افغانستان اورعراق پر امریکی حملے سے پہلے اور بعد میں قصر سفید کے سابقہ ظالم مکیں جارج بش کے مختلف بیانات ،دعوے اور اب اوبامہ کی تقریریں سن سن کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ کوئی فرد چاہے وہ دنیاکی واحد سپر پاور کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو،آخر انسان ہونایعنی فانی ہونا کیسے بھول سکتا ہے؟وہ یہ کیونکر بھول جاتا ہے کہ اس دنیا سے اوپر بھی ایک سپر پاور ہے جو چاہے تو ایک لمحے میں پوری کائنات کو تہہ و بالا کر دے؟لیکن ایک سانس کا محتاج یہ انسان خود کو پوری دنیا کے انسانوں کی قسمتوں کا مالک سمجھتا ہے۔
ویسے انسان کی فطرت کے اندر شائد یہ خرابی ہے کہ دولت اور طاقت کی فراوانی اسے فرعونوں کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے،پھر وہ دنیا کے سارے وسائل پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں پھر وہ دوسرے انسانوں سے کیڑوں مکوڑوں سے بھی زیادہ برا سلوک روا رکھتا ہے۔اس سلوک کی کہانیاں ہم روز پڑھتے اور سنتے ہیں اور یہ صرف امریکی انتظامیہ تک محدود نہیں۔ کشمیر اور افغانستان سے لیکر کیوبا اور فلسطین تک،انسانی فطرت کی اسی کجی کے قصے بکھرے ہوئے ہیں لیکن وہ جو کہتے ہیں ناکہ’’ ہر فرعونے را موسیٰ‘‘ تو آج کے دور کے ان فرعونوں کے بھی اپنے ہی ایوانوں سے موسیٰ پروان چڑھ رہے ہیں۔ مارچ کامہینہ شروع ہوتاہے تونجانے مجھے ایک بہادربیٹی راشل کوری (Rachel Corrie)کاوہ خط جو اس نے غزہ کی پٹی سے اپنے ماں باپ کو ای میل کیا تھا،بے تحاشہ یادآنے لگ جاتاہے۔اس نہتی لڑکی کوپورایقین تھاکہ یہ اس کااپنے ماں باپ کے نام آخری پیغام ہے۔
راشل کوری وہ امریکی لڑکی تھی جو مظلوم فلسطینیوں کی خاطراسرائیلی بلڈوزر کے نیچے آکر ہلاک ہو گئی تھی۔وہ ان امریکی والینٹئر(Volunteer)میں شامل تھی جو فلسطینیوں پر ڈھائے جانے اسرائیلی مظالم اور ان کے گھروں کا مسمار کئے جانے کے خلاف احتجاج کرنے اور دنیا کو ان زیادتیوں سے باخبر کرنے کے ارادے سے رافہ میں جمع ہوئے تھے۔ راشل نے یہ خط ۷ فروری۲۰۰۳ء کو اپنے ماں باپ کو ای میل کیا تھا جسے اس کی موت کے بعد اس کے ماں باپ نے گلوبل نیوز نیٹ ورک کو جاری کر دیا تاکہ دنیا بھر کے میڈیا کو پتہ چل جائے کہ ان کی بیٹی نے ان مظلوم اور بے بس لوگوں کی حمائت اورحفاظت کی خاطرجان دی جو لوگ اپنا دفاع اور حفاظت خود نہیں کر سکتے تھے۔
راشل کوری اپنے اس خط میں لکھتی ہیں کہ مجھے غزہ کی پٹی میں آئے ہوئے دو ہفتے ہو چکے ہیں لیکن اتنا کچھ پڑھنے، انفرادی طور پر ان مظلوم اور مفلوک حال لوگوں سے معلومات لینے اور ڈاکو مینٹریز(Documentaries)دیکھنے کے باوجودمیں اس صورتحال کیلئے بالکل تیار نہیں تھی جس کا سامنا مجھے یہاں آکر کرنا پڑ رہا ہے۔فلسطینیوں پر فوج کے مظالم کا یہ عالم ہے کہ شائد ہی آپ کو کوئی گھر ایسا ملے جس میں توپوں کے گولوں کے سوراخ نہ ہوں بلکہ بیشتر گھر تو مسمار کئے جا چکے ہیں۔لوگوں کی نقل و حرکت پر مسلسل پہرے ہیں اور ان کے معاملات کے فیصلے ایک پولیس کا سپاہی کرتا ہے۔یعنی انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے اور بحفاظت واپس آنے کی قسمت کا فیصلہ بھی اسی کے موڈ پر ہے۔چھوٹے بچوں تک کو بے دریغ گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے اور رات دس بجے کے بعد نظر آنے والے ہر فرد کو بغیر پوچھے گولی سے اڑا دیا جاتا ہے، جبکہ زندگی کی سہولتوں کا یہ عالم ہے کہ پانی کے دو بڑے ذخائریا کنویں اسرائیلی فوج نے تباہ کر دیئے ہیں۔اب صرف ایک ذخیرۂ آب بچا ہے جس کی حفاظت اور باقی گھروں کو بچانے کیلئے مقامی لوگ مجھ جیسے انٹر نیشنل لوگوں کی مدد چاہتے ہیں لیکن ہماری تعداد محدود ہے۔راشل مزید لکھتی ہے کہ میں سوچتی ہوں کہ میں تو پانی خرید سکتی ہوں اور میرا تو ایک گھر امریکہ میں ہے جہاں میں جب چاہے واپس جا سکتی ہوں لیکن ان لوگوں کے پاس کیا آپشن ہے جب کہ یہاں کی بیشتر آبادی ان لوگوں کی ہے جو دو سے تین بار پہلے بھی بے گھر ہوکر ریفیوجی بن چکے ہیں۔
دنیا کو ا ن فرعونوں سے مظلوم لوگوں کو بچاتے ہوئے اور ان مظلوم لوگوں کے گھروں کو مسمار ہونے سے روکنے کی کوشش میں آخر کار راشل کوری خود بھی اس ظلم کا نشانہ بن گئی ۔۱۶مارچ ۲۰۰۳ء کوایک اسرائیلی بلڈوزرکو ایک فلسطینی کا گھرگرانے سے روکتے ہوئے یہ ۲۳ سالہ نوجوان بہادر لڑکی دب کر ہلاک ہو گئی لیکن اپنے پیچھے روشنی کی ایسی کرن چھوڑ گئی ہے جو ہمیں یاد دلاتی رہے گی کہ فرعونی طاقتوں سے ٹکر لینے والی قوتیں بھی دنیا میں ہمیشہ موجود رہتی ہیں۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے گھر ہی میں پروان چڑھے تھے اور امریکی لے پالک،اسرائیل سے ٹکر لینے والی لڑکی بھی امریکی شہری ہی تھی لیکن کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ امریکی شہریوں کی زندگی اور حفاظت کی ٹھیکیدار امریکی انتظامیہ راشل کی دردناک موت(قتل) پر خاموش رہی تھی اور امریکی میڈیا بھی اس معاملے کو معمول کی ایک بات سمجھ کر (Underplay)کر گیا یعنی اس نے کوئی خاص اہمیت ہی نہیں دی۔
راشل کوری کے ساتھ یہی سانحہ کسی اور ملک میں ہوا ہوتا تو شائد ابھی تک اس ملک پر بھی لشکر کشی ہو چکی ہوتی اور دنیا کو یہ باور کروایا جاتا کہ امریکہ اپنے شہریوں کی جان و مال کا کس قدر خیال رکھتا ہے لیکن ان صہیونی طاقتوں کے سامنے امریکہ کی مجال نہیں کہ احتجاج تک کر سکے۔راشل کوری کی موت نے جو روشنی کی لکیر چھوڑی ہے ویسی ہی روشنی کی قندیل مجھے عالیہ کی شکل میں نظر آئی تھی۔عراق پر امریکی حملے سے کچھ دن پہلے جب ساری دنیا میں احتجاجی مظاہرے ہورہے تھے اور جنگ کے مخالف لوگوں کی انسانی زنجیریں بن رہی تھیں تو یہ لڑکی اپنا ملک اور تین سالہ بچی کو چھوڑ کر عراق پر حملے کے خلاف انسانی زنجیر میں شامل ہونے کیلئے بغداد پہنچ گئی تھی۔دینیا پیو نے یہاں آکر اسلام قبول کیا اور اپنا نیا نام عالیہ رکھ کر مظلوموں کے حقوق کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا ۔ برطانیہ کی ایک مشہور اخبار نویس ’’ایوان رڈلے‘‘ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی خاطر چھپ کر اور بھیس بدل کر افغانستان پہنچ جاتی ہے اور وہاں طالبان کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ان طالبان کے حسنِ سلوک کی بناء پر ایسی مسلمان ہو کرلوٹتی ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کی تائید میں سب سے زیادہ بلند آواز اسی ایوان رڈلے کی ہے۔ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ ہمارے حکمران ان فرعونوں کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں بنے ہو ئے ہیں ۔اسی قادرِ مطلق سے دعا ہے کہ وہ اس دور کے موسیٰ کو بھی جلد بھیج دے کہ اب فرعونیت اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے
جواب دیں