ہاشم پورہ کے مسلمانوں کے ساتھ رات کی تاریکی میں ایک ندی کے کنارے جو کچھ ہوا وہ بہت کچھ ایسا ہی تھا جیسا 1949میں بابری مسجد میں اتر پردیش کے پہلے وزیر اعلی پنت کے اشارہ پر مورتیاں رکھوانے کے سلسلہ میں ہوا تھا۔ اس کی رپورٹ بھی ایک ہندو کا نسٹبل نے لکھائی تھی اور ہاشم پورہ کے مسلم جوانوں کی شہادت کے متعلق بھی ہر بار یہی کہا گیا کہ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ہوا اور وہ ہوا۔ بابری مسجد کے اندر رکھوانے والی مورتیوں کا مقدمہ اور ہاشم پورہ کے جوانوں کی چاندماری میں موت کا مقدمہ اتنا واضح تھا کہ اگر ہم نے یا عام مسلمانوں نے یہ توقع کری تھی کہ اس میں تو ملزموں کو کسی بھی طرح بچایا ہی نہیں جا سکتا تو غلط نہیں تھا۔ لیکن بابری مسجد کے معاملہ میں جو کچھ ہوا یا ہاشم پورہ کے ملزموں کو جس طرح بری کیا گیا اس نے ثابت کر دیا کہ نہ آج نہ آئندہ کبھی کسی ہندو کو مسلمان کے قتل میں اس ملک میں سزا دی جائیگی۔
ہاشم پورہ کے حادثہ کے چند روز یا ایک دن کے بعد ملیا نہ میں جو ہوا اسے یا1989میں بھاگلپور کے واقعہ کو کیسے بھلا یا جا سکتا ہے کہ وہاں فوج بھیج دی گئی تھی فوجی جو ان ایک پورے گاؤں کو فسادیوں سے بچا کر شہر میں لائے اور مقامی پولیس کے سپرد کر کے دوسرے گاؤں کو بچا نے کے لئے بھاگے۔ وہاں کے مسلمانوں کو لیکر جب شہر آئے تو تمام مسلمان غائب تھے پولیس سے معلوم کیا تو کہا گیا کہ انہیں محفوظ جگہ بھیج دیا ہے۔ ان میں کی ایک لڑکی ملکہ نام کی برابر کے ایک تالاب میں چھپ گئی تھی فوج کو دیکھ کر وہ سامنے آئی اور اس نے کہا کہ یہ جھوٹے ہیں انہوں نے سب کو مارنے کے لئے بھیج دیا وہ سب مر گئے۔ ایک مسلمان فوجی نے اس لڑکی سے شادی کر کے اسے اپنا لیا تھا۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اتنے بڑے حادثہ میں بھی کیا کسی کو سزا ہوئی ؟ہمارے درمیان میں ملک کے شاید ایسے اکیلے پولیس افسر مسٹر وبھوتی نرائن رائے صاحب موجود ہیں جن سے زیادہ اس دردناک حادثہ کو کوئی بھی نہیں جانتا۔
ہم تو اسے راجیوگاندھی سے جوڑتے ہیں جنہوں نے بابری مسجد کے اس تالہ کو کھلوایا جو پنت حکومت نے ڈلوایا تھا اور راجیوگاندھی نے ہندو وٹوں کے لئے پوجا پاٹ شروع کرا دی تھی۔ یہ سبق انہوں نے اپنی ماں سے سیکھا تھا کہ حکومت کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے تو تکلف نہ کرو۔ اندرا جی کے زمانہ میں ملک کے اندر علماء کرام خاصی تعداد میں موجود تھے۔ عزیز امام صاحب نے ان سے کہا کہ آپ دہلی کے جامع مسجد کے امام یا گنڈے تعویز اور عرس و قوالی والے مولویوں کے بجائے ان علماء4 سے ملئے جن کے نام کا ڈنکا عالم اسلام میں بھی بج رہا ہے۔ موصوفہ نے کہا کہ ان سے ملکر کیا کروں وہ یہ تو کہتے ہی نہیں کہ کسے ووٹ دو اور کسے نہ دو۔ میں جن سے ملتی ہوں یہ مسلمانوں کے ووٹ تو دلوا دیتے ہیں۔ راجیو گاندھی کے تالا کھلوانے اور شلا نیاس کے خلاف ہی وہ احتجاج تھا جو میرٹھ میں ہوا تھا اور اس کی سزا اس شکل میں دی گئی۔
محترم رائے صاحب گواہی دینگے کہ ایک یا پچاس سپاہی اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتے جب تک ان کے بڑے افسرا نہیں اشارہ نہ کریں اور بڑے افسر اس وقت تک کچھ نہیں کریں گے جب تک انہیں یہ یقین نہ ہو کہ وزیر اعلیٰ ان سے جواب طلب نہیں کریں گے اور کوئی وزیر اعلیٰ اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتا جب تک اسے یہ یقین نہ ہو کہ وزیر اعظم اس کام سے خوش ہو جائیں گے۔ ہمارا الزام ہے کہ یہ گولیاں بے شک پی اے سی کے جوانوں کی رائفل سے نکلی تھیں یہ وزیر اعلیٰ ویر بہادر نے چلوائیں اور انکواشارہ راجیو گاندھی نے کیا تھا۔
کون نہیں جانتا کہ مسز اندرا گاندھی کو ایک سکھ بینت سنگھ نے اس لئے مارا تھا کہ انہوں نے سکھوں کے گولڈن ٹیمپل پر آپریشن بلوا سٹار کے نام سے بم باری کرائی تھی جس میں گرو دوراہ بھی کئی جگہ ٹوٹا تھا اور نہ جانے کتنے محترم سکھ مارے گئے تھے۔ اتنے بڑے حادثہ کے بعد اگر کوئی سکھ اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر اس کا بدلہ لے تو وہ مجرم تو ہے لیکن اسے معاف بھی کیا جاتا تو نا انصافی شاید نہ ہوتی۔ راجیوگاندھی نے کیا کم گناہ کیا تھا کہ وہ مسجد جہاں 1515سے اذان اور نماز ہو رہی تھی اس میں پنت نے سرکاری تالا ڈلوایااور راجیوگاندھی نے اسے کھلوا کر اذان اور نمازکے بجائے پوجا پاٹ شروع کرا دی۔ اس پر مسلمان اگر سکھوں کی طرح فوج اور پولیس میں ہوتے تو ہو سکتا تھا کہ کوئی شیر خاں راجیوگاندھی کو ان کی ماں کے پاس پہنچا دیتا لیکن مسلمانوں کا تو یہ حال ہے کہ ایک لاکھ کے قریب مسلمان اب تک فساد کے نام پر شہید کئے جا چکے ہیں لیکن کسی ایک کو ایک دن کی سزا بھی نہیں ہوئی۔ اب اگر اپنے لئے سجدہ کرنے والے مسلمانوں کی طرف سے پروردگارکچھ اور لوگوں کے دل میں یہ ڈالدے کہ وہ راجیو گاندھی کو انکے پاس پہنچا دے تو یہ اس کا معاملہ ہے جس کے گھر میں اذان اور نماز کے بجائے کسی اور کی پوجا کے لئے راجیو نے تالا کھلوایا تھا۔
ہم مسلمانوں کا تو ملک کے پہلے وزیرداخلہ سردار پٹیل فوج اور پولیس میں داخلہ بند کر گئے تھے جن سیاسی لیڈروں کو مسلم نواز کہا جاتا ہے ان میں ایک بہو گنا جی بھی تھے ان سے ڈاکٹر فریدی صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ پی اے سی کے متعلق ہر جگہ سے خبر آتی ہے کہ وہ کرفیو کے زمانہ میں مسلمانوں کی دکانیں لوٹ لیتے ہیں۔ ایک تو مسلمان مارے جائیں ، زخمی ہوں پھر کارو بار بھی ختم ہو جائے۔اگر آپ ایسا کریں کہ پی اے سی میں 10فیصد ی مسلمانوں کی بھرتی کرادیں تو ہندو پولیس والے ایسی حرکت نہیں کریں گے۔ بہو گنا جی نے کہا تھا کہ کیا بیرکوں میں گولی چلوا دوں؟
عدالتوں کا حال یہ ہے کہ جس مسلمان کو پولیس کے رشوت خور بلکہ حرام خور سپاہی جو بھی الزام لگا کر ان کے دربار میں پیش کردیں وہ اس پر ما تحت کی طرح عمل کرتے ہیں۔تازہ ترین معاملہ شاہد بدر فلاحی کا ہے انہوں نے کہا جاتا ہے کہ ایک پوسٹر چپکایا تھا جس میں مسجد اقصی ، مسجد قرطبہ اور بابری مسجد کے فوٹو تھے ان کے نیچے ایک آیت کا ترجمہ لکھا تھا کہ ’’ اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ کے گھر میں اللہ کا ذکر کرنے سے روک دے۔‘‘ ظاہر ہے کہ اس سے بڑا جرم کیا ہو سکتا ہے ؟ انہیں چودہ برس کے بعد اس لئے مجبور ہو کر رہا کرنا پڑا کہ ایک بھی گواہ پولیس کے پڑھائے ہوئے سبق کو نہ سنا سکا اور یہ صرف اس لئے ہوا کہ سچ کو یاد رکھنا نہیں پڑتا وہ برسوں کے بعد بھی یاد رہتا ہے اور جھوٹ چار دن کے بعد دماغ سے محو ہو جاتا ہے۔
شاہد بدر فلاحی صاحب مسلم طلبا کی تنظیم سمی کے صدر ہیں۔ سِمی پر بھی اسی لئے ایڈوانی جی نے پابندی لگوائی تھی کہ انہوں نے ایک پوسٹر چھاپا تھا۔ ان نوجوانوں کو اندازہ نہیں تھا کہ حکومت اتنی نازک مزاج ہے کہ اسے بابری مسجد کے فوٹو میں بھی فدائیوں کے چھپے ہونے کا اندیشہ ہو تا ہے۔ نہرو سے لیکر مودی تک کسی وزیر اعظم نے ڈی آئی آرمیسا ٹاڈا پوٹا این ایس اے یا مکو کا جیسے قانون کے تحت کسی ہندو کو بند کرنے کی اجازت نہیں دی اور ہر مسلمان جسے حکومت بند کراتی ہے اسے ایسے ہی کسی قانون کے تحت بند کراتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ ثبوت کوئی نہیں ہے کوئی عدالت سزا نہیں دے سکتی اس لئے دس بیس برس تک بند رکھ کر مسلمانوں کی زندگی برباد کر دی جاتی ہے ہر روزمسلمان دستور اور آئین کے فریب میں مارا جاتا ہے۔ کاش کوئی اس دستور کوجلا کر راکھ کر دے اور اعلان کر دے کہ ملک ہندوؤں کا ہے غیر ہندو یا ہندو بن کر رہ سکتے ہیں یا جزیہ دیکر اگر یہ ہو جائے تو یہ مسلمان کے لئے دارالحرب ہو جائیگا جس کے بعد مسلمان فیصلہ کریں گے کہ اب کیا کرنا ہے۔؟
جواب دیں