ہاں میں مزدور ہوں، سنو میری روداد غم

تحریر:جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)

میں سماج کے بہت نیچے پائیدان کا ہوں، میں دوسروں کا گھر بناتا ہوں، زمین کی کھدائی کرتا ہوں پتھر کی توڑائی کرتا ہوں کچی اور پکی اینٹ تیار کرتا ہوں دوسروں کے کھیتوں میں ہل چلاتا ہوں کسی کے گھر صاف صفائی کا کام بھی کرتا ہوں اینٹ بھٹوں پر دن رات دونوں گذارتا ہوں پسینے سے ترابور رہتا ہوں خود  دن بھر میں ایک وقت کھانا کھاتا ہوں تاکہ میرے بوڑھے ماں باپ جو کل تک اسی طرح اپنی زندگی گذار کر ہمیں کھلاتے پلاتے تھے تو کم از کم آج ضعیفی کی حالت میں وہ چند لمحے تو سکون کی سانس لے سکیں اور ان کے ساتھ ہی میرے بیوی بچے بھی کچھ کھا پی کر رات میں سو سکیں یہی ہماری زندگی ہے دوسروں کی ڈانٹ پھٹکار سننا ہمارا مقدر بن چکا ہے ملک سے لیکر بیرون ملک تک مزدور کی پہچان صرف مزدور ہے اور آج پوری دنیا میں ہم سے زیادہ پریشان کوئی نہیں ہماری زندگی خطرے میں ہے، ہمارا مستقبل خطرے میں ہے ہماری خاندان ہمارے کنبے کا مستقبل خطرے میں ہے کیونکہ حکومت اور حزب مخالف، سیاسی و سماجی تنظیمیں ہرسال یومِ مزدور مناتی ہیں یعنی ہر سال یوم مزدور منایا جاتا ہے، اسٹیج لگایا جاتا ہے، کسی کو مہمان خصوصی بناکر مالا پہنایا جاتا ہے، فوٹو کھینچا یا جاتا ہے حقیقت میں دیکھا جائے تو لاکھوں روپے خرچ کر کے غریبوں اور مزدوروں کا مزاق اڑایا جاتا ہے،لمباچوڑا خطاب کیا جاتا ہے، تالیاں بجایا جاتا ہے لیکن مزدوروں کے روشن مستقبل کیلئے کچھ بھی نہیں کیاجاتا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ریل کی پٹری پر روٹی بکھر جاتی ہے اور مزدور کی گردن کٹ جاتی ہے لوگ کہتے تھے کہ دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے لیکن مزدوروں کے ارمان تو خون میں بہہ گئے ہم بیرون ملک بھی جاتے ہیں تو وہاں بھی ہماری جان پتے پر رہتی ہے گھر سے ماں باپ بیوی بچے بھائی بہن سب کو رولا کر اور خود بھی روکر گھر کی دہلیز سے باہر نکلے اپنے قریبی ایرپورٹ پہنچے ایجنٹ نے ہماری غربت کا خوب مزاق اڑایا، ہماری مجبوری کا خوب ناجائز فائدہ اٹھایا خیر کسی طرح ہم مزدور بیرون ملک پہنچ گئے کفیل، مؤسسة، شرکۃ کے حوالے ہوگئے ہمارا پاسپورٹ جمع ہوگیا غلامی کا پٹہ گردن میں پڑگیا اب روزانہ صبح اٹھ کر ڈیؤٹی جانا ہے اب گھر پر کوئی بیمار پڑجائے ہم کچھ نہیں کرسکتے، کوئی مرجائے ہم کچھ نہیں کرسکتے بس تنہائی میں روروکر اپنے آپ کو کوستے بھی ہیں اور اپنے آپ کو تسلی بھی دیتے ہیں اور پورے ایک مہینے تک بیشمار خواب بنتے ہیں دوسری طرف گھر کے لوگوں کے بھی بہت سارے ارمان ہوتے ہیں جو سمجھدار ہوتے ہیں وہ اظہار نہیں کرتے اور جو بیرون ملک مقیم لوگوں کو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پیسوں کے درخت پر رہتے ہیں تو وہ اس بیرون ملک رہنے والے مزدوروں کی اوقات سے بھی بڑھ کر فرمائشیں کرتے ہیں جن کا پورا کرنا بہت بہت مشکل ہوتا ہے بیرون ملک میں مزدوروں کا حال دیکھ کر آنکھ سے چنگاڑیاں نکلنے لگتی ہیں لیکن محسوس کرنے کیلئے دل ہونا چاہیے اور برداشت کرنے کے لیے گردہ ہونا چاہیے صبح اٹھنا ہے جلدی جلدی کام پر جانا ہے انجینئر، فورمین، مدیر کی پھٹکار بھی سننا ہے صبح سات بجے سے دوپہر ایک بجے تک مسلسل کام کر نا ہے ایک بجے کے بعد مٹی پر ہی پلاسٹک بچھا کر کھانا کھانا ہے پھر تپتی ہوئی زمین پر ایک گھنٹے گتہ کارٹون بچھا کر سونا ہے دو بجے سے پھر کام پر لگنا ہے شام چھ بجے تک کام کرنا ہے پھر روم پر آکر کھانا بنانا ہے نہانا دھلنا بھی ہے پھر جب کھانا کھاکر فارغ ہوا تو رات کا نو بج گیا دس بجے تک سوجانا صبح پھر ڈیؤٹی جانا ہے ٹریلا چلانا ہے، ٹاور کرین کی بلندیوں پر چڑھنا ہے بیلٹ پہن لٹکے رہنا ہے چلچلاتی ہوئی دھوپ میں اسٹیل بچھانا ہے ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے ہیں جب مہینے میں تنخواہ ملتی ہے تو صرف اسی دن چند لمحوں کے لئے تھوڑا چہرے پر مسکراہٹ رہتی ہے اور کچھ خوشی ہوتی ہے سب کا حساب کتاب کرنے کے بعد چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات والی بات ہوجاتی ہے یہ تو رہا بیرون ملک کے مزدوروں کا حال لیکن افسوس صد افسوس اپنے ملک کا حال بھی اب سہا نہیں جاتا ہم مزدوروں کا قصور یہ ہے کہ ہم مزدور ہیں، ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم غریب ہیں آج ہم اپنے ہی ملک میں تکلیفوں سے گھرے ہوئے ہیں کرونا وائرس نہ جانے بیماری ہے یا دنیا کے مغرور و ترقی یافتہ ممالک کی کوئی سازش ہے یا عذاب الٰہی ہے لوگوں کی عقلوں پر پردہ پڑتا جارہا ہے مساجد و منادر ویران ہوگئے جلسے جلوس، کیرتن بھجن سب معطل ہوگئے لیکن شراب خانے کھول دیئے گئے دنیا کی کچھ طاقتیں ہیں جو اپنے آپ کو پاور فل مانتی ہیں اور کل بھی پوری دنیا کو لامذہب بنانے کا ان کا خواب تھا اور آج بھی دنیا کو لامذہب بنانے کا ان کا خواب ہے اور اپنے اس ناپاک منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے طرح طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں اور اپنے مشن کو آگے بڑھانے میں سرگرم عمل ہیں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سماج کے نچلے پائیدان کو ہی ساری مصیبتوں کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے جب بار بار آفت بلا آتی ہے تو اس سے بچنے کیلئے بہتر انتظامات کیوں نہیں کئے جاتے آج ہر روز دلوں کو دہلانے والی خبریں سننے کو ملتی ہیں ہر روز منظر دیکھنے کو ملتا ہے کبھی کسی کمپنی میں گیس رساؤ ہوگیا مزدور مرگئے، ٹرین گذری مزدور کی گردن کٹ گئی مزدور مرگئے، ٹرک ایکسیڈنٹ ہوگیا مزدور مرگئے، پیدل چلتے چلتے مزدور مرگئے، بھوک پیاس سے مزدور مرگئے آج ہزاروں مزدوروں کے بچے یتیم ہوگئے، انکی بیویاں بیوہ ہوگئیں، گودیاں اجڑگئیں ان کا مستقبل تباہ ہوگیا پھر ایسے لاک ڈاؤن کا کیا فائدہ جب کرونا وائرس پر کنٹرول نہیں تو پھر شراب نوشی کی اجازت کیوں دیگئی، شراب خانے کیوں کھولے گئے کیا اس لئے کہ کل کسی مزدور کی بھوک سے موت ہو تو یہ کہنے کیلئے کہ شراب پینے سے موت ہوئی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت نے لاک ڈاؤن بغیر کسی تیاری کے کیا آج جس طرح مزدوروں کو انکے گھر بھیجنے کا آدھا ادھورا جو کام کیا گیا یہی کام پہلے کرنا چاہیے تھا لاک ڈاؤن کے اعلان و نفاذ سے پہلے چار دن کا وقت حکومت کی جانب سے دینا چاہیے تھا اور اس دوران اسپیشل ٹرین چلا کر مزدوروں کو انکے گھر بھیجنا چاہئے تھا اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو آج قدم قدم پر مزدوروں کی دردناک موت نہیں ہوتی آج مزدور بھکمری کے شکار نہیں ہوتے، مزدور خون کے آنسو نہیں روتے –

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

17مئی 2020(فکروخبر)

«
»

مجتبی حسین ، ایک تاثر ایک احساس

نکمی حکومت اورمرتے ہوئے مزدور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے