سوال یہ ہے کہ کوئی اپنا گھر آنگن کاروبار اور وطن چھوڑ کر کب تک ان کیمپو میں زندگی گزار سکتا ہے جن تکلیفو کا انبار لگا ہے. جب کوئی انسان اپنا پشتینک گھر شردھداستھل اور یادیں چھوڑ کر کسی خوف یا مجبوری میں نقل مکانی کرتا ہے تو اس کے دل پر کتنا بوجھ ہوتا ہے یہ کوئی اور آدمی ٹھیک سے انداز نہیں لگا سکتا. وادی کی وہ خوبصورتی وہ آب و ہوا وہ خوشگوار ماحول جب بار بار ٹین کے تپتے کیمپوں میں گرمی اور برسات میں یاد آتا ہے تو دل تڑپ جاتا ہے. ایک مہاجر کا درد اور دل کی تکلیف و درد ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا. مجھے تو اس طرح کا تصور کرنے سے ہی تکلیف اور غصہ اور غم کے سیلاب کا آسان ستانے لگتا ہے اور جب اس دکھ اور پریشانی کو کوئی دو دشک سے زیادہ سے جی رہا ہو جھیل رہا ہو اور بھگت رہا ہو اس کا کیا حال ہو گا۔
ریاست میں انتخابات سے پہلے ہر پارٹی یہ دعوی اور وعدہ کرتی رہی ہے کہ کشمیر کو مذہب کے نام پر نہیں تقسیم جانا چاہیے اور کشمیر ہندو پنڈتوں کا بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ وادی کے مسلمانوں کاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف انتخابی نعرہ اور اعلان خطوط کا شاندار یقین دہانی ہی زیادہ نظر آتا ہے. ویسے تو اس مفتی حکومت سے کشمیری پنڈتوں کے واپسی کی امید کرنا صحرا میں پانی تلاش کرنا ہی سمجھا جائے گا جس کے وزیر اعلی نے حلف لیتے ہی ریاست میں امن انتخابات کا کریڈٹ پاکستان اور علیحدگی پسندوں کو دینے میں ذرا بھی شرم یا جھجک محسوس نہیں کی تھی.
اگر مفتی اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی فوج کشمیری عوام اور الیکشن کمیشن کو بھی ریاست میں جمہوریت کو منصفانہ انتخابات کے لئے مضبوط کرنے کا صلہ دیتے تو بھی بات کسی حد تک گلے سے اتر سکتی تھی لیکن اب وہ کامن منیمم پروگرام میں ترجیح کی بنیاد پر شامل کشمیری پنڈتوں کی محفوظ واپسی پر اگر مگر کر رہے ہیں. یہ عجیب اور دوغلی بات ہے کہ ایک طرف تو کشمیری پنڈتوں کی محفوظ گھر واپسی کو لے کر سب کے حق اتفاق نظر آتے ہیں لیکن جب اصل میں اس کام کو انجام دینے کی منصوبہ بندی پر عمل کی بات آتی ہے تو علیحدگی پسند اور اپوزیشن اس کی مخالفت میں طرح طرح کے بہانے بنانے لگتے ہیں. اب تنازعہ کشمیری پنڈتوں کے لئے ریاست میں مختلف بستی کو بنانے کو لے کر اٹھا ہے.
جو لوگ ان کے لیے الگ بستی کو مقابلے اسرائیل میں یہودی بستیوں سے کر رہے ہیں ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ اسرائیل جن فلسطین بستیوں میں اپنی یہودی آبادی کو زبردستی قبضہ کرنے کی نیت سے ایک منظم سازش کے تحت پوری دنیا کو ٹھیگا دکھا کر بسا رہا ہے کیا کشمیری پنڈتوں پر وہ مثال لاگو کرنے کا کوئی اسی طرح کی بنیاد ہے کشمیری پنڈت کشمیر کے مقامی ہیں اور ان کو پاکستان اور کشمیر کے علیحدگی پسند عناصر نے وادی کو مسلم آبادی تک محدود کرنے کے لیے باقاعدہ دہشت گرد مہم چلا کر وہاں سے بے دخل کیا ہے.
اگر ایسا کرنے والوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ وہ اپنی طاقت کے بل پر ایسا کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور اب وہ نہیں چاہیں گے تو کشمیری پنڈت وادی میں اپنے گھر کبھی واپس نہیں لوٹ سکیں گے تو ان کو حکومت بھی فوج کی تعیناتی بڑھا کشمیری پنڈتوں کی ان پرانے گھروں یا ممکن نہ ہو تو نئی بستی کو میں واپسی کراکر یہ احساس کرا سکتی ہے کہ حکومت ہند اور کشمیر حکومت علیحدگی پسندوں دہشت گردوں اور ان کے آقا پاکستان کو جب چاہے تب ان کی اوقات اور حیثیت بتا سکتی ہے. اگر اس منصوبہ بندی پر عمل میں مفتی حکومت رکاوٹ ڈالتی ہے یا اپنے وعدے سے مکرتی ہے تو بی جے پی کو چاہیے کہ وہ مخلوط حکومت گر اکر اور گورنر راج لگا کر فوج کی مدد سے ہر قیمت پر کشمیری پنڈتوں کی وادی میں شامل وقت رہتے واپسی کرائے کیونکہ پنڈتوں نے کبھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا ہے.
بی جے پی کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اگر وہ کشمیری پنڈتوں کی وادی میں محفوظ واپسی جیسے اہم ارادے کو بھی پورا کرنے سے گریز کرتی ہے تو اس کو اقتدار کا بھوکا سمجھا جائے گا. پی ڈی پی جیسی الگاوادی اور عسکریت پسند حامی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے کو لے کر بی جے پی کی پہلے ہی کافی فذیہت ہو چکی ہے. اب بی جے پی کے پاس یہ دفاع ہتھیار بھی نہیں ہے کہ کشمیر میں اپنا ایجنڈا نافذ کرنے میں وہ مرکز میں اپنی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے مجبور ہے.
دفعہ 370 کو ہٹانے کی بات ایک بار پھر ٹھنڈے بستے میں ڈالنے سے بی جے پی کی حالت اقتدار اور اپوزیشن میں مختلف بات بولنے سے پہلے ہی چال کردار اور چہرے پر انگلی اٹھنے سے پتلی ہو رہی ہے اب کشمیری پنڈتوں کی وادی میں واپسی پر بی جے پی کو کسی قیمت پر نہیں جھکنا چاہیے ورنہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور والی کہاوت اس پر لاگو ہونے میں دیر نہیں لگے گی کیونکہ کالادھن واپس لانے اور زمین کے حصول کے قانون کو لے کر وہ پہلے ہی دباؤ میں ہے.
کس طرح آسماں میں سوراخ ہو نہیں سکتا
ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو
جواب دیں