حمیت نام ہے جس کا ،گئی تیمور کے گھر سے

وزیراعظم صاحب ان سب کے سامنے سے گذرتے ہوئے قطارمیں موجودایک بھارتی خاتون افسر کو صرف دور سے ہی نمستے کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے ، اس سے انھوں نے ہاتھ نہیں ملایا،میں ان دنوں بمبئی میں تھااور دیکھ رہاتھا کہ وزیراعظم کی امریکی ایرپورٹ پر اترنے سے لے کر اپنی قیام گاہ پہنچنے تک تقریباً ایک گھنٹہ تک ٹی وی پراس منظر کشی کے دوران ایرپورٹ میں استقبال کے صرف اسی مختصر منظر کو بار بار دکھایاجارہاتھا جس میں وہ اعلی سطح کی ہندی خاتون افسر سے ہاتھ ملائے بغیر آگے بڑھ رہے تھے۔
تصویر کا دوسرا رخ:۔ دوسرا واقعہ چندسالوں پہلے کا ہے ، ایک مسلمان عرب سربراہ ایک غیرملکی دورہ پر تھے ، اپنے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پراپنی ہم منصب خاتون سربراہ کو پاکر وہ پھولے نہیں سمائے ، بے ساختہ ان سے مصافحہ کرکے دستگیر ہونے کے ساتھ ہی بغلگیربھی ہوگئے ،ان کو اپنی اس بے حمیتی کا احساس ہواہویانہ ہواہو لیکن وہ منظر جس مسلمان نے بھی دیکھا اس کا سرتو شرم سے جھک گیا۔
تین سال قبل کی بات ہے ، ایک مسلم ملک کی خواتین ممبران پارلیمنٹ بھارت کے سرکاری دورہ پر تھیں،سابقہ صدر ہندمحترمہ پرتیبھاپاٹل سے ملنے جب وہ راشٹرپتی بھون پہنچیں تو وہ منظر دیکھ کر مسلمانانِ ہندکی ناک کٹ گئی ،ہماری صدر ہند غیر مسلم ہونے کے باوجود سرپر ایسے دوپٹے میں تھی کہ بال بھی مشکل سے دکھائی دیتے تھے، ساڑی کی وجہ سے پیر کی انگلیاں بھی دکھائی نہیں دیتی تھی،دونوں ہاتھوں کے گٹوں تک ساتر لباس تھا، لیکن مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے والی ہماری ان بہنوں کے نہ صرف ہاتھ اورپیر وغیرہ بلکہ نصف سینے بھی کھلے ہوئے تھے اور سرپر دوپٹے کاتو سوال ہی نہیں تھا ۔
دونوں واقعات کاتجزیہ:۔ پہلے واقعہ میں میڈیا ہمارے وزیر اعظم کو خاتون سفارت کار سے ہاتھ نہ ملانے کامنظر باربار دکھا کر بین السطور نئی غیر مسلم نسل کو یہ پیغام دینا چاہتاتھا کہ تم اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اور اپنے مذہب کو آخری درجہ تک تھامے رکھتے ہوئے بلکہ دوسرے الفاظ میں سیکولر اور روشن خیال نہ بنتے ہوئے بھی ملک کے بڑے سے بڑے عہدہ ومنصب پر پہنچ سکتے ہوجیسا کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم اس وقت پہنچے ہیں۔
دوسری طرف میڈیامیں مسلم ملک کی ان خواتین ممبران پارلیمنٹ کی ان تصویروں سے نئی مسلم نسل بالخصوص خواتین کویہ پیغام دیاجارہاتھا کہ اگر دنیاوی اعتبار سے تم بڑے منصب پر فائز ہونا یاسیاست میں کچھ نام کمانا چاہتے ہو اور پارلیمنٹ تک رسائی کی آرزومندہوتو ان مسلم خواتین کی طرح تمہیں بھی خود ساختہ روشن خیالی کے نام سے اس طرح کابے حیالباس پہنناہوگا اور اپنی مذہبی روایات سے دستبردار ہوکر سامنے آناہوگا۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے :۔ ان دونوں واقعات میں آخری واقعہ کو سن کر بہت سے قارئین اپنی ملّی بہنوں کی اس بے غیرتی وبے ضمیری پر افسوس کرتے ہوئے افسردہ اور رنجیدہ بھی ہوئے ہوں گے، لیکن ناامید ہونے کی ضرورت نہیں ہماری ملت ابھی بانجھ نہیں ہوئی ہے،اس میں ہمیشہ ایسے افراد کی بہت بڑی تعداد رہی ہے جنھوں نے آخری درجہ تک دین وشریعت کو تھامے ہوئے دنیاوی ترقی کے بھی بامِ عروج پر پہنچ کرنئی مسلم نسل کو ایک دعوتی پیغام دیا ہے ۔
صرف دو ہفتہ قبل ابھی۲۰/دسمبر ۲۰۱۴ء ؁ ہی کی بات ہے ، پڑوسی مسلم ملک کی کرکٹ ٹیم میں شاہد آفریدی جو مسلسل کئی سالوں سے آل راؤنڈر کی حیثیت سے پوری دنیا میں اپنا نام روشن کرچکے تھے ، ان کوعالمی کرکٹ سے ان کے رٹائرمنٹ کے اعلان پر متحدہ عرب امارات میں ایک بہت بڑے جلسے میں عالمی اعزاز سونپا جارہاتھا تو اس اعزاز کوا ن کے حوالہ کرنے کے لیے ایک بے حجاب دوشیزہ کا انتخاب کیاگیا، لیکن عالمی سطح کے پورے ٹی وی چینلوں پر یہ منظر دکھایاگیا کہ اللہ کے اس بندے نے اس کے ہاتھ سے وہ اعزاز تو لیا لیکن اس دوشیزہ کے بار بار ہاتھ بڑھانے کے باوجود اس سے ہاتھ نہیں ملایابلکہ اس کی طرف منھ کرکے دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔
ساؤتھ افریقہ کے مشہور کرکٹر ہاشم آملہ کو پوری دنیا دیکھ بھی چکی ہے اور سن بھی چکی ہے ،اپنی لہراتی خوبصورت داڑھی اور پنج وقتہ نمازوں کے اہتمام کے ساتھ انھوں نے جب کھیل کے دوران شراب کمپنی کی ٹی شرٹ پہنے سے انکار کیا تو ان کی ناقابل بیان صلاحیت کی وجہ سے عالمی کرکٹ بورڈ کو اس سلسلہ میں ان کو استثناء دینا پڑااور ان کی دینداری کے سامنے سرِخم تسلیم کرناپڑا۔
ہمارے ایک عزیز دوست مولانا عبیدالرحمن قاسمی صاحب انگریزی میں ماہنامہ معلم بمبئی سے نکالتے ہیں ،انہوں نے معلم کے مسلسل گذشتہ کئی شماروں میں قسط وار ایسی عالمی مسلم شخصیات کاتعارف کرایاہے جنہوں نے دنیاکے مختلف میدانوں میں دین پر سختی سے کاربندرہتے ہوئے بھی ادھر20/15سالوں میں نام کمایا ہے ۔
کچھ مثالیں ہمارے آس پاس کی بھی ہیں:۔ ہمارے ایک بزرگ دوست موسی رضا صاحب ملک کے ان ممتاز I.A.Sمسلم افسران میں تھے جو اعلی منصب پر فائز ہوئے ،جموں وکشمیر میں چیف سکریٹری رہے ۔U.Pمیں بابری مسجد کی شہادت کے بعد گورنر کے مشیر یعنی عملاً وزیر اعلی تھے،گجرات سرکار میں ایڈیشنل سکریٹری بھی تھے ، انھوں نے خود مجھ سے بیان کیا کہ گجرات میں عید کے دن ایک اہم صوبائی کابینہ کی میٹنگ تھی، انھوں نے وزیراعلیٰ سے صاف کہاکہ میں عید کی نماز چھوڑ کر میٹنگ میں شرکت نہیں کرسکتا،صرف ان کے خاطر وہ میٹنگ ملتوی کی گئی ،انہوں نے بتایاکہ میں وزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ کے وقت بھی اذان ہوتے ہی اٹھ کر نمازپڑھتاتھا، مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ سے وہ بیعت بھی تھے،فرقہ پرستوں نے ان کے خلاف حکومت کو فائل بھیجی کہ یہ بنیاد پرست ہیں ،لیکن ان کی صلاحیت وقابلیت کے سامنے حکومت مجبور تھی، کچھ نہ کرسکی ، یہاں تک کہ ان کے رٹائرمنٹ کے بعد ایک دن ان کو ایک اہم سمینار میں بھٹکل مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی آناتھا،اسی دن وزیر اعظم منموہن سنگھ کا فون آیا کہ ہندوستان کاایک اہم تجارتی سرکاری وفد جرمنی جارہاہے اورآپ کو اس کی قیادت کرنی ہے ، انھوں نے بھٹکل سمینار کی وجہ سے معذرت کی تو منموہن سنگھ صاحب نے کہا کہ اگر آپ اس سرکاری وفد میں نہیں ہونگے تو ہم یہ اہم اورسرکاری دورہ ہی ملتوی کردیں گے،اسی کو کہتے ہیں جادووہ ہے جوسرچڑھ کربولے ۔
بنگلورمیں ہمارے ایک دوست نثار احمدصاحب (I.P.S)بھی ہیں جو ابھی چنددنوں پہلے پورے کرناٹک کے بڑے پولیس عہدہ یعنی انسپکٹر جنرل آف پولیس کے منصب سے ریٹائرہوئے ، وہ بھی ہمیشہ اس پوری سروس میں اپنی دینی شناخت کے ساتھ رہے اور اس دوران بھی برابر اپنی دینی سرگرمیوں میں مشغول رہے ، ان کے اس دینی تشخص کے باوجود کوئی ان کابال بیکا نہ کرسکا۔
تین سال قبل مجھے جاپان کے اسلامک سینٹر ٹوکیوسے دعوت آئی تو میں نے ویزا کے لیے بنگلور جاپانی کونسلیٹ میں پاسپورٹ جمع کیا ، لیکن ویزہ نہیں دیا گیا اور بتایاگیا کہ آپ کے لیے جاپان اسلامک سینٹرسے ویزہ کے لیے دئیے گئے دعوت نامہ میں لکھا گیاہے کہ آپ بڑے مذہبی اسکالر اور مصنف ہیں (یہ بات حقیقت میں نہیں تھی، صرف ویزا دلانے کے لیے کہی گئی تھی ) کہا گیا کہ پاسپورٹ میں آپ کی تصویر آپ کے متعلق بیان کئے گئے تعارف سے میل نہیں کھاتی ، میرے ساتھیوں اور مخلصین کو ایک اچھا بہانہ مل گیا ،میں شیروانی نہیں پہنتا ،صدری کا عادی نہیں ،ان کا کہناتھاکہ اگر میرا اس طرح کے پروقار لباس میں فوٹوہوتاتو شایدویزہ نامنظورنہیں ہوتا ،میں نے کہا :۔ میں زندگی بھر جس لباس سے مانوس نہیں اور اس کا عادی نہیں مغرب ومشرق جانے کے شوق میں وہ لباس پہن کر کیوں اپنا حلیہ بدلوں ، میں نے ویزہ نہ ملنے کی اطلاع جاپان اپنے میزبان کودی ، انھوں نے اسی وقت بنگلورجاپانی کونسلیٹ فون کرکے اس ذمہ دارکو خوب ڈانٹا اور پوچھا کہ کسی کے مصنف اور اسکالر ہونے کا اس کی شکل وصورت سے کیا تعلق ہے ،نتیجہ یہ ہواکہ دودن بعد جاپانی کونسلرنے معذرت کرتے ہوئے خود بلاکر ویزہ دیا اور میرا دعوتی سفر بھی ہوا۔
دونوں واقعات کے اصل محرکات:۔ بھارتی وزیر اعظم اور مسلم ملک کی خواتین ممبران پارلیمنٹ کے دونوں واقعات کا آپ دعوتی تجزیہ کریں گے تو اس کو صرف آپ دولفظوں میںیوں اداکرسکتے ہیں،پہلے واقعہ میں اپنے مذہب پر خود اعتمادی اورد وسرے واقعہ میں احساس کمتری۔
ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہمارے وزیر اعظم کی بچپن میں مذہبی تعلیم اتنی پختہ ہوئی ہے کہ وہ کسی بھی حال میں بڑے سے بڑے منصب پر فائز رہنے کے لیے اپنی مذہبی روایات سے انحراف کرنے کے لیے تیا رنہیں ہیں، دوسری طرف ان مسلم خواتین ممبران پارلیمنٹ کی بنیادی اسلامی ودینی تعلیمات سے دوری نے یہ ناگفتہ بہ دن دکھائے جس سے ان کا سرشرم سے پانی پانی ہوایانہ ہواہومسلم طبقہ کا تو سران کی تصویریں دیکھ کرشرم سے جھک گیا۔
حدود شریعت میں روشن خیالی قبول ہے :۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مذہبی معاملات میں سختی نہیں کرنی چاہیے رواداری کا طریقہ اپنانا چاہیے ، جی ہاں! ہمیں معلوم ہوناچاہیے کہ اسلام سے بڑھ کر روشن خیال دنیا میں کوئی مذہب نہیں،تفریح ودل لگی کے ان تمام ذرائع و وسائل کو اسلام نے جائز قرار دیاہے جوشریعت سے نہ ٹکراتے ہوں اور اس میں محرمات ومنکرات کا ارتکاب نہ ہوتا ہو ، لیکن جہاں شریعت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہوں، شعائر اسلام کو پامال کیا جاتاہو اور عقیدہ توحید ونظریۂ اسلام سے ٹکراؤ ہوتاہو تو اس میں کسی ادنی رواداری کی شرعاً گنجائش نہیں،الیکشن کے موقع پر اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے مسجدکے ساتھ مندر بھی جاکر بتوں پر پرساد چڑھانے کا نام رواداری نہیں ،اپنے کو سیکولر ثابت کرنے کیلئے اسلام کی طرح تمام مذاہب کو حق مذہب کہنے کا نام ایمان نہیں ،اگر کسی پروگرام کا افتتاح دیاجلاکر اس عقیدہ کی وجہ سے کیا جاتا ہو کہ روشنی کی دیوی حاضر ہوکر برکت کا سبب بنتی ہے تو یہ بھی خلاف شریعت ہے،مسلمانوں کو نیچا دکھاکرغیرمسلموں کو بااخلاق ثابت کرنے کی کوشش کرنا اسلام سے وحشت ونفرت کے مترادف ہے جیساکہ آج کل کے بعض روشن خیال کہتے ہیں کہ میری کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین میں غیر مسلم ملازمین مسلمانوں سے اچھے ہیں ،میرے زیادہ ترگاہک غیر مسلم ہیں میرااٹھنابیٹھنا مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں کے ساتھ ہوتاہے وغیرہ وغیرہ۔
یادرکھیئے: مسلمان آخری درجہ کا روشن خیال ہے لیکن وہاں جہاں شریعت کی اجازت ہے لیکن جہاں محرمات ومنکرات اور مفسدات دین کا خطرہ ہو اور معاشرہ میں جاری رسومات کا شریعت ودین کے لیے نقصان دہ ہونے کا امکانی خدشہ ہو تو وہاں مسلمان تنگ نظر ہوجاتاہے اورشریعت کے حکم کا آنکھ بندکرکے پابندبن جاتاہے اوراس کی یہی تنگ نظری شرعاً مطلوب ہے ، مثلاًکوئی کہے کہ آج کے زمانہ میں عورتوں کو گھروں سے باہر لاکر مردوں کے شانہ بشانہ ان کے حقوق دینے چاہئیں،مخلو ط تعلیم میں کوئی حرج نہیں،نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو براہ راست مل کر تبادلۂ خیال کی اجازت دینی چاہیے ،چہرے کھلے رکھ کراجنبی خواتین کو نامحرم مردوں کے سامنے آنے میں کوئی حرج نہیں تو اس کو شریعت کی نظر میں رواداری اورروشن خیالی نہیں بلکہ روح شریعت سے ناواقفیت کہاجائیگا۔
پھراس کاعلاج کیاہے :۔ دین پر بے اعتمادی اور روشن خیالی کے نام سے،غیر شرعی چیزوں کا جو ارتکاب دن بدن مسلم معاشرہ میں بڑھ رہاہے اس کی بنیادی وجہ ہماری نئی نسل کی دینی تعلیم سے دوری ہے ،لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ ہمارے بچے کانوینٹ ، مشنری اور غیر اسلامی اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں تو کیا ہوا ،ہم نے گھر میں ان کے لیے علیحدہ قرآن شریف پڑھانے کا بھی نظم کیا ہے ،وہ نماز بھی پڑھتے ہیں ،روزہ بھی رکھتے ہیں،جی ہاں ! آپ کو اقرارہے کہ صبح کو آپ کے بچے اسکولوں میں شرکیہ نصاب کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور شام کو توبہ کرتے ہیں ،یہ تو ویسے ہی ہوا جیسے کوئی صبح کو زہر کھائے اورشام کو اس کی تلافی کے لیے دوابھی پی لے، زہر تو زہر ہی ہے ، اس کا اثر مرنے سے پہلے ظاہرہوناناگزیرہے ، اگر انسان تائب نہ ہوا تو شرکیہ اور غیر اخلاقی تعلیم اپنا اثر مرنے سے پہلے ضرور دکھاتی ہے ،اسی طرح اگرآپ نے دینی تعلیم صرف قرآن ناظرہ کی شکل میں ان کو دی ہے تواس کانام مکمل دین نہیں ، جب تک اللہ پاک کی قدرت کاملہ اور اس کے غیر معمولی اختیارات وتصرفات کا یقین کامل نہ ہو ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
اسی طرح آج کل لوگوں کو ایک بڑی خوش فہمی یہ بھی ہوجاتی ہے کہ ہم نے اپنے نونہالوں کوایسے مسلم اسکولوں میں داخل کرایاہے جہاں دینی تعلیم کا نظم ہے ،اسکاف کی پابندی ہے، ٹوپی یونیفارم میں شامل ہے، عصری تعلیم کے ساتھ حفظ قرآن وقرأت اور عربی وغیر ہ کا بھی نظم ہے لیکن یادرکھئے: قرآن شریف اورحدیث پاک میں جس دینی تعلیم کی فضیلت آئی ہے اس کا اس سے دور دور تک تعلق نہیں ،خالص اسلامی کہے جانے والے ان اسکولوں میں اگر پوری دینی تعلیم کا نظم بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ یہ دینی تعلیم آپ کے بچہ کو اسلام وشریعت پر قائم رہنے میں تو مددکرسکتی ہے ،لیکن اس سے اس کو دینی تعلیم کا وہ رسوخ حاصل نہیں ہوگا جو زندگی کے مختلف مراحل میں پیش آنے والے نازک مواقع پر اس کو حلال وحرام اور ایمان وشرک کے درمیان فرق کراسکے ،اسکولوں کی صرف اتنی نامکمل دینی تعلیم سے خطرہ ہے کہ کبھی روشن خیالی کے نام سے وہ غیر اسلامی چیزوں کا ارتکاب کرے اور رواداری کے نام سے غیر دینی شعائر میں ملوث ہو۔
صرف اسلامی کتابوں کے مطالعہ ، مسلم دانشوروں کی تقاریر، ان کی صحبت اورجدید ذرائع ابلاغ سے فائدہ اٹھاکراسلام کو سمجھنے کے دعوی سے بزعم خود وہ ایک اسلامک اسکالرتو کہلاسکتاہے لیکن وہ امت کے لیے دین کی رہنمائی کا فریضہ انجام نہیں دے سکتااورقدموں کو ڈگمگانے والے مراحل پر وہ جائز وناجائز کا فیصلہ نہیں کرسکتا،یہ صلاحیت صرف اور صرف مدارس کی دس بارہ سال مکمل کل وقتہ دینی تعلیم ہی سے حاصل ہوسکتی ہے اور یہ فریضہ ان مدارس سے فارغ ہونے والے ہمارے علماء ہی انجام دے سکتے ہیں، اس پورے تناظر میں اس امت کے ہر خاندان میں کم از کم ایک عالم دین کا ہونا اب صرف فرض کفایہ نہیں بلکہ فرض عین ہوگیاہے ، ورنہ حلال کے نام سے حرام کے ارتکاب اور ایمان کے نام سے شرک میں ملوث ہونے کا قوی امکان موجود ہے ۔ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

«
»

مر اعشق بھی کہانی ،تر ا حسن بھی فسانہ

پیرس حملہ : امن عالم کے لئے ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے