یہ ویسا ہی معاہدہ ہے جیسا یاسرعرفات اور انور سادات نے اسرائیل اور امریکہ سے کیا تھا۔ کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدوں کا کیا حشر ہوا، آج جگ ظاہر ہے۔ موجودہ غزہ اُن معاہدوں کا جیتا جاگتا ثبوت ہے جو دو بھیڑیوں نے میمنوں کے ساتھ کیا تھا۔ کچھ لوگ اسے اکیسویں صدی کی ’ صلح حدیبیہ‘ قرار دے رہے ہیں۔ ہمارا جواب ہے کہ ’’ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے؟‘‘۔ ہم زندہ رہے تو چھ مہینے سال بھر بعد دیکھ لیں گے۔ ورنہ جو رہیں گے وہ دیکھیں گے۔
سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن جو کاٹنے کھانے والی ملوکیت کی جدید شکل وصورت کے نمائندے ہیں اور جمہوریت کی آڑ میں انسانیت کا شکار کرتے ہیں اور جرمنی فی زمانہ کفر اور طاغوت کے نمائندے ہیں۔ ان کا حال تو وہی ہے جو قرآن نے بتایا ہے کہ ’’ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں اس دین سے پھیرلے جائیں‘‘(البقرہ217) ’’ اور وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ تم بھی کسی طرح(ان کے جیسے) کافر ہو جاؤ‘‘۔(المُمتَحِنہ۔3) اور قرآن نے اسلام کے دشمنوں کو دوست بنانے سے تو سختی سے منع کیا ہے اس لیے الیہود اور ان کے حلیف اور معاون کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ ’’ تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤگے(المائدہ۔82)
مذکورہ معاہدے پر گفتگو سے قبل پہلے کچھ مبادیات کا تذکرہ ہو جائے۔ اسرائیل جو مسلم ملکوں کے مقابلے میں ایک بہت چھوٹا سا ملک ہے گزشتہ 50 سال سے ایٹمی ہتھاریوں کا مالک ہے۔ اس کا دیمونا(Dimona) ایٹمی ری ایکٹر فی الواقع ایٹمی اسلحہ ساز کارخانہ ہے۔ اسرائیل کے پاس کم از کم دو سو(200) ایٹم اور ہائیڈروجن بموں کا ذخیرہ ہے اور ایسے دورمار میزائل ہیں جو کئی ہزار کیلو میٹر دور تک مار کر سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن اسرائیل نے آج تک اس کا علانیہ اعتراف نہیں کیا ہے لیکن امریکہ برطانیہ ، فرانس، روس، چین اور جرمنی سمیت پوری ترقی یافتہ دنیا اس کھلے ہوئے راز OPEN SECRET سے واقف ہے لیکن آٹھ دس برسوں سے ایران کا معاشی مقاطعہ کرنے والے ملکوں کی مجال نہیں ہے کہ کوئی اسرائیل سے باز پرس کر سکے۔ مذکورہ سات ملکوں کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان بھی آج ایٹمی طاقت ہیں یعنی ایٹم اور ہائیڈروجن بم بنانے اور اسے مطلوبہ نشانے تک پہنچانے والے دور مارمیزائلوں کے مالک ہیں۔ ان حالات میں اگر ایران بھی ایٹمی طاقت بن جائے تو اس سے دنیا کا کیا بگڑنے والا ہے؟ سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات کو اگر پاکستان ،اسرائیل اور ہندوستان کے ایٹم بموں سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور اگر اسرائیل اور پاکستان و ہندوستان کا ایٹمی طاقت ہونا خطے میں طاقت کے توازن کو نہیں بگاڑتا تو آخر صرف ایران کے ایٹمی طاقت بن جانے سے طاقت کا توازن کیسے بگڑ جائے گا؟
لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایران کہتا ہے کہ وہ ایٹم بم نہیں بنارہا ہے اور یہ کہ وہ کہ ایٹمی طاقت کا استعمال محض پُر امن اور شہریCIVIL مقاصد کے لیے کررہا ہے۔ اور یہ کہ ایران ہندوستان نہیں ہے کہ جہاں جنگ محبت اور تجارت میں سب جائز ہے اور جو میکیا ولی اور چانکیہ دونوں کے اصول سیاست پر گامزن ہے۔ دوسرے یہ کہ ایران میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین و قطر کی طرح ’ملوکیت‘ نہیں ہے۔ وہ ملوکیت جس کا اسلام قرآن اور شریعت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ایران میں ایک دینی حکومت ہے۔(مسلمانوں کے دوسرے فرقے اسے دینی نہیں مانتے یہ دوسری بات ہے لیکن خود ایران کا کہنا یہی ہے کہ وہ ولایت فقیہ کے دینی نظام حکومت پر کار بند ہے اور اس کے دستور کی بنیاد قرآن سنت ہیں)۔ ایران کے دینی قائد و رہبر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا فتویٰ ہے کہ ایٹم بم بنانا حرام ہے۔ کیونکہ ایٹم بم ایک اندھا ہتھیار ہے جو دوست اور دشمن میں تمیز نہیں کرتا اور اسلام اندھے ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی اسلام بمباری جیسے اندھے طریقۂ جنگ کا حامی ہے۔
ایران کے دعوے کی تصدیق کا طریقہ یہ ہے کہ دنیا ایران سے یہ کہتی کہ وہ اپنے ایٹمی ری ایکٹروں کو عالمی معائینے کے لیے کھول دے تاکہ ’ بین الاقوامی ایٹمی معائنہ کار‘ ایرانی نیو کلےئر ری ایکٹروں کا معائنہ کرکے دنیا کو یہ بتا سکیں کہ وہ فی الواقع ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کے یہ کہ جو دنیا اسرائیل سے اس کے ایٹمی پروگراموں کے بارے میں جواب طلبی کی ہمت نہیں رکھتی یا ضرورت نہیں سمجھتی اُسے ایران یا شمالی کوریا وغیرہ کسی بھی ملک کو آنکھیں دکھانے کا کوئی حق نہیں۔
لہذا جب تک کہ اس کے بر خلاف ثابت نہ ہو جائے ہمیں بھی حکومت ایران کے بیان سے زیادہ رہبر معظم خامنہ ای کے بیان پر یقین ہے کہ ایران ایٹمی اسلحہ نہیں بنا رہا ہے۔ صرف اتنا ہے کہ وہ یورنیم کو اس حد تک افزودہ کرنے کی تکنیک حاصل کرچکا ہے جو ہتھیار سازی میں بھی کام میں لائی جا سکتی ہے۔
اب جو معاہدہ ہواہے وہ سراسر زیادتی ہے اور ایران کو معاشی پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں ناک رگڑنے پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔ تو اگر ایران کو یہی کرنا تھا تو روز اول ہی کر لیا ہوتا اپنے شہریوں کو اس مصیبت میں مبتلا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اور اگر ایران اپنے موقف میں صحیح ہے اور حق پر ہے اور کوئی انسانیت دشمن کام نہیں کررہا ہے تو پھر اُسے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہ تھی نہ ہے۔ کافر اور ان کا سرپرست ابلیس اہل ایمان کو کتنا ہی پریشان کیوں نہ کرلیں وہ اللہ کی طاقت سے آگے جانا تو درکنار اللہ کی برابری بھی نہیں کر سکتے جو مومنین کا ولی سرپرست وکیل اور مددگار ہے اور اس سے اچھا نہ کوئی مولا ہے نہ سرپرست نہ وکیل نہ مددگار۔
جواب دیں