شام کے بشر الاسد کی مصیبتیں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں اس لئے اب وہ حماس کی پہلی جیسی حمایت نہیں کرسکتے۔ ایران امریکہ کے تعلقات میں تیزی سے سدھار ہورہا ہے اور سعودی عرب امریکہ کی گود میں بیٹھ ہی چکا ہے لہذا حماس کے لئے تقریباً تمام راستے بند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں لہذا الفتح سے مفاہمت اس کی مجبوری دکھائی دیتی ہے۔
ادھر اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر فلسطین کے صدر محمود عباس امن چاہتے ہیں تو ان کی تنظیم الفتح کو حماس سے معاہدہ توڑنا ہوگا۔یہ بات انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہی۔ واضح ہوکہ امریکہ، اسرائیل اور یورپی یونین حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں اور اس سے کسی قسم کی مذاکرات کے مخالف ہیں۔امریکہ نے معاہدے کے لیے اپنی مخالفت ظاہر کی ہے لیکن وہ ابھی امن بات چیت کے خاتمے کے لیے تیار نہیں ہے اور ’اب بھی کوشش‘ کر رہا ہے۔جب کہ چین اور روس نے اس مفاہمت کا خیرمقدم کیا ہے۔
نتن یاہو نے کہا کہ عباس یا تو ’اسرائیل کے ساتھ امن قائم رکھ سکتے ہیں یا حماس سے معاہدہ کر سکتے ہیں، دونوں نہیں۔‘انھوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں سے تبھی امن مذاکرات کے آغاز کرے گا جب ’وہ دہشت گردی کا راستہ چھوڑ دیں۔‘نتن یاہو نے کہا، ’جب تک میں اسرائیل کا وزیر اعظم ہوں، میں کبھی ایسی فلسطینی حکومت سے بات چیت نہیں کروں گا جسے حماس کے دہشت گردوں کی حمایت ہو جو ہمیں برباد کرنا چاہتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا: ’یہ ان کا فیصلہ ہے، اسرائیل کے ساتھ امن کے معاملات کرنے کے بجائے انھوں نے حماس کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ ایک ایسی تنطیم کے ساتھ جو اسرائیل کو تباہ کرنے کے لیے مصروف عمل ہے۔ یہ طے ہے کہ یا وہ اسرائیل کے ساتھ امن کریں یا حماس کے ساتھ منسلک ہو جائیں۔ فلسطینی حکام دونوں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے۔‘
دوسری جانب فلسطین کی جانب سے مذاکرات کار صائب اراکات نے زور دیا ہے کہ فلسطینی سمجھوتہ اندرونی معاملہ ہے۔انھوں نے کہااسرائیل کو اس معاملے میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔غزہ میں حماس کی قیادت والی حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ہانیہ نے کہا کہ انھیں نتن یاہو کے فیصلے پر تعجب نہیں ہے: ’اسرائیل نے وہی کیا جس کی توقع کی جارہی تھی، یہی ان کی عادت ہے اور یہ طے ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو متحد نہیں دیکھنا چاہتے، بلکہ ان کو بٹے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔اس سے پہلے صدر عباس نے کہا کہ ’مفاہمت اور امن کے درمیان کوئی خرابی نہیں ہے۔‘امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جمعرات کو محمود عباس سے بات کی اور انھیں اپنی ’ناپسندیدگی‘ کے بارے میں بتایا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ امریکہ امن مذاکرات کے لیے مصروف عمل رہے گا۔
اطلاعات کے مطابق اطلاعات کے مطابق فلسطین کے متحارب گروہوں حماس اور الفتح نے مفاہمتی معاہدے پر متفق ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آنے والے چند ہفتوں میں اتحادی حکومت تشکیل دیں گے۔یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور اسرائیلی حکام کے مابین بات چیت ناکامی کے قریب ہیں۔حماس اورالفتح 2007 میں پرتشدد جھڑپوں کے بعد الگ ہوگئے تھیں اور اس کے بعد سے اب تک ان کے درمیان مفاہمت نہیں ہو سکی۔عام فلسطینی ایک عرصہ سے دونوں تنظیموں کے اتحاد کے منتظر تھے کیونکہ ماضی میں دوحہ اور قاہرہ میں ہونے والے مفاہمتی معاہدوں پر عمل نہیں ہوسکا تھا۔
محمود عباس نے رواں ہفتے مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی تنظیم کا ایک وفد غزہ بھیجا تھا۔مفاہمت کا اعلان ایک نیوز کانفرنس میں کیا گیا جس میں فتح اور حماس کے نمائندے موجود تھے۔ان دونوں گروپوں نے کہا ہے کہ وہ ایک عبوری اتحادی حکومت کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس کے سربراہ محمود عباس ہوں گے۔دونوں تنظیموں کا کہنا ہے کہ فلسطین میں آئندہ چھ ماہ میں پارلیمانی انتخابات منعقد کروائے جائیں گے۔غزہ میں حماس کی حکومت کے وزیراعظم اسماعیل ہانیہ نے کہا ہے کہ ’یہ ہمارے عوام کے لیے خوش خبری ہے۔ تقسیم کا دور ختم ہو چکا ہے۔‘غزہ میں فلسطینی عوام نے اس خبر کا خیرمقدم کرتے ہوئے جشن منایا اور ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ عام فلسطینی ایک عرصے سے دونوں تنظیموں کے اتحاد کے منتظر تھے کیونکہ ماضی میں دوہا اور قاہرہ میں ہونے والے مفاہمتی معاہدوں پر عمل نہیں ہو سکا تھا۔
اگر حماس اور الفتح کا یہ معاہدہ مستقل ہے تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں مگر اس کے لئے حماس کو اپنا روایتی موقف ترک کرکے دو مملکتی فارمولہ تسلیم کرنا ہوگا کیونکہ فلسطین کے مسئلہ کا اس کے علاوہ اور کوئی حل سامنے نہیں دکھائی دیتا۔
جواب دیں