ہیپی نیو ایئر۔۔۔۔ ذرا سوچئے!

اس بربریت پر مائیں ابھی تک نوحہ کناں اور باپ سہاروں کے متلاشی ہیں مگر ہمارے ملک کی ایک کلاس کے بگڑے نوجوان اورمغربی معاشرے، انڈین کلچر کے دلدادہ مادر پدر آزاد نئے سال کا جشن اور نیو ایئر نائٹ منانے کیلئے پشاور کے نوحے کو نظر انداز کرکے ابھی سے شراب کباب کے انتظامات میں پڑ ے نظر آتے ہیں۔ مجھے اس بے ہودگی پر بہت کچھ لکھنا تھا مگر ہاتھ قلم کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ، سوچتا ہوں پشاور میں جنازے کیسے کاندھوں پر اٹھائے گئے ہوں گے۔؟
نیو ایئر پر کچھ نیالکھنے کی بجائے27 دسمبر 1999کو شائع ہونے والی ایک تحریر آپ کی نذر کرتا ہوں شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
رات کے 12بجنے میں کچھ دیر باقی تھی ، تمام گھر والے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے جبکہ میں مطالعہ سے فارغ ہو کر ایک خوبصورت کارڈ کو دوبارہ پڑھ رہا تھا جس میں صرف یہی درج تھا:۔
’’ ڈیئر عظیم کمال۔ السلام علیکم! خیریت موجود و مطلوب، نئے سال کی آمد آمد ہے اس موقع پر میری طرف سے آپ کو نہایت خلوص کے ساتھ بمع 
اہل و عیال نیا سال مبارک ہو، ایک دعا کے ساتھ اجازت۔
تیری زندگی میں خوشیاں ہوں بے شمار تیرا دامن بھی انہیں سمیٹ نہ سکے
والسلام آپ کی کزن، سمیعہ کرن‘‘
آج دسمبر کی آخری شب تھی، ٹھیک 12بجنے والے تھے، میں سوچ رہا تھا کہ اس کا جواب دیا جائے یا نہیں، دوسرے ہی لمحے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، میں نے رسیور کان کے ساتھ لگایا ہی تھا کہ میرے سلام کے فوراً بعد دوسری طرف سے آواز آئی۔
’’عظیم! ۔۔۔میں ۔۔سمیعہ ۔۔۔کیسے ہیں؟ یقیناًآپ کو نئے سال کی مبارکباد کا کارڈ مل گیا ہوگا۔۔۔۔ بڑے کنجوس واقع ہوئے ہیں، کم از کم جواب ہی دے دیا ہوتا، بہرحال ایک دفعہ پھر ہیپی نیو ایئر ٹو یو عظیم۔۔۔۔۔‘‘ کارڈ اور شعر کیسا لگا۔۔۔۔ وہ بولتی گئی ۔
یہ کیسا مذاق ہے ، مجھے آپ کا کارڈ مل گیا ہے، شکریہ! لیکن مجھے حیرت ہے کہ تمہیں عقل تک نہ آئی کہ یہ جو نیا سال ہے کس کا ہے، اور کیا ہمیں اتنے پیسے خرچ کرکے سال نو عیسوی کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد کے کارڈز بھیجنے کا حق حاصل ہے، سنو سمیعہ!ہم ما شا ء اﷲ مسلمان ہیں، ہمارا نیا سال یکم محرم سے شروع ہوتا ہے جو رحمتوں اور برکتوں سے بھر پور ہے ، اپنی تعلیمات پر عمل کرو۔۔۔
ایسا چلن چلو کہ کریں لوگ آرزو ایسے رہا کرو کہ زمانہ مثال دے
’’آپ تو بس ہر بات سے کیڑے نکالتے رہئے گا، سارے لوگ نیا سال منا رہے ہیں ، ہمارے ایک منانے سے قیامت آ جائے گی کیا،؟‘‘
بہت خوب! ایک چوری اوپر سے سینہ زوری، تمہیں معلوم ہے کہ ہمارا سال عیسوی نہیں ہجری ہے، تم اور لوگوں کی تقلید نہ کروبلکہ وہ کام کرو جس کی ہمارا مذہب اجازات دیتا ہے۔
فون سننے کے بعد میری آنکھیں نم تھیں، مجھے اپنے آپ پر بھی غصہ آ رہا تھا اور اپنے دیس کے ’’اندھے‘‘ مسلمانوں پر بھی کہ وہ جان بوجھ کر غیر مسلموں کے شکنجے میں جکڑے جا رہے ہیں، سمیعہ پر تو زیادہ غصہ تھا کہ وہ میری عادات جاننے کے باوجود ایسا کررہی ہے۔ جب ہم مسلمانوں کا اپنا نیا سال شروع ہوتا ہے تو ہمیں اس کی خبر بھی نہیں ہوتی، اتنے کارڈز، مبارکباد یں اور پیغامات نہیں بھجوائے جاتے، نئے سال کی خوشی میں عبادت نہیں کرتے کہ مسلمانوں کو خوشی نصیب ہونے پر اﷲ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے لیکن ہم اسلامی تعلیمات کو بھول چکے ہیں، سال نو عیسوی کے موقع پر یہ خوشیاں ، یہ جشن اور نیو ایئر نائٹ منانا ہمیں زیب نہیں دیتابلکہ یہ تو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ، کیا غیر مسلموں نے بھی سال نو ہجری کے موقع پر کبھی یہ کیا، کتنے دکھ کا مقام ہے کہ ہم مسلمان ہو کر غیروں کی تعلیمات اور طریقوں کو اپنائے ہوئے ہیں، سینکڑوں روپے خرچ کر کے سال نو عیسوی کے کارڈز اور تھائف جو ایک دوسرے کو بھجواتے ہیں اگر یہی رقم غریبوں اور حق داروں کو دی جائے تو ہمیں اس سے حقیقی خوشیاں حاصل ہو سکتی ہیں، اس سے اﷲ بھی خوش اور اس کا رسول ﷺ بھی۔
ذرا سوچئے ! کیا ہم سیدھی راہ پر چل رہے ہیں؟ کیا یہ سب کرنے کا ہمیں حق حاصل ہے؟ کیا ہماری یہی تعلیمات ہیں؟ کیا اس سے غیر مسلموں کو تقویت نہیں ملتی اور ہم ان کے کٹھ پتلی نہیں بنے ہوئے ؟ کیا ہمارے پاس ان سوالوں کے جوابات ہیں؟ کیا ہم میں اتنا شعور ہے؟ یہ سب کون سوچے گا؟ اس کا حل کون نکالے گا، ایک کارڈ اور فون کال میرے اندر اتنا واویلا مچا سکتی ہے تو آپ سب اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود احتجاج کیوں نہیں کر سکتے۔؟ ہمیں ایک دوسرے کو شعور دینا ہو گا، غیر مسلموں کی نقالی سے خود بھی بچنا ہو گا اور دوسروں کا بھی راستہ بتانا ہوگا۔ اﷲ ہم سب مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

«
»

عرب دنیا پریشانیوں میں گرفتار کیوں؟

لہوکے عطرمیں بسے بچوں کاسفرِ شہادت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے