کااظہارکردیاتھا۔بہرحال یہ بات طے ہے کہ بھارت کوتو اس اسلحے اوراسکریپ کیلئے پاکستان سے راہداری نہیں مل سکتی گویا اس وقت امریکاکایہ حال ہے کہ
آنکھیں بھی ہیں ،راستہ بھی ،چراغوں کی ضیاء بھی سب کچھ ہے مگر ہاتھ سجھائی نہیں دیتا

«
»

خوف

افغان یوٹرن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے