حرمین کا پیغام خادم الحرمین کے نام

جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن 
کسی جمشید کا ساغر نہیں میں
ہمارے ہی میناروں نے کل سعودی حکومت کی عبد الفتاح سیسی نوازی پر اور اخوان دشمنی پرخون کے آنسو بہائے تھے ،آج ہمارے ہی مینارے آپ کی ، خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز کی، حوثیوں کی یورش کو کچلنے کی کوشش پراور سیاست میں صحیح روش اختیار کرنے پرتعریف کرنے پر مجبور ہیں، یمن میں یہ اقدام دین اسلام کا عین تقاضہ ہے اور اسلام کی حفاظت کے لئے ایک صحیح اور ضروری قدم ہے ، 
خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز ، آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کی عزت ہمارے نام سے ہے ، ساری دنیا میں آپ کا نام محترم ہی اسی لئے ہے کہ اس میں ہماری طرف یعنی حرمین نسبت کی گئی ہے ، ساری دنیا میں مسلمانوں کے طائرٍ روح کا نشیمن حرمین کی سرزمین ہے وہ اس کے لئے اپنی جانیں قربان کرسکتے ہیں اور اپنا سب کچھ نثار کرسکتے ہیں، چونکہ آپ کی نسبت حرمین کی طرف ہے اس لئے آپ کے صحیح اقدام سے تمام مسلمانوں کو خوشی ہوتی ہے ، اس وقت آپ نے یمن میں جواقدام کیا ہے وہ درست بھی ہے اور بروقت بھی ہے ، علی عبد اللہ صالح نے شیعہ حوثیوں سے مل کر اور ایران کے تعاون سے ہادی منصور کی جائز حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کی، ہمارے میناروں نے اسلحہ سے بھرے ہوئے پانی کے جہاز دیکھے ہیں جو ایران سے بھیجے گئے تھے تاکہ ملک کے اندر خلفشار پیدا کیا جائے اور شیعیت کے قدم جمائے جائیں اور حرمین کی سرزمین کو شہ مات دی جائے ۔ اس طرح یمن میں ایرانی سرگرمیوں نے سعودی عرب کے لئے داخلی سلامتی کا مألہ پیدا کردیا تھا اس لئیے سعودی عرب کو اس کا نوٹس لینا ہی تھا ، جب ملک کے پایہ تخت صنعاء پر حوثیوں نے جارحانہ کارر وائی کے ذریعہ قبضہ کرلیا تھا ا ور قصر صدارت کو زیر نگین کرلیاتھا اور ہادی منصورکو جو یمن کے جائز اور دستوری فرمانرواں ہیں اور دنیا کے تمام ملک ان کی اس حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں بیرون ملک پناہ لینی پڑی تھی اس وقت یمن کے فرمانرواں منصور ہادی نے حوثیوں کی جارحیت کے خلاف سعودی عرب سے مدد طلب کی تھی دنیا کے ہر قانون کے تحت یمنی صدر کی مدد کے لئے سعودی عرب کا یہ اقدام درست ہے اس پر ایران کو اور اخبارات میں ایران کی لابی کو واویلا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔آج ایرانی لابی اخبارات میں اس خبر کو اس طرح پیش کررہی ہے جیسے سعودی عرب نے کسی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے ۔ شام اور عراق میں ایران کی کھلی ہوئی جارحیت پریہ اخبارات خاموش رہتے ہیں ۔شام میں جو ناقابل بیان ظلم ہوا ہے چشم فلک نے اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں دیکھی ہے ۔
خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز ، آج کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ آپ کی حکومت نے ایرانی جہاز کو ہوائی اڈے پر اترنے نہیں دیا اس میں عازمین عمرہ سوار تھے ، اور یہ اس وجہ سے کہ پہلے سے جہاز کی روانگی کی کوئی اطلاع تھی اور نہ سعودی عرب میں اترنے کا اجازت نامہ۔ بظاہر تو یہ بات مشہور کی جائیگی کہ عازمین عمرہ کو عمرہ سے روکا گیا لیکن اس غلطی کی تو بہر حال سزا ملنی ہی چاہئے تھی کہ پہلے سے اس کی اطلاع نہیں دی گئی تھی اور نہ سعودی عرب میں جہاز کے اترنے کی اجازت حاصل کی گئی تھی ۔ میری آنکھوں نے اپنی دور بین نگاہوں سے شام میں ایرانی حکومت کی اور حزب اللہ کی سفاکانہ غارت گری دیکھی ہے۔تین لاکھ معصوم جانیں شام میں ہلاک ہو چکی ہیں اور بیس لا کھ پناہ گزین ہیں اگر چہ بظاہر یہ کارروائی بشار الاسد کی ہے لیکن اگر بشار کی حمایت میں ایران کا پنجہ سفاک اوردست غارت گر نہ ہوتا تو بشار کو بہت پہلے ملک چھوڑ دینا پڑتا۔لاکھوں معصوم بچوں عورتوں اور مردوں کے قتل کے خون کے دھبے ایران کے دامن پر ہیں۔اگر اس کی پاداش میں سعودی عرب ایران کے تمام عازمین حج وعمرہ کو اس وقت تک کے لئے حج اور عمرہ سے روک دے جب تک ایران شام وعراق میں ظلم وسفاکی سے دست کش اوردامن کش نہیں ہوجاتا ہے تو سعودی عرب کا یہ اقدام غلط نہیں ہوگا۔ آخر شام کے لاکھوں مظلوموں کی داد رسی کیسے ہوگی، اور ملک شام کی سیاہ رات کب ختم ہوگی؟ ایران کے توسیع پسندانہ عزائم بہت خطر ناک ہیں، شام پر اس کا قبضہ، عراق پر اس کا قبضہ ، لبنان پر اس کا قبضہ ، یمن اور بحرین اس کے نرغے میں، آخر وہ وقت کب آئیگا کہ ایران کے بے پناہ ظلم وستم کے خلاف اسلامی ملک حرکت میں آئیں گے۔ اسلام اور عالم اسلام کو سب سے بڑ ا خطرہ ایران سے ہے، کسی کو غلط فہمی نہ ہو ،ہم شیعہ اور سنی کی بات نہیں کرتے ہیں ،شیعیت تو یزید کے مقابلہ میں حق کا اور امام حسین کے ساتھ دینے کا ایک تاریخی حوالہ ہے، کیا ایران کو شیعیت یہی سکھاتی ہے کہ وہ یزید سے زیادہ بدکردار بشار کی حمایت کرے جس کی حکومت کا کوئی جواز موجود نہیں اور ان اسلام پسند جماعتوں سے لڑے جو شام میں اقتدار کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہم خادم الحرمین سے یہ نہیں کہتے کہ وہ شیعہ مسلک کے لوگو ں کو حج اور عمرے سے روک دیں، لیکن اگر وہ ایران سے حج اور عمرہ پر آنے والوں پر روک لگا دیں تو یہ اقدام پورے طور پر قرین انصاف ہوگا۔ایران کی موجودہ حکومت حسینیت کی نہیں یزیدیت کی نمائندگی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں ہزاروں ہزار شیعہ ہیں اور ان میں بعض مرجعیت کا درجہ رکھتے ہیں جو شام کے سلسلہ میں اپنی حکومت کی پالیسی سے ناراض ہیں اور اس پالیسی کو شیعہ مخالف پالیسی سمجھتے ہیں ۔اور عرب چینلس پر ان کے انٹرویو نشر ہوچکے ہیں ۔
عالی مرتبت جناب خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز!آپ کی عالی مقامی ہمارے دم سے ہے ، ہمارے مینارے جو باتیں گوش گذار کررہے ہیں انہیں غور سے سنئے ، دنیا کے تمام مسلمانوں نے آپ کی ذات سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، آپ نے اقتدار سنبھالتے ہی فوراً خالد التویجری کو بڑے بھائی کی تدفین سے پہلے ہی معزول کردیا، آپکو شاید اندازہ نہ ہو کہ عالم اسلام میں ہر گھر میں اس خبر کے چرچے تھے کیونکہ گذشتہ عہد میں آپ کے بڑے بھائی کی بیماری اور معذوری کا فائدہ اٹھا کرکے سارے غلط فیصلے اسی شخص نے کرائے تھے، لوگوں کا خیال ہے کہ عالم اسلام کی مسلم اور محترم دینی جماعت الاخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینے میں بھی اسی تویجری کا ہاتھ تھا۔اور پھراخوان کی جمہور ی اور دستوری حکومت کو ختم کرکے عبد الفتاح سیسی جیسے فاسد اور مفسد شخص کی حمایت اور مالی مدد بھی اسی تویجری کے ایماء اور اشارے پر ہوئی تھی، آج ہزاروں مظلوم اور بے کس اور بے سہارا لوگ مصر کی جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں اور سینکڑوں کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔ آپ کے اقتدار کے تخت پر جلوہ افروز ہونے سے ان مظلوموں کے لئے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ آپ حصار ظلم وستم کو گرائیں گے وہاں اندھیری رات ختم ہوگی اور نیا سورج طلوع ہوگا۔ مسلمانوں کو مایوس مت کیجئے ، آپ مصر پر دباو ڈالئے، بے قصور لوگوں کو رہا کروائیے۔جب لوگوں کو صحیح یا غلط یہ خبر ملی تھی کہ عبد الفتاح سیسی جب آپ سے تعزیت کے لئے ملنے آئے تو آپ نے ان سے ملنا پسند نہیں کیا، آپکو اندازہ نہیں ہوگا ہزاروں لاکھوں مسلمان گھروں میں کیسی خوشی اور مسرت کی لہراس خبر سے دوڑ گئی تھی، دنیا کے مسلمان آپ سے یہ امید لگائے ہوئے ہیں کہ آپ اپنے پیش رو کی غلطیوں کو بہ تدریج ٹھیک کریں گے اور سعودی عرب کے وقار کو پورے طور پر بحال کریں گے۔
محترم المقام خادم الحرمین الشریفین! میری دور بین آنکھوں نے عالم اسلام کی دینی کانفرنسوں کو دیکھا ہے اور علماء مشائخ اور اہل دین کی آوازیں میرے کانوں تک پہونچی ہیں۔میرے کانوں کو دنیا کے بہت سے ملکوں اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں تقریرں کے سننے کا موقع ملا ہے۔عبد الفتاح سیسی جیسے مجرم کی مدد نے سعودی عرب کی شہرت کو داغدار کیا تھا،میں اگرچہ حرم کا مینار ہوں لیکن اللہ کے فضل سے میری قوت مشاہدہ بہت تیز ہے اور میری قوت سماعت حیرت انگیز ہے، آپ یقین کیجئے کہ میں نے جو کچھ اس وقت آپ سے کہا ہے یہ پورے عالم اسلام کی آواز کی صدائے باز گشت ہے ہمیں نہیں معلوم کہ یہ آواز آپ کے کانوں تک پہنچی یا نہیں پہنچی ہے۔ ساری دنیا میں آپ کے جو سفارت خانے ہیں ان کا کام ہے کہ عالم اسلام کے جذبات کو آپ تک پہنچائیں اس لئے کہ عالم اسلام آپ سے جتنی مجت کرتا ہے اور کسی سے نہیں کرتا اور یہ آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ عالم اسلام کو اعتماد میں لیکر وہ قدم اٹھائیں جس سے اسلام سرسبز وسر بلند ہو۔اس وقت شام کے معصوم باشندوں کی داد رسی کرنا اور ان کو ظلم سے بچانا اور ایران کو کیفر کردار تک پہنچانا آپ کی منصبی ذمہ داری ہے ۔
میری جانب نسبت کرنے والے معززومکرم خادم الحرمین ، میں نے جو باتیں آپ کے گوش گذار کی ہیں وہ آپ کے التفات کی مستحق ہیں ، میں مینارہ حرم ہوں لیکن خدا نے مجھے زبان دی ہے ( انطقنا الذی انطق کل شي )
آپ نہ صرف یمن کا بلکہ ایران کی ریشہ دوانیوں کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیجئے ۔یمن میں اس وقت آپ کا اقدام سو فی صد درست ہے ، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اخبارات میں بھی ایرانی لابی اتنی طاقتورہوگئی ہے کہ اس میں حق بات کو سامنے آنے نہیں دیا جاتا ہے ۔ کوئی ایران پر تنقید کرے یا عراق کے حکمراں پر تو وہ بیان شائع نہیں ہوسکتا ہے ، شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والوں کی مذمت میں بیان شائع ہوگا لیکن بشار اور ایران کی مذمت میں کوئی بیان یا مضمون شائع نہیں ہوسکے گا اور یمن میں سعودی حکومت کے جائز اقدامات کی کوئی حمایت کرے تو اخبارات میں یہ خبر تشنہ طباعت رہ جائے گی ، کوئی ایسی خبر زیور طبع سے آراستہ نہ ہوسکے گی جس میں سعودی حکومت کی حمایت ہو اور ایران موضوع تنقید ہو۔ ابھی کچھ دن پہلے ہندوستان میں عربی زبان کے اساتذہ کی طرف سے سعودی عرب کی حمایت میں بیان جاری کیا گیا تھا انہیں اخبارات میں عام طور جگہ نہیں مل سکی۔ ان چیزوں کا نوٹس لینا اور مناسب اقدام کرناآپ کے سفارت کاروں کا کام ہے ۔یہ سفارت کاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جانیں کہ وہ کون سے اخبارات ہیں جو سعودی عرب کو طاقتور اور معزز دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ کون سے اہل قلم ہیں جو سعودی عرب سے محبت کرتے ہیں اور کبھی تنقید بھی کرتے ہیں تو بربنائے اخلاص اور ایک دینی فریضہ کے طور پر۔آنکھ بند کرکے ہر اقدام کی حمایت کرنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں ہے کیونکہ قلم ان کے ضمیر کی ایک امانت ہے اور عدل کی میزان ہے،انہیں نہ حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ ۔

«
»

ارکان پارلیمنٹ کیلئے مشاہرات اور غیر معمولی سہولتیں کیوں

یمن ، عراق اور شام کے حالات مزید خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے