سابق نائب صدر محمدحامدانصاری آج کل سرخیوں میں ہیں۔سرخیاں بٹورنے کا تازہ کام ان کی آپ بیتی نے کیا ہے جو حال ہی میں انگریزی زبان میں شائع ہوئی ہے۔ابھی کتاب کااجراء ہونا باقی ہے لیکن اس سے پہلے ہی اس پر بحث شروع ہوگئی ہے۔ سب سے زیادہ چہ میگوئیاں اس حلقے میں ہورہی ہیں، جو حامدانصاری کو ان کی حق گوئی کی وجہ سے پسند نہیں کرتا اور انھیں نشانہ بنانے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے۔حامدانصاری دس سال تک نائب صدرجمہوریہ اور راجیہ سبھا کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ ان کا انتخاب 2007 میں یوپی اے کے دور میں ہوا تھا۔ 2012 میں انھیں دوبارہ ملک کا نائب صدر بنایا گیا۔اس دوران 2014 میں حکومت تبدیل ہوگئی اور بی جے پی اقتدار میں آئی۔ اس طرح حامدانصاری کا باقی ماندہ تین برس کا عرصہ کافی کشمکش کا رہاکیونکہ وہ راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے بی جے پی اورسنگھ پریوار کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حامدانصاری ایوان بالا میں حکومت سے مرعوب ہوئے بغیر ضابطوں کی پیروی کررہے تھے، جبکہ حکومت چاہتی تھی کہ لوک سبھا میں اس کی اکثریت ہونے کی وجہ سے راجیہ سبھا میں اسے راستہ صاف ملنا چاہئے اور یہاں اس کے ایجنڈے کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ راجیہ سبھا میں حکومت کے پاس اکثریت نہیں تھی اور بغیر اکثریت کے یہاں کسی بل کو پاس کرانا آسان کام نہیں تھا۔حکومت اور خاص طورپر وزیراعظم نریندرمودی کو یہ غلط فہمی تھی کہ حامدانصاری اس کی راہ میں روڑے اٹکارہے ہیں اور بل پاس نہیں ہونے دے رہے ہیں۔جبکہ حقیقت میں حکومت کی راہ کا سب سے بڑا روڑا راجیہ سبھا میں اس کے ممبران کی قلیل تعداد تھی۔ 2017میں جس روز حامدانصاری کو ریٹائرمنٹ کے موقع پرایوان بالا میں رسمی الوداعیہ دیا جارہا تھا تو وزیراعظم نے ان کے بارے میں کچھ ایسی باتیں کہیں جو انھیں زیب نہیں دیتی تھیں۔یہ منظر میں نے خود راجیہ سبھا کی پریس گیلری سے دیکھا تھا۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حامد انصاری کسی سیاسی پس منظر سے نائب صدر نہیں بنے تھے۔ان کی زندگی کا بیشتر حصہ بطور سفارت کار بسر ہوا۔ان کا تعلق مشہور مجاہدآزادی ڈاکٹر مختاراحمدانصاری کے خاندان سے ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1961 میں انھوں نے بطورسفارت کار اپنا کیریر شروع کیا۔ وہ آسٹریلیا، افغانستان، ایران اورسعودی عرب جیسے ملکوں میں ہندوستان کے سفیر رہے۔سبکدوشی کے بعد انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنایا گیا۔ وہ قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین بھی رہے۔اس دوران کہیں کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہوا اور انھوں نے اپنی معیاد کامیابی کے ساتھ پوری کی، لیکن راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے آخری تین برسوں میں انھیں جو تلخ تجربات ہوئے ان میں سے بعض کو انھوں نے اپنی آپ بیتی میں بیان کیا ہے۔ اس حقیقت بیانی کی وجہ سے فسطائی ٹولے میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔حامد انصاری نے کتاب میں اپنے اس موقف کا بھی تذکرہ کیا ہے جس میں انھوں نے بطور چیئرمین فیصلہ کیا تھا کہ وہ کوئی بل ہنگامے اور شورشرابے کے درمیان پاس نہیں ہونے دیں گے۔انھوں نے لکھاہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے بھی اس اصولی فیصلے سے اتفاق کیا تھااور ان کے دور میں اس پرعمل بھی ہوا۔ حامدانصاری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اس فیصلے سے دونوں سرکاروں کو پریشانی ہوئی، لیکن یوپی اے حکومت نے اس کا احترام کیا اور اس کے مدنظر ایوان میں انتظام بھی کیا، لیکن دوسری طرف این ڈی اے حکومت کولگتاتھا کہ لوک سبھا میں اکثریت ہونے کی وجہ سے اسے راجیہ سبھا میں ضابطے کی رکاوٹوں پر حاوی ہونے کا ’اخلاقی‘ اختیار مل گیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ”ایک دن راجیہ سبھا کے میرے دفتر میں وزیراعظم نریندرمودی اچانک تشریف لائے۔ عام طورپر ایسا نہیں ہوتا کہ وزیراعظم پہلے سے طے شدہ پروگرام کے بغیر ملنے آئیں۔ میں نے ان کا رسمی استقبال کیا۔ انھوں نے کہا کہ”آپ سے اعلیٰ ذمہ داریوں کی توقع ہے، لیکن آپ میری مددنہیں کررہے ہیں۔“ میں نے کہا کہ راجیہ سبھا میں اور اس کے باہر میرے کام سے سبھی لوگ واقف ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ”شوروغل میں بل کیوں پاس نہیں کئے جارہے ہیں؟“میں نے جواب دیا کہ ایوان کے لیڈر اور ان کے ساتھی(ارون جیٹلی) جب اپوزیشن میں تھے تو انھوں نے اس ضابطہ کو سراہا تھاکہ کوئی بھی بل شوروغل میں پاس نہیں کرایا جائے گا اور منظوری کے لیے عمومی کارروائی چلے گی۔“حامدانصاری نے لکھا ہے کہ ”اس کے بعدانھوں نے کہا کہ راجیہ سبھا ٹی وی حکومت کے حق میں نہیں دکھا رہا ہے۔ میرا جواب تھا کہ چینل کے قیام میں تو میراکردار تھا لیکن اس کے ادارتی کام کاج میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ راجیہ سبھا ارکان کی ایک کمیٹی جس میں بی جے پی کے نمائندے بھی شامل ہیں، اس چینل کی رہنمائی کرتی ہے۔ چینل کے پروگراموں اور بحث ومباحثہ کی اس کے ناظرین تعریف کرتے ہیں۔“ سابق صدرجمہوریہ نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ ان کے دور کے آخری ہفتہ کے دوران دو واقعات سے کچھ طبقوں میں ’ناراضگی‘پیدا ہوئی اور سمجھا گیا کہ ان کے کچھ ’پوشیدہ مطالب‘ تھے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ”پہلاواقعہ بنگلور کے نیشنل لاء اسکول آف یونیورسٹی کی سلورجبلی تقریب کو خطاب کرناجس میں،میں نے بات چیت کے ذریعہ خیرسگالی کو بڑھاوا دینے پر زور دیاتھاکیونکہ ہمارے سماج کے مختلف طبقوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے، خاص طورپر دلتوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں۔دوسرواقعہ راجیہ سبھا ٹی وی پر کرن تھاپر کو دیا گیا انٹرویو تھاجو ۹ اگست ۷۱۰۲ کو ٹیلی کاسٹ ہوا جس میں نائب صدر کے کاموں کے سبھی پہلوؤں پر بات چیت کی گئی۔ اس میں محدود قوم پرستی اور سیاست میں مسلمانوں سے متعلق نظریات کے بارے میں سوال بھی شامل تھے۔ حامدانصاری نے لکھا ہے کہ کچھ سوال بنگلور میں میری تقریر پر مرکوز تھے اور کچھ اگست 2015 میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے گولڈن جوبلی اجلاس میں کی گئی تقریر سے متعلق بھی تھے۔ ان سوالوں کا جواب دینے کے دوران میں نے کہا کہ جہاں بھی مثبت کارروائی کی ضرورت ہے، وہاں اسے کیا جانا چاہئے اور رائے دی کہ ہندوستانی مسلمان منفرد ہیں اور انتہا پسندانہ سوچ کے حامل نہیں ہیں۔ حامدانصاری نے لکھا ہے کہ ان کی وداعی کے وقت وزیراعظم نریندر مودی نے راجیہ سبھاکے چیئرمین کے طورپران کے کام کا بہت کم ذکر کیا جبکہ سفارت کار کے طورپر ان کے کام کی تعریف کی گئی۔حامدانصاری کے مطابق اس کے پس پشت اس بات کی کوشش تھی کہ انھیں ایک خاص ماحول اور نظریہ میں باندھاجائے۔ حامدانصاری نے لکھا ہے کہ ان کے کام کو نظرانداز کیا گیا جبکہ ہندوستان کے نمائندے کے طورپراور خاص طور پر اقوام متحدہ میں ایک اہم مدت میں ان کا کام گواہ ہے۔حامدانصاری کی یہ آپ بیتی انگریزی زبان میں BY MANY HAPPY ACCIDENT کے عنوان سے روپا پبلی کیشن نے شائع کی ہے اور اس پر گودی میڈیا میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔اس کتاب کے تعلق سے ایک نیوز چینل کو دیا گیا انٹرویوبھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے جس میں حامد انصاری کو گھیرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ چینل کے مخصوص ذہنیت رکھنے والے نمائندے کے ٹریپ میں نہیں آئے۔حقیقت یہ ہے کہ حامد انصاری پہلے ایسے شخص ہیں جنھوں نے اتنے بڑے عہدے پررہتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ پوری جرات کے ساتھ کیا۔2015 میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے اجلاس میں ان کی جرات مندانہ تقریر کے بعد ہی سنگھ پریوار کے لوگ ان کا تعاقب کرنے لگے تھے اور انھیں حاشیہ پر پہنچانے کی کوششیں ہونے لگی تھیں، لیکن انھوں نے اقلیتوں سے متعلق جن امور کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کی تھی، وہ بہت اہم تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بیان کی صداقت ثابت ہوئی ہے۔عدم تحفظ کے جس ماحول کی طرف انھوں نے اب سے پانچ سال پہلے اشارہ کیا تھا، اس میں آج بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں