تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گانا پائیدار ہوگا
شاعر مشرق کے نظریہ سے جب ہم آج اپنے سماج و معاشرہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ تو ان کی وہ پیش گوئی جو مذکورہ بالا شعر سے جھلکتی ہے بالکل صحیح اور ٹھیک ثابت ہوتی ہے کہ واقعی آج کس طرح ہمارا مشر قی سماج ومعاشرہ بھی بے حیائی ، بے راہ روی،بے اعتدالی، عریانیت ، فحاشیت اورننگے پن کے سیلاب میں ایسا غرق ہو چکاہے کہ جس کا دوبارہ احیاء اور بچاؤ ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور نظر آرہاہے آج کس طرح سے ہمارے سماج ومعاشرہ میں بے حیائی اور بے شرمی کا بازار گرم ہے جس کا تصور کرنا اور جس کے تعلق سے سوچنا بھی ایک شریف النفس اور شریف الطبع ،پاکیزہ افکارو خیالات کے حامل افراد کیلئے میری نظر میں جوئے شیر لانا ہے۔ کس طرح سے مغرب نے ہمارے معاشرے پر حملہ کیا اور ہماری تہذیب وثقافت کو اپنے زبردست یورش ویلغار سے تاراج کردیا اسی کی انگنت اور بے شمار مثالیں ہمیں اور آپ کو اپنے موجودہ ہندوستانی سماج و معاشرہ میں د یکھنے کو ملتی ہے وہ کچھ یوں کہ آج ہمارے ملک میں بھی کس طرح سے خواتین و دوشیزائیں کہیں تو تعلیم وتعلم کے نام پر تو کہیں سیر وتفریح کے بہانے، تو کہیں کسب معاش کی تلاش میں غیر مردوں اور غیر لڑکوں کی بانہوں میں باہیں، ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر صرف اتنے میں ہی بس نہیں بلکہ سب سے زیادہ عریانیت اور فحاشیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے والے جنز اور ٹی شرٹ کو زیب تن کرکے اپنی حسن وجوانی کے جلوے بکھیرتی اور کمزور دل کے مردوں کو دعوتِ عشق ومحبت دیتی گزرتی ہیں کہ ان کے اس دلفریب اور خوش نما ادا پر بھلا ہمارے کمزور دل کے نوجوان قربان نہ جائیں تو اور کیا کریں؟
الغرض آج جو ہمارے معاشرے میں گینگ ریب اور اجتماعی عصمت دری جیسے نہایت ہی گھناؤنے اور انسانیت کو شرمسار کرنے والے واقعات پیش آرہے ہیں وہ اور ان جیسے دوسرے تمام و اقعات خواہ وہمارے ملک اور پوری دنیا کے جس جگہ اور جس خطہ میں رونما ہو ئے ہیں اور ہورہے ہیں وہ تمام کے تمام میری نظر میں اسی قسم کےAction کے Re-actionہیں اس کیلئے بہت ہی دور جانے کی ضرورت ہے نہیں ہے خود ہمارے ملک ہندوستان جنت نشان میں بھی اس قسم کے جرائم کا ایک لا متناہی سلسلہ چل رہاہے جس کی ایک نہایت ہی تازی اور ہماری بند عقلوں کی دریچے کھولنے والی مثال16 دسمبر کی شب ابھی حالیہ دنوں میں دلی کی ایک بس میں ڈاکٹری کی طالبہ کے ساتھ پیش آنے والے اجتماعی عصمت دری کا واقعہ ہے جس نے پورے ملک کو خواب خرگوش سے
بیدار کردیا اور یہ سوچنے پر مجبور کردیاہیکہ اس قسم کے انسانیت سوز واقعات پر کیسے لگام کسی جائے اور ان کا کیسے مقابلہ کیا جائے کہیں تو اس سلسلہ میں خصوصی قوانین وضع کرنے اور مجرمین کو پھانسی جیسی عبرتناک سزا کا مطالبہ کیا جارہاہے لیکن کیا ایسے ایک کیس میں اور ایک مجرم کو تختہ دار پر چڑھا دینے سے یہ بیماری نہیں بلکہ یہ ناسور کاہمارے ملک ومعاشرے سے خاتمہ ہوجائے گا؟کیا اس کے بعد دوبارہ کسی راہ چلتی دوشیزہ کے ساتھ اب کبھی بھی آبرو ریزی جیسے واقعات نہیں پیش آئیں گے اس کا تصور کرنا تو نہایت ہی فضول ہوگا اور ایسا ہی سمجھا جائے گا جیسا کہ کسی فارسی داں نے کہا ہے کہ ایں خیال است ومحال است جنوں۔
حقیقت تو یہ ہے اس طرح کے واقعات اور کیسز کیلئے صرف فریق واحد ہی ذمہ دارنہیں ہے بلکہ فریقین ( مرد و زن )دونوں ہی برابر قسم کے ذمہ دار اور قصور وار ہیں کیوں کہ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے ، روٹی دونوں ہاتھ سے پکتی ہے ،ا ور یہ بھی سچ ہے کہ جہاں شہد ہوگا چیونٹی بھی وہیں پر لگے گی جہاں دعوتِ حسن وعشق ہوگا حسن وعشق کے پروانے اورطلب گاربھی وہیں پر جائیں گے اورا لغرض جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ جب کوئی ایکشن ہوگا تو اس کا ری ایکشن کی شکل میں کوئی نہ کوئی نتیجہ بھی ضروربر آمد ہوگا اوردلی کا واقعہ بھی اسی زمرے میں آنے والا ایک واقعہ تھاجو کہ اب قصہ پارینہ بن چکاہے۔
ابھی حالیہ دنوں میں کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار ممبر اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے بھی کیا تھا جس کی ہمارے ملک میں ہر چہار جانب سے خوب خوب مذمت ہوئی۔ میری نظر میں انہوں نے کوئی غلط بات نہیں کہی بلکہ انہوں نے گاؤں اور شہر کا ایک موازنہ کیا کہ عصمت دری اور گینگ ریپ جیسے واقعات شہر کے مقابلے گاؤں میں کم پیش آتے ہیں اوراس کی وجہ بھی انہوں نے یہ بتائی کہ شہر کے مقابلے گاؤں میں عورتوں اور لڑکیوں کا غیر محرم مرد وں سے ملنا اور ان کی بانہوں میں باہیں ڈال کر چلنے کا رواج کم پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہاں عصمت دری جیسے معاملات بھی کم پیش آتے ہیں۔ وہاں کی پوشاک اور لباس بھی شہروں جیسی نیم عریاں اور ہیجان انگیز نہیں ہوتی اس کیلئے انہوں نے مغربی طرز زندگی کو ذمہ دار اور قصوروار قرار دیا انہوں نے یہ بھی کہا ہیکہ ہمارے ہندوستانی سماج میں آج عورتوں کوکچھ زیاد ہی آزادی دے دی گئی جس کے نتیجے میں خاتون کا پردہ میں رہنا تو دور بلکہ وہ آج شتر بے مہار بن کر گھومتی ، کلب اٹینڈ کرتی اورمردوں کے شانوں سے شانہ ملا کر ہر میدان میں کام کم اور دعوت حسن وعریانیت دیتی ہوئی زیادہ نظر آتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہماری جو اصل اور اپنی تہذیب ہے وہ عورتوں اور لڑکیوں کو غیر مردوں اور غیر لڑکوں کے ساتھ گھومنے کی قطعی اجازت نہیں دیتی ہے انہوں نے یہ بھی کہاکہ گجرات اور راجستھان جیسی ریاستوں میں جہاں اس کا چلن کم ہے وہاں اس قسم کے واقعات بھی کم رونما ہوتے ہیں انہوں نے بے حیائی اور عریانیت کے فروغ میں ہندی فلموں اور ٹی چینلوں کا بھی بڑا رول بتایا۔اورانہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم اور ہمارا سماج اس طرح کے واقعات سے دامن چھڑانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ملکی ومشرقی تہذیب وثقافت کو ہی اپنا شعار بنانا ہوگاکیوں کہ در حقیقت مغربی سماج وکلچر اور وہاں کی تہذیب وثقافت بے حیائی، بے شرمی، بے راہ روی کا ایک ایسا مہلک اژدہا ہے جس کے زہر کے ازالہ کیلئے اس سماج ومعاشرہ کے پاس آج تک کوئی کارگر تریاق نہیں مل سکاہے اور نہ ہی کبھی ملے گا کیوں کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس سماج ومعاشرے نے بھی قانون خدا وندی سے جب بھی اور جہاں کہیں بھی بسر مو بھی انحراف اور بغاوتی تیور اپنایا یا اپنا نا چاہا تو اس کا ایک نہایت ہی عبرتناک انجام قدرت خداوندی نے دکھایا کہ جو رہتی دنیا تک کیلئے ایک نشان عبرت بن گیا جسے یقین نہ آئے تاریخ کے صفحات سے ایسی بے شمار مثالیں ڈھونڈ سکتاہے۔
جواب دیں