ہماری وصیت

یہ ایک بچے کی زبانی دہائی دیتی ہوئی ایک لوری ہے ۔جی چاہتا ہے کہ اسی سے اپنا کالم شروع کروں کہ ایسے ہزاروں بچوں جن کاتعلق عراق‘افغانستان‘فلسطین اور کشمیر سے ہے،ان کا قرض ہم سب کے ضمیر پر ایک بھاری بوجھ بن چکا ہے۔ یہ نظم آج بڑی ہمت کرکے یہاں نقل کررہا ہوں کہ شائد کسی ماں کو کوئی ایسی لوری یاد ہو کہ اسے سن کر یہ بچہ سو سکے۔ اس کی معصوم آنکھوں میں رتجگے خون کے دھارے بن کر اس کے چہرے پر لکیریں بن بن کر اس کے دامن کو خون آلود کر رہے ہیں اور اسے سونے نہیں دیتے۔بے خوابی ایسے ہزاروں بچوں کی آنکھوں میں جم گئی ہے ۔ میں نے ایسی کئی تصاویر دیکھی ہیں جن کا میں اپنے آپ سے بھی ذکر نہیں کرسکتا۔میری ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کی ان درندوں نے اتنی بے عزتی کی ہے کہ ان کی تصاویر تو شائد کبھی نہ چھپ سکیں۔اب تو لگتا ہے یہودوہنود، امریکا اور اس کے اتحادیوں کو نہ توتیل چاہئے ،نہ ہی مسلمان ممالک کی دولت اور زمین،ان کا مقصد مسلمانوں کی مکمل تباہی اور ان کی عزت نفس کی بربادی ہے۔
ماں!مجھے نیند نہیں آتی ہے
ایک مدت سے مجھے نیند نہیں آتی ہے
ماں!مجھے لوری سناؤ ناں
ماں!مجھے نیند نہیں آتی ہے
رت جگے اب تو مقدر ہیں میری پلکوں کے
نیند آئے تو لے آتی ہے بغداد کی یاد
آنکھ لگتے ہی کوئی بیوہ اٹھا دیتی ہے
پیٹ کتنا ہی بھروں بھوک نہیں مٹتی ہے
جلتے بصرہ کی مجھے پیاس جگادیتی ہے
کوئی قندھار کی وادی سے بلاتا ہے مجھے
ذکر قندوز کاآئے تو مجھے لگتا ہے
کاٹ کے سر کوئی ہنستا ہے،جلاتا ہے مجھے
بم کی آوازیں مجھے کچھ نہیں کہتی ہیں مگر
زخم ان بچوں کے سونے نہیں دیتے ہیں مجھے
میرے سینے پر رکھو ہاتھ 
رلادو ناں مجھے
ماں!مجھے لوری سناؤ ناں
سلا دو وناں مجھے
ماں!مجھے نیند نہیں آتی ہے
ایک مدت سے مجھے نیند نہیں آتی ہے
یہ درندے مسلم اقوام کی غیرت اور حمیت ملیا میٹ کرنے کے درپے ہیں اور ان کا مقصد یہ لگتا ہے کہ مسلمان دنیا کے صفحۂ ہستی سے اپنے دین و ایمان کے ساتھ مٹ جائیں اور کسی گمشدہ تاریخ کا حصہ بن جائیں۔میں نے جو تصویریں دیکھی ہیں،ان کے بعد ایک بھی مسلمان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ عراق،افغانستان فلسطین اور کشمیر کی عمارتیں برباد ہوں تو پھر بن سکتی ہیں لیکن ان ملکوں کے مسلمانوں کی عزتیں جس طرح برباد کی گئیں ہیں ،وہ کبھی واپس نہیں آ سکتیں۔اب تو خود امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے امن پسند افراد اپنے ہی ملکوں کی اس پالیسی کو نفرت سے دیکھتے ہیں لیکن جی چاہتا ہے کہ اپنے ملک کے ان دانشوروں ،سیاستدانوں اور ڈکٹیٹروں کا منہ نوچ لیا جائے جو اب بھی جدید تاتاریوں کی مسلم کش پالیسیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سے دوستی کیلئے مرتے جا رہے ہیں۔امن و آشا کے نام پر ان ظالموں کی وکالت کر رہے ہیں اور الٹا مسلمانوں کا گالی دے رہے ہیں کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی قابل تھے۔
کیا کوئی پسماندہ اور غریب کی اس لئے ماں بہن اٹھا لے اور اس کی عصمت دری کردے کہ وہ اتنا طاقتور نہیں ہے کہ اپنا تحفظ کر سکے۔امریکی فوج جیسی درندہ صفت اور وحشی فوج تاریخ میں کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ایک باخبر بتا رہا تھا کہ افغانستان میں امریکی افواج نے یہی کچھ کیا ہے اور کشمیر میں بھارتی افواج نے ان سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ان تمام مظالم کی خون آشام تصاویر بنی ہیں مگر یہ فوٹوگرافر ان ظالموں کے خونی پنجوں میں گرفتار ہو چکے ہیں اور ان ظالموں نے ان تصاویر کو بھی اپنے تئیں جلا دیا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مظالم اور درندگی کی تصاویر تو وہاں کی دھرتی اپنے سینے میں محفوظ کر لیتی ہے اور وقت آنے پر اگل دیتی ہے۔ 
اب تک جو تصاویر سامنے آچکی ہیں ،وہ کیاکم ہیں؟ہماری لٹی ہوئی عزتوں میں تو ایک عافیہ کے علاوہ آسیہ اورنیلوفرکی تصاویرہی کافی ہیں لیکن یہ بتانابھی توضروری ہے کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق کشمیرمیں ہماری بے گناہ ومعصوم۱۰۱۱۵سے زائدکشمیری بچیوں کوبے آبرو،۷۰۲۲ /افرادکوحراستی کیمپوں میں اذیت دیکرقتل،۱۲۵۵۵۴/کشمیریوں کو گرفتار ، ۲۲۷۷۸کشمیری خواتین کے سروں کے سہاگ چھین کربیوہ،۱۰۷۹۴۶۹/بچوں کویتیم کردیاگیا۔یہ تمام مظالم ہمارے بچوں کوسونے نہیں دیتے اوراب تو کسی ماں کو بھی ایسی لوری یاد نہیں جوان روٹھی ہوئی نیندوں کو واپس لا سکے۔آخرایک لاکھ سے زائدیتیم کشمیری بچوں کیا قصور ہے جو اس بہیمانہ ظلم اور نا انصافی کی آگ میں جھونک دیئے گئے! یہ بچے جب جوان ہوں گے تو آگ کے ان گولوں کو کس طرح کی لوری سلا سکے گی!عافیہ کے وہ معصوم بچے کہاں ہیں جن کے کانوں میں لوری کی بجائے اپنی ماں کی دلدوز چیخیں اور آہ وزاری گونج رہی ہے۔عافیہ کے دو چھوٹے معصوم کہاں ہیں،کسی کو ان کی خبر ہے؟عافیہ کا بڑا بچہ جس نے اپنی ماں کو اس اذیت میں دیکھا ہے،اپنے دو بہن بھائیوں کا پتہ پوچھ رہا ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہیں؟ہم تو جیتے جی مر گئے ہیں لیکن ہماری آنے والی نسلیں زندہ رہیں گی اور ان لٹی ہوئی عصمتوں کا ضرور حساب اور انتقام لیں گی۔ہماری ان کیلئے یہی وصیت ہے!سنئے میرا رب کیا فرماتا ہے!
اِذَا زُلْزِلَتِ اْلاَرْضُ زِلْزَالَہَاوَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا وَقَالَ لْاِ نسٰنُ مَا لَہَا یَومءِذِِِِ تُحَدِِّثُ اَخْبَاْرَہَابِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَہَا یُوْمءِذِ یصّْدُرُا لنَّاسَ اَشْتَاتَََا لِیُرَوْاْ اَعْمَلَہُمْ فَمَن یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّۃِِ خَیْرََا یَرَہُ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرۃِِ شَرََّا یَرَہ (سورۃ الزلزلہ ۱۔۸)
’’جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی اورانسان کہے گا کہ یہ کیا ہورہا ہے ،اس روز وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے)حالات بیان کرے گی کیونکہ تیرے رب نے اسے (ایسا کرنے کا)حکم دیا ہوگا۔اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں۔پھر جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گااورجس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘(سورۃ الزلزلہ۱۔۸)
رہے نام میرے رب کا جس کا ہر وعدہ سچا ہے!

«
»

نیپالی زندہ بھگوان کماری جس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے

کوئی جہاں میں اُردو کو مٹا نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے