حقیقی اور روایتی ایمان کا فرق

ڈاکٹر ساجد عباسی

جو ایمان اقرار باللسان سے تصدیق بالقلب کے درجے میں نہیں پہونچتا اس کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے
ماہِ رمضان ایسا ماہ ہے جو حقیقی اور روایتی ایمان کا فرق کھول کررکھ دیتا ہے۔جولوگ رمضان سے قبل نماز کے پابند نہیں تھے لیکن رمضان میں انہوں نے بہت پابندی سے نماز پڑھی ،تراویح میں قرآن سنا اور روزے رکھے لیکن بعد رمضان ان کی کیفیت قبل از رمضان کی سی ہوجائے تو یہ سمجھیے کہ ایسے لوگ روایتی ایمان کے حامل ہیں ۔ بعد از رمضان کا عمل بتلادیتا ہے کہ کس کا حقیقی ایمان ہے اور کس کا روایتی ایمان ۔روایتی ایمان سے مراد ایسا ایمان جو آدمی کو محض اس لیےمسلمان بنادیتا ہے کہ وہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوا ہے اور اس نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ اسلام لانے کا کیا مطلب ہے اور ایمان کے کیا تقاضے ہیں ۔کیا ایمانیا ت اندھا دھند چند عقائد کو مان لینے کا نام ہے؟ان عقائد کے پیچھے اگر دلائل کی طاقت نہ ہو تو یہ ایمان ہمیشہ خطر ے میں رہتا ہے۔جب ایمان روایتی ہو تو اس صورت میں رمضان کے روزوں سے حقیقی تقوی بھی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر بیج میں خرابی ہوتو چاہے زمیں کتنی ہی زرخیز ہو اس بیج سے پودا نہیں اُگے گا۔ اس لیے روزوں کے ذریعے تقوی کی جو بیٹری چارج کی گئی وہ رمضان کے فوراً بعد ڈسچارج ہوجاتی ہے ۔ یعنی رمضان میں تقویٰ کا جو مظاہرہ ہواتھا وہ تقویٰ حقیقی نہیں بلکہ روایتی تقویٰ تھا۔
جو ایمان اقرار باللسان سے تصدیق بالقلب کے درجے میں نہیں پہنچتا اس ایمان کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔ایسے ایمان کو خوف اور لالچ کے امتحان سے گزاراجائے تو وہ ڈگمگانے لگتا ہے ۔روزمرہ زندگی میں لوگ قلیل فائدے کے لیے اور تھوڑے سے نقصان سے بچنے کے لیے ایمان کا سودا کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ایمان کی آزمائش مسلسل ہوتی رہتی ہے۔
آج ہم فخر کرتے ہیں کہ الحمدللہ مسلمان بھارت میں 20 فیصد ہیں لیکن اگر اس جم غفیر کو ایمان کی کڑی آزمائش سے گزارا جائے تو کیا یہ مسلمان ایمان کو اپنی جان و مال پر ترجیح دیں گے یا پھرایمان کاسودا کرکے گھر واپسی کریں گے ؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ہم ایمان کی آزمائش کرتے ہیں تاکہ معاشرہ میں حقیقی اہل ایمان اور روایتی مسلمانوں کا فرق واضح ہوجائے ۔أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُواآمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ۔کیالوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اِتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟حالانکہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔(سورۃ العنکبوت 2-3)
چونکہ بھارت کے حالات کسی بھی رخ پرجاسکتے ہیں اس لیے مسلمانوں کی مذہبی قیادت اس بات کی کوشش کرے کہ خطبات جمعہ کے ذریعے روایتی ایمان کو حقیقی ایمان میں بدلے۔
حقیقی ایمان کیا ہے ؟ اس کا ایک بہترین ماڈل قرآن میں پیش کیا گیا ہے۔فرعون اور اس کے سرداروں نے ارادہ کیا کہ موسی علیہ السلام کے پیش کردہ معجزات سےجو ہیبت و رعب طاری ہواتھا اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے جادوگروں سے مقابلہ کروایا جائے ۔ موسی علیہ السلام اور جادوگروں سے مقابلے کا دن طے کردیا جاتا ہے۔مقابلے سے قبل جادوگر فرعون سے استفسار کرتے ہیں کہ اگر وہ مقابلے میں جیت جائیں تو انعام میں ان کو کیا ملے گا۔مقابلہ سے قبل جادوگروں کی سوچ کی آخری حد دنیاوی فائدوں تک محدود تھی ۔فرعون نے ان کی توقعات سے بڑھ کر ان کو یقین دلایا کہ ان کو انعام کے ساتھ اپنا مقرب بنالے گا۔ مقابلے میں جب جادوگروں پر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا عصا حقیقت میں اژدہا بن گیا ہے اور وہ جادوگری کے علم کے مطابق کسی صورت میں جادو نہیں ہے تو ان کے ہوش اڑگئے ۔لیکن انہوں نے سچی بات کو چھپانے کے بجائے اسے سارے لوگوں پرآشکارا کرنے کا ارادہ کرلیا اور اقرار کرلیا کہ موسیٰؑ اللہ کے سچے رسول ہیں ۔نہ صرف انہوں نے سچائی کا اعلان کیا بلکہ وہ بے اختیار سجدے میں گر گئے اوراعلان کردیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لاتے ہیں ۔پھر مزید وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ہم موسی و ہارون کے رب پر ایمان لائے ہیں ۔زبان سے ایمان کا اقرار کرنے سے قبل ہی ایمان ان جادوگروں کے دلوں میں جگہ بنا چکا تھا۔ جادوگروں کی شکست اور ان کے اقرارِ ایمان کے بعد فرعون اپنی ذلت کو چھپانے کے لیے جادوگروں کے لیے ایسی سخت سزا کا اعلان کرتا ہے جس کو سن کر ایک انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں ۔سزا سنائی گئی کہ مخالف سمتوں سے ہاتھ پاؤوں کاٹ کر کھجور کے تنوں پر سولی دے دی جائے ۔اتنی بہیمانہ سزا کو سن کر ان کا حقیقی ایمان پکار اٹھتا ہے کہ دنیا کی زندگی کی خاطر اس قیمتی ایمان کو قربان نہیں کیاجاسکتا۔ حقیقی ایمان حقیقی کامیابی کا ضامن ہوتا ہے جو آخرت کی کامیابی ہے۔پورےاطمینان سے جادوگروں نے جواب دیا کہ اے فرعون! تو بس اس زندگی کو ختم کرسکتا ہے جبکہ ہم نے اللہ رب العالمین سے آخرت کی ابدی کامیابی کا سودا کرلیا ہے۔یہ ہے حقیقی ایمان جو قلوب میں جاگزیں ہوتا ہے تو پھر کسی صورت میں نہیں نکلتا۔ حقیقی ایمان کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوابِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (سورۃ حٰم السجدہ 30) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہےاور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سےکہتے ہیں کہ”نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاو اس جنّت کی بشارت سے جس کاتم سے وعدہ کیا گیا ہے۔اس آیت میں فرمایا جارہا ہے کہ جس دل کےاندرشعوری اور حقیقی ایمان پیدا ہوتاہے تو ایسے دل کو مضبوط کرنے کے لیے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور تسلی دیتے ہیں کہ دنیا کی مصیبتوں پر گھبراؤ نہیں ۔جنت کی عظیم نعمتیں تمہارے لیے مہیا کی گئی ہیں ۔غالباً فرشتوں کے نزول سے ان جادوگروں کے دلوں میں استقامت پیدا کی گئی جب انہوں نے سچائی کو قبول کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔
آج کل یہ خبر عام ہے کہ کچھ مسلم لڑکے اور لڑکیاں اسلام چھوڑ رہے ہیں ۔دراصل کچھ قادیانی اور عیسائی اسلام کو بدنام کرنے کے لیے اپنے آپ کو Ex-Muslimsظاہر کرتے ہیں تاکہ علم سے تہی دامن مسلم نوجوان اسلام چھوڑنے پر آمادہ ہوجائیں ۔ اسلام وہی شخص چھوڑ سکتا ہے جس کے دل میں سرے سے ایمان داخل ہی نہ ہوا ہو ۔ ایسے مسلمانوں کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ:قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۔۔ یہ بدوی کہتے ہیں کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘۔ان سے کہو، تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ’’ہم مطیع ہوگئے‘‘۔ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ (سورۃ الحجرات 14) اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کے دورِ خلافت میں فتنۂ ارتداد بہت بڑے پیمانے پر ظاہر ہوا تھا ۔
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ روایتی ایمان کو کیسے حقیقی ایمان میں بدلاجاسکتا ہے ۔حقیقی ایمان کے پیدا ہونے کا سب سے موثر ذریعہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ہے ۔قرآن دلائل کی کتاب ہے ۔قرآن صرف ایمانیات کو پیش ہی نہیں کرتا بلکہ ایمانیات کے اثبات میں بے شمار دلائل پیش کرتا ہے۔توحید ،آخرت و رسالت کو ثابت کرنے کے لیے تاریخ سے اور آفاق و انفس سے دلائل پیش کیے گئے ہیں ۔قرآن میں اللہ کے وجود پر اور اس کے واحد الہ ہونے (توحید) پر بے شمار دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ آخرت کے امکان و وجوب پر دلائل پیش کیے گئے ہیں کہ جو ہستی ایک مرتبہ انسانوں کوپیداکرنے پر قادر ہے دوسری مرتبہ پیداکرنے پر کیوں کر قادر نہیں ہوسکتی؟ انسان کی فطرت پکار پکار کر مطالبہ کرتی ہے کہ ہر ظالم سے اس کے ظلم کا بدلہ لیاجائے اور مظلوم کو انصاف ملے۔ اسی انسانی فطرت کے مطالبے پر دنیا میں عدالتیں قائم ہوتی ہیں۔لیکن ہر ایک جانتا ہے کہ دنیا میں پورا انصاف ممکن نہیں ہےبلکہ اس دنیا میں ظالم مزے کررہے ہوتے ہیں اور معصوم لوگ خواہ مخوہ سزا بھگت رہے ہوتے ہیں۔اس لیے انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ آخرت قائم ہو جہاں مظلوموں کومکمل انصاف ملے۔نیک لوگوں کو نیکی کی جزا ملے اور برے لوگوں کوبرائی کی سزا ملے۔رسالت کے معاملے میں قرآن خود رسالت محمدی کو ثابت کرتا ہے کہ ایک نبی امی کیسے ایساکلام پیش کرسکتا ہے جس کی نظیر آج تک کوئی پیش نہیں کرسکا۔ حضرت محمد ﷺ کا کردار ، آپ کی تعلیمات کی تاثیر اور آپ کےلائے ہوئے انقلاب کے عالمگیر اثرات عقیدہ رسالت کو ثابت کرتے ہیں۔قرآن ہی دنیا کی واحد ایسی کتاب ہے جو عقل و شعور کو دعوتِ فکر دیتی ہے اور غیبی حقائق کوثابت کرنے کے لیے مضبوط دلائل پیش کرتی ہے۔جو شخص بھی قرآن کو سمجھ کر تدبّرکے ساتھ پڑھے گا اس کو غیر متزلزل ایمان نصیب ہوگا ۔قرآن اس حقیقت کو اس طرح بیان کرتا ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ۔سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کاذکر سن کرلرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔(سورۃ الانفال 2)
امت مسلمہ کے افراد کے اندر ضعفِ ایمانی کی بنیادی وجہ قرآن کو بغیر سمجھے پڑھناہے۔الحمدللہ آج دنیا کی ہر زبان میں قرآن کے تراجم و تفاسیر موجود ہیں۔ غیر مسلم مرد وخواتین قرآن کے تراجم پڑھ کر دولت ایمان سے بہرہ مند ہورہے ہیں ۔چونکہ ان کی مذہبی کتابوں میں دلائل کا فقدان ہوتا ہے اس لیے وہ قرآن کے دلائل کوپڑھ کراسلام کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔
قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ آخرت کے آنے سے پہلے وہ دلائل کے ذریعے آخرت کو علم الیقین کے درجے میں پیش کرتا ہے ۔ قرآن بہت بڑے خطرہ سے پہلے اس خطرہ سے آگاہ کرنے والا الٰہی کلام ہے ۔قرآن کا منشا یہ ہے کہ عین الیقین (جب میدان حشر میں لوگ جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے) سے قبل قرآن پڑھنے سے ایسا علم الیقین حاصل ہو کہ مرنے سے پہلے جہنم سے بچنے کی تیاری کرلی جائے ۔اسی بات کو قرآن میں اس انداز میں پیش کیا گیا ہے:كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ ۔ہرگز نہیں، اگر تم یقینی علم کی حیثیت سے (اِس روش کے انجام کو) جانتے ہوتے (تو تمہارا یہ طرز عمل نہ ہوتا)۔ تم دوزخ دیکھ کر رہو گے۔پھر (سن لو کہ) تم بالکل یقین کے ساتھ اسے دیکھ لو گے۔(سورۃالتکاثر 5-7)
قرآن پڑھتے ہوئے جب ایمان بڑھتا ہے تو غیبی حقائق علم الیقین کے درجے سے آگے بڑھ کر عین الیقین کے درجے میں اس طرح دکھائی دیتے ہیں گویا ہم اپنی آنکھوں سے ان حقائق کو دیکھ رہے ہیں ۔ایمان جب مزید بڑھتا ہے تو قرآن پڑھنے والا ایسا محسوس کرتا ہے گویا حق الیقین کے درجے میں وہ جنت کی نعمتوں سےلطف اندوز ہورہا ہو اور جہنم کی آگ کی حدت کو محسوس کررہا ہو
(وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ ۔اور یہ بالکل یقینی حق ہے۔سورۃ الحاقہ51)
ان گزارشات سے یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا اور اس کتا بِ ہدایت سے ہدایت حاصل کرنا ایمانِ خالص کو دل میں پیداکرنے اور اس کو ترقی دینے کے لیے لازمی حد تک ضروری ہے ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں دیندار گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیا ں جو صوم و صلوۃ کے پابند تھے وہ بھی الحاد کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں ۔ اس لیے کہ انہوں نےقرآن کو ناظرہ پڑھا اور حفظ بھی کیا لیکن انہوں نے اس کو سمجھ کر پڑھنے کی زحمت کو کبھی گوارا نہیں کیا۔اس دورِ فتن میں قرآن کا انفرادی و اجتماعی مطالعہ تدبر کے ساتھ کرنا حقیقی ایمان کو پیداکرنے اور اس ایمان کی سلامتی و ترقی کے لیےاشد ضروری ہے۔ورنہ مسلمان روایتی ایمان کو لیے ہوئے کسی بھی فتنہ کا شکا ر ہوسکتے ہیں ۔روایتی ایمان ہوتواغیار کو دعوتِ ہدایت دینا تو درکنار خود الحاد و ارتداد کے فتنہ سے بچنا مشکل ہے۔

بشکریہ : ہفت روزہ دعوت

«
»

عید الاضحےٰ اورقربانی کے احکام قرآن و سنت کی روشنی میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات __

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے