سید منصورآغا
گزشتہ بدھ، 31 اکتوبر دہلی ہائی کورٹ کی ایک دورکنی بنچ نے ہاشم پورہ اجتماعی قتل کیس میں پی اے سی کے ریٹائرڈ 16 کارکنوں کو تاحیات عمرقید کی سزاسنائی اورٹرائل کورٹ کے مارچ 2015کے اس فیصلے کو الٹ دیا جس میں اس بنیاد پر ملزمان کو چھوڑدیاگیا تھا جوپانچ افراد اتفاق سے کسی طرح مارے جانے سے بچ گئے تھے، وہ گواہی کے وقت ان سپاہیوں کو پہچان نہیں سکے تھے۔ ہائی کورٹ نے بجا طورپر کہاہے کہ یہ واقعہ نہتھے لوگوں کو چن چن کر جان بوجھ کر مارڈالنے کا ہے۔ اس لئے یہ خطاکاراپنی باقی عمرجیل میں کاٹیں گے۔ اگرچہ اس فیصلے کا عام طورسے اس طرح خیرمقدم ہواہے گویا مظلوموں کو انصاف مل گیا۔ لیکن حقائق کچھ اورکہتے ہیں۔ اس فیصلے سے نہ تومقتولین کواوران کے لواحقین کو انصاف ملا ہے اورنہ ان پیادوں کو عمرکے اخری حصے میں جیل کی سزا اس جرم کا مداوا ہے جو انہوں ازخود نہیں بلکہ اعلیٰ حکام کے حکم پرانجام دیا تھا۔ کیس کی روداد اس کی گواہ ہے۔ کوئی شخص یہ تصورنہیں کرسکتا ہے پی اے سی کا ایک سب انسپکٹر از خود ایسے بھیانک کانڈ کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ اگرکوئی پاگل ہی ہوگیا تویہ تصورنہیں کیا جاسکتا کہ اس کے کہنے سے اس کی پلاٹون کےاسلحہ بردار 17 سپاہی اورہیڈکانسٹبل اورایک ڈرائیور ایسے بڑے جرم میں شریک ہوجائیں گےجب تک ان کو اوپر سے مکمل تحفظ کی یقین دہانی نہ کرادی گئی ہو۔کیس کی تاریخ بتاتی ہے کہ سرکاریں آتی اورجاتی رہیں، مگر ان سب کو از اول تا اخریہ تحفظ حاصل رہا۔ ان کی ملازمتوں میں کوئی خلل نہیں پڑا۔ ان کی سروس ڈائری بے داغ رہی۔ ان کو برابرترقیاں ملیں۔ وہ پوری پنشن، پی ایف اوردیگرفوائد کے ساتھ ریٹائر ہوئے۔ ان کی زندگی میں اس ایک واردات کے علاوہ کسی اورجرم میں ملوث ہونے کی بھی کوئی رپورٹ نہیں۔ اب اگرجرم کی سازش رچنے والوں، اورقتل کی سنگین واردات کے بعد اس کو عملی جامہ پہنانے والے اہل کاروں کو تحفظ فراہم کراتے چلے جانے والوں کا نام تک ایف آئی آر یا کیس میں نہیں آیا توانصاف کیسے ہوگیا؟ ہم کس چیز کا خیرمقدم کریں؟ یہ کیس اس بات کا ایک اورثبوت ہے کہ ہمارے ملک کا قانونی نظام میں صرف کمزوروں اورچھوٹوں کو ہی سزا دی سکتا ہے۔ بڑےمرتبےوالے بچ نکلتے ہیں۔ بلکہ ان کے مرتبےاوربلند ہو جاتے ہیں۔
ہاشم پورہ کہ یہ واقعہ 31سال قبل پیش آیا تھا۔ جواس وقت موجود تھے ان کو ضرور تھوڑابہت یاد ہوگا، مگر31سال میں تودنیا بدل جاتی ہے۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ اجتماعی قتل کے اس سانحہ کی کچھ تفصیل بیان کردی جائے۔ اتفاق سے یہ فیصلہ 31 اکتوبرکوآیا ہے۔ یہی وہ تاریخ تھی جب 1984 میں اس وقت کی خاتون آہن ملک کی وزیراعظم محترمہ اندراگاندھی کا ان کے ہی سیکیورٹی عملے نے قتل کردیا۔یہ عملہ سکھ تھا اوران کو دربارصاحب پر فوج کشی اوربم باری کا سخت صدمہ تھا۔ اس سانحہ کے بعد راجیو گاندھی وزیراعظم بنائے گئے۔ ماں کی اچانک اس طرح موت سے وہ سخت صدمہ میں تھے، سیاست میں بھی کچے تھے۔لیکن اندراجی کے قتل کی واردات کے ردعمل کے طور پر سکھ بھائیوں کے خلاف جو قیامت برپا ہوئی وہ بیشک ایک نہایت قابل مذمت اورسخت سنگین واقعہ تھا۔ لیکن اس کے بعد جو پارلیمانی چناؤ ہوئے اس میں حکمراں پارٹی کو غیرمعمولی کامیابی مل گئی۔یہ کامیابی دراصل انداراجی کے قتل کے بعد ہمدردی کی لہر کا نتیجہ تھا۔
اتفاق سے اس کے بعد شاہ بانو کیس ہوا۔ شاہ بانو کی شادی 1932 میں جب وہ 16 سال کی تھیں۔ اندورکے ایک خوشحال وکیل کے ساتھ ہوئی تھی جن سے ان کے پانچ بچے ہوئے۔ 14 سال بعد وکیل صاحب نے دوسری شادی کرلی۔ 32 سال تک دونوں ساتھ رہتی رہیں۔شاہ بانو جب 62 سال کی تھیں وکیل صاحب نے ان کو بچوں کے ساتھ گھرسے الگ کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد خرچہ دینا بندکردیا۔ گزارے کی فریاد لے کر شاہ بانو عدالت گئیں تو وکیل صاحب نے طلاق دیدی۔ روداد لمبی ہے۔ آخر ہائی کورٹ نے ان کا خرچہ 179.20 باندھ دیا۔ اس معمولی رقم کی ادائیگی کے خلاف ایک تحریک چلی۔ حکومت مسلم پرسنل لا بورڈکے مطالبہ پر ایک قانون لے آئی اورہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے 1984 میں پوجاکے لئے بابری مسجد کا تالا کھلوادیا۔ مندرکے لئے شلانیاس بھی کرادیا۔ ظاہرہے اس پروبال مچا۔ میرٹھ میں فرقہ ورانہ کشیدگی پیداہوئی جس کو شاطروں نے ہوا دی۔ کئی بار کرفیو لگا۔ یہ اسی کا تسلسل تھا کہ مئی1987 میں بھی فساد کی صورت پیدا ہوگئی۔ فوج اورپی اے سی تعینات کردی گئی۔ یہ گرمی کا شدیدموسم تھا۔ بجلی لی دی آتی تھی۔ رمضان بھی تھا۔ ایسے میں مزاجوں کی جو کیفیت ہوسکتی ہے اس کو بیان کرنے کی ضروت نہیں۔ تشدد کی وارداتیں ہوتی رہیں، تو پی اے سی لگادی گئی۔ ایک دن پی اے سی نے شکایت کی کہ فسادی ان کے دو رائفل چھین لے گئے۔ بس پھر کیا تھا۔ ایک بہانہ مل گیا۔ قریب کے مسلم محلہ ہاشم پورہ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ رمضان میں مسجد تک جانے کے راستے بند۔ روزہ داروں کا حال خراب۔ گھرگھرکہرام برپا۔ مگراس سختی سے حکام کو تسلی نہیں ملی۔ 22 اور23 مئی کی درمیانی شب (جمعرات وجمعہ رمضان 13 و 14) پی اے سی کی 41ویں بٹالین کی ایک پلاٹون، جس کا کمانڈنٹ سریندرپال سنگھ، سب انسپکٹرتھا، ہاشم پورہ پہنچی۔ اس میں کمانڈنٹ کے ساتھ 18 سپاہی اورہیڈکانسٹبل تھے جو ٹرک نمبر URU-1493 میں سوارہوکر آئے۔ جبری گھروں میں گھسے۔ کوئی 42افرادکو بندوق کی نوک پر گھیر کر اپنے ٹرک میں بھرکرلے گئے۔ جس وقت ان لوگوں کو لیجایا جارہا تھا، ایک مقامی فوٹوجرنلسٹ پروین جین نے ان کی تصویر کھینچ لی۔(مضمون کے ساتھ منسلک ہے۔) یہاں سے ان لوگوں کو چند کلومیٹر دور مرادنگرکے پاس گنگ نہر کے کنارے لیجایا گیا۔ ان کو نیچے اترنے کا حکم دیا گیا۔ جو اترتے گئے ان کو گولیاں مارکر نہر میں پھینکا جاتارہا۔کچھ وور واقع پولس پوسٹ پر سب انسپکڑ بی بی سنگھ نے گولیوں کی آوازیں سنی تو اندیشہ ہوا کہ قریب کے مکندپورگاؤں میں ڈاکہ پڑگیا ہے۔ وہ تھانیدار اورہیڈکانسٹبل کے ساتھ موٹرسائکل پر دوڑے۔ دورسے موٹرسائکل کی لائٹ دکھائی دی تو باقی ماندہ لوگوں کے ساتھ ٹرک نے دوڑ لگائی اورکچھ فاصلہ پر ہنڈن ندی کی کنارے پھر ان کو اترنے کاحکم دیا۔ جو نہیں اترا اس کو ٹرک میں ہی گولی ماری اور دریا میں اچھال دیا۔ کیونکہ پولیس نے ٹرک کوپہچان لیا تھا، اس لئے وہ فورا پی اے سی بٹالین ہیڈ آفس پہنچے۔ مگر سنتری نے یہ جان لینے کے باوجود کہ مقامی پولیس افسران ہیں، گیٹ نہیں کھولا کہ مبادا ٹرک نہ پکڑلیا جائے جو بہرحال خون آلود تھا۔ بس یہیں سے اندازا کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح قتل کی واردات میں ملوث عملے کو تحفظ فراہم کیا گیا۔
اس دوراان پولیس کے ایک نہایت فرض شناس افسرمسٹروبھوتی نارائن رائے ضلع غازی آباد کے ایس پی تھے جو فوراً ہی جائے واردات پہنچ گئے تھے، اورایسے زخمیوں کو اٹھا کرلائے جن کومردہ سمجھ کر چھوڑدیا گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے ایک کتاب (Hashimpura – 22 May) بھی لکھی۔ مسٹرنسیم زیدی، جو بعد میں چیف الیکشن کمشنربنے، غازی آباد کے ڈی ایم تھے۔ انہوں نے کچھ لاشیں نہر سے نکلوائیں۔ مگران دونوں افسران کو مزید تحقیقات سے روکنے کے لئے ریاستی حکومت نے 40 ہی گھنٹے میں کیس سی آئی ڈی کے سپردکردیا۔ اس کے بعد جب سرکار پر دباؤ پڑا تو سی بی سی آئی ڈی انکواری بٹھادی گئی۔ مسٹررائے نے لکھا ہے، ’’اپنی کتاب کی تیاری کے لئے سی آئی ڈی کی دستاویزوں کے مطالعہ کے دوران مجھے کئی ایسے مقام ملے جہاں تفتیش کے لئے ایسے سراغ موجود تھے جو سازش رچنے والوں کی طرف اشارہ کرتے تھے، لیکن سی آئی ڈی نے ان سراغوں پر اپنی جانچ آگے نہیں بڑھائی؟ کیوں؟‘
یہی اعتراف انسانی حقوق کی نگراں این جی اور ’’پی یو سی ایل‘‘ نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے جس کے مرتبین میں جسٹس راجندرسچر، آئی کے گجرال، پروفیسراے ایم خسرو شامل تھے۔ یہی بات .پی یوڈی آر کی رپورٹ میں پروفیسر اقبال انصاری (علی گڑھ ) نے کہی تھی۔ اوراب ایڈوکیٹ ورنداگروورنے، جنہوں نے انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے ہائی کورٹ میں اس کیس کی کامیاب پیروی کی ہے اپنے ایک نہایت چشم کشا آرٹیکل، ’’ Where prejudice is crime‘‘ میں یہی نشاندہی کی ہے کہ عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے دورا ن باربار کوشش کی باوجود متعلقہ بٹالین کا ریکارڈ پیش کرنے سے بچا گیا۔ آخر 31سال تک اصل ڈائری کو چھپا کر کیوں رکھا گیا، جس میں درج ہے کہ’’ سی کمپنی کی 41ویں پلاٹون کمانڈنت ایس پی سنگھ کے ساتھ جس میں پلاٹون کے 17 افرادتھے، جن کے سب کے نام ہیں، 17 رایفلس، ایک پستول اورکاتوسوں کے ساتھ ٹرک نمبر یوآی یو۔ 1493میں سوارہوکر شام پونے آٹھ بجے باہر گئے تھے۔‘‘ (6 نومبرانڈین ایکسپریس) ریکارڈ میں تو یہ بھی درج ہوگا کہ واپس آکر کتنے کارتوس جمع کرائے اورکتنے کام میں آئے؟ غرض یہ کہ پوراکیس ظاہر کررہا ہے کہ اصل مجرم کوئی اورتھے، اور گرفت میں صرف پیادے آئے ہیں۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے آئین اور ضابطہ قانون کی پیروی کے بجائے حکا م بالا کے حکم کی پیروی کو ہی اپنی ڈیوتی جانا۔ حکام بالا نے کس کے حکم پر یہ سب کچھ کیا؟ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ سکھوں کے خون میں اپنے ہاتھ رنگ کر جو لوگ خوش تھے کہ الیکشن میں بھاری جیت مل گئی، انہوں نے جب اپنے ہاتھ ایک دوسری اقلیت کے خون سے رنگے، تو ملیانہ، ہاشم پورہ اورمسجد کا تالا کھلوانا ان کو بہت مہنگا پڑگیا۔
فرقہ ورانہ واقعات کے باجود میرٹھ ایک سیکولر حلقہ رہا ہے، جہاں سے چاربار جنرل شاہنوا ز خان (1952، 1957، 1961 اور1971) اوردوبارمحترمہ محسنہ قدوائی (1980اور1984) کو لوک سبھا کے لئے چنا گیا۔لیکن اس کے بعد میرٹھ میں ہی نہیں پوری ریاست میں فرقہ پرستوں اورذات پات کی سیاست کی طوطی بجنے لگی۔ جب کوئی مورخ اس دورکی تاریخ لکھے گا تو اس نتیجہ پر پہنچے گااپنی احمقانہ سیاست سے، اور پہلے 1984 میں اور پھر 1987 میں قانون کی اندیکھی کرکے اقلیتوں کے خون کی جو ہولی کھیلی گئی اورفرقہ ورانہ سیاست کا جو بیج بویا گیا تھا، وہ آج اتنا تناور ہوگیا کہ روزآئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نفاذ کے خلاف علی الاعلان مہم چلائی جارہی ہے اوراب دھمکی دی جارہی ہے کہ ہم نہیں مانیں گے، جو جی میں آئے گا کرگزریں گے۔ صورت حال جب یہ ہے کہ تو اس فیصلے پر اظہارمسرت کا کیا جواز ہے؟ سچی با ت یہ ہے اس وقت جو مارے گئے تھے وہ بھی مظلوم تھے اوراب جن کو سزا ملی ہے وہ بھی اصل مجرم نہیں ہیں۔ ایک غلط حکومت کی غلط یقین دہانی کے مارے ہوئے لوگ ہیں جو عمرکے آخری حصہ میں ہیں۔
جواب دیں