ہمیں جان سے بھی زیادہ پیارا ہے ہندوستان!

تحریر:جاوید اختر بھارتی

(سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)

آج پورے ملک میں افراتفری کا ماحول ہے، کہیں بیان بازی، کہیں نعرے بازی کہیں احتجاج، کہیں گرفتاری، کہیں لاٹھی چارج نتیجہ یہ ہے کہ کاروباری حالت مفلوج ہوتی جا رہی ہے کتنے غریبوں کے گھروں میں روزی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں چولہے میں آگ نہیں جل رہی ہے  تاجروں، محنت کشوں، مزدوروں کے اندر تشویش ہے ڈر اور خوف ہے کیونکہ تجارت کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر بھی جانا پڑتا ہے، مزدوری کرنے کے لیے بھی ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرنا پڑتا ہے اور آج کے دور میں سفر کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں جلوس نہ نکل جائے، کہیں جلوس میں کوئی شرپسند عناصر پتھر نہ پھینک دے، کہیں پولیس لاٹھی چارج نہ کردے، کہیں گرفتاری نہ ہونے لگے اور اس گرفتاری کی زد میں ہم مزدور بھی نہ آجائیں اگر ایسا ہوگیا تو ہمارے بچے بھوکوں مرجائینگے کیونکہ ہم تو پہلے سے اس حالت میں میں مبتلا ہیں کہ روز کنواں کھودتے روز پانی پیتے ہیں، کھانے کے لیے پہلے سے ہمارے گھروں میں ناپا شوربا اور گنی روٹی ہے ایک مزدور کا گذر بسر کیسے ہوتا ہے یہ ایک مزدور ہی جانتا ہے شیش محل میں رہنے والے لوگ جھونپڑی میں رہنے والوں کا حال کیا جانیں، اونچی اونچی کاروں میں چلنے والے لوگ سرد موسم میں سرد ہواؤں کا سامنا کرتے ہوئے اور ٹھٹھرتے کانپتے ہوئے پیدل چلنے والوں کا حال کیا جانیں، بڑی بڑی باتیں کرنے والے ذرا رات کے اندھیرے میں نکلیں اور نگاہ اٹھا اٹھا کر روڈ پر دیکھیں، چھانی چھپڑ اور کچے مکانات کو دیکھیں، ایک ایک چادر اوڑھ کر روڈ کے کنارے سوئے ہوئے لوگوں کو دیکھیں، جان لیوا سردی کے موسم میں رات رات بھر مزدوری کرنے والوں کو دیکھیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں اور غور کریں کہ ان کے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے یا شہریت تر میمی قانون نافذ کرنے کی ضرورت ہے آج ملک میں جتنی بھی ہنگامی صورتحال ہے وہ صرف اور صرف شہریت تر میمی قانون کی وجہ سے ہے این آر سی اور سی اے اے کی وجہ سے ہے ایسا قانون بنانے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کس سے شہریت کا ثبوت مانگ رہے ہیں جو اسی وطن عزیز میں پیدا ہوا ہے اور حق رائے دہی کا استعمال بھی کرتا رہا ہے اور حقیقت میں دیکھا جائے تو ووٹ دینے کا حق اسی کو ہوتا ہے جو ملک کا شہری ہوتا ہے تو یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ ہم نے ووٹ دیا اور ہمارے ووٹوں کی وجہ سے حکومت بنی تو حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد کہا جائے کہ آپ اپنی شہریت ثابت کریں اور چلئے تھوڑی دیر کے لیے اس قانون کی ضرورت کو مان ہی لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مذہبی بنیادوں پر شہریت دینے کا ذکر کیوں کیا گیا جبکہ ہمارے ملک میں جمہوریت ہے، ہمارے ملک میں بہترین آئین ہے، بہترین دستور ہے اور اس دستور نے سب کو برابری کا حق دیا ہے، اس دستور میں سب کے جذبات کی قدر کیگئ ہے سب کے جذبات کا احترام کیا گیا ہے، مساجد و منادر، اسکول و مدارس کے قیام کی منظوری دی گئی ہے تقریر و تحریر کی آزادی دی گئی ہے، ہر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اپنے اپنے مذہبی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے اور تبلیغ و اشاعت کا حق دیا گیا ہے اور اسی بنیاد پر پوری دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کی شکل میں ہمارے ہندوستان کا پرچم سب سے زیادہ بلند ہے ہندوستان کو امن کا گہوارہ کہا جاتا ہے گنگا جمنی تہذیب کا سنگم اور مرکز کہا جاتا ہے صوفی سنتوں کی آماجگاہ کہا جاتا ہے پھر ملک کے دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کیا ضرورت ہے کیوں ایسا قانون لایا گیا کہ ملک کا ہر انصاف پسند و سیکولر مزاج انسان کے پیروں تلے زمین کھسک نے لگی لوگ احتجاج و مظاہرہ کرنے لگے کچھ صوبائی حکومتیں بھی اس کو ماننے سے انکار کرنے لگیں وجہ یہی ہے کہ اس قانون سے مذہبی منافرت پھیلنے کا خطرہ ہے ملک کے تانے بانے کو بکھرنے کا خطرہ ہے اور ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنانے کا خطرہ ہے اگر سی اے اے میں یہ کہا گیا ہوتا کہ جو لوگ بھی دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے ہیں اور شہریت محروم ہیں تو انہیں بلا کسی مذہبی تفریق کے شہریت دی جائے گی تو یقیناً ملک میں واویلا نہیں ہوتا مگر بی جے پی حکومت نے ایسا نہ کر کے اور مذہبی بنیادوں پر شہریت دینے کا ذکر کرکے ملک کے آئین، دستور اور جمہوری ڈھانچے کو ہلادیا اور پورے ملک میں لوگ ائین کے وقار کو بچانے کیلئے، جمہوری نظام کو بچانے کیلئے، اپنی اور ہندوستان کی پہچان کو بچانے کیلئے احتجاج اور مظاہرے کے لیے میدان میں آگئے ان سب کے باوجود بھی حکومت اپنے روئیے کو تبدیل کرنے کے بجائے جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے صرف بیان بازی سے کام چلانا چاہتی ہے اور یہ تو احساس ہورہا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو شائد یہ گمان نہیں رہا ہوگا کہ اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج و مظاہرہ شروع ہوجائے گا اسی لئے اب جھوٹ پر جھوٹ بولا جارہا ہے اور ہر جھوٹ پکڑا بھی جارہا ہے اور اب تو احتجاج و مظاہرے کو ہندو مسلم کا رنگ دینے کی بھی کوشش کی جارہی ہے لیکن قابل مبارکباد ہیں برادران وطن جو کاندھے سے کاندھا ملاکر چل رہے ہیں، قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں اور آواز میں آواز ملاکر شہریت تر میمی ایکٹ کی مخالفت میں صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں اور اس بات کا ثبوت پیش کر رہے ہیں کہ یہ ملک ہندو مسلم، سکھ عیسائی سب کا ہے اور سب نے مل کر آزادی کی لڑائی لڑی ہے اور انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرایا ہے سب نے قربانیاں دی ہیں اور آزادی حاصل ہونے کے بعد ہندوستان کو سب نے سجایا ہے سب نے سنوارا ہے اور جب بھی کوئی وقت آیا ہے تو سب نے مل کر مقابلہ کیا ہے یہ ایک ایسا سچ ہے کہ جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا اس لئے حکومت وقت کو یہ سوچنا چاہیے کہ جس قانون کی پورے ملک میں مخالفت ہورہی ہے اسے واپس لیا جائے تاکہ حکومت پر سب کا اعتماد قائم ہوسکے اور ملک میں امن و سلامتی کا ماحول پیدا ہوسکے صنعتوں کو فروغ حاصل ہوسکے بلا کسی مذہبی تفریق کے غریب محنت کش مزدوروں کے اندر خوشحالی اسکے اور ہمارا ملک ترقی کی راہوں پر گامزن رہے ملک کی عوام کے جذبات کا احترام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے حکمراں کیلئے رعایا اولاد کی طرح ہوتی ہے جس کے ساتھ انصاف کرنا لازمی ہے کل میدان محشر میں اللہ رب العالمین دنیا کے سارے حکمرانوں کو کھڑا کر کے پوچھے گا لمن  لملك اليوم بتاؤ اج کے دن کا مالک کون ہے، بتاؤ آج کے دن بادشاہ کون ہے تو اس دن دنیا کے سارے حکمران لرزہ براندام ہونگے اور کانپتے ہوئے کہیں گے کہ اے اللہ تو ہی ہمیشہ سے بادشاہ رہا ہے اور آج بھی تو ہی بادشاہ ہے اور ہمیشہ توہی بادشاہ رہے گا اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ دنیا کے ہر حکمران سے حساب لیگا چاہے وہ کسی گاؤں کی حکمرانی کی ہو یا کسی ملک کی حکمرانی کی ہو یا پوری دنیا پر حکومت کی ہو پرامن احتجاج کا حق بھی دستور ہند نے ہی دیا ہے اب اگر طاقت کے بل پر احتجاج کو روکا جائے گا اور زبان بند کرائی جائے گی تو یہ جمہوریت کا گلا گھونٹ نے کے مترادف ہوگا یہ ملک سے محبت ہی تو ہے کہ لوگ احتجاج بھی کررہے ہیں تو ساتھ میں قومی پرچم بھی لہرا رہے ہیں اور یہ اعلان کررہے ہیں کہ اے وطن تو ہمیں جان سے بھی زیادہ پیارا ہے ہندوستان زندہ باد ہندوستان زندہ باد –

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
ادارہ فکروخبر بھٹکل 
30/ دسمبر 2019  

«
»

جے این یو میں جنگلی ظلم کا ننگا ناچ

سیاسی طنزیہ: جانے کہاں گئے وہ دن؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے