ہمارے معاشرہ کی چند برائیاں اور ان کی اصلاح کی کوشش

ہمارے معاشرہ کی مختلف برائیوں میں سے چند برائیاں کافی عام ہوگئی ہیں،ہمیں مشترکہ طور اُن کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے:

     ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کا فقدان: قرآن وحدیث میں علم کی اہمیت پر بار بار تاکید فرمائی گئی ہے، حتی کہ پہلی وحی کا پہلا لفظ "اقرأ" بھی اسی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ مگر عصر حاضر میں ہم نے اِن تمام آیات قرآنیہ واحادیث نبویہ کا تعلق عملی طور پر دنیاوی تعلیم سے جوڑ دیا ہے حالانکہ قرآن وحدیث میں جہاں جہاں بھی علم کا ذکر آیا ہے، وہاں وضاحت موجود ہے کہ اُسی علم سے دونوں جہاں میں بلند واعلیٰ مقام ملے گا جس کے ذریعہ اللہ کا خوف پیدا ہو، جو تقدیر پر ایمان کی تعلیم دیتا ہو اور جس کے ذریعہ انسان اپنے حقیقی خالق ومالک ورازق کو پہچانے،اور ظاہر ہے کہ یہ کیفیت قرآن وحدیث اور اِن دونوں علوم سے ماخوذ علم سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اِن دنوں ہم عصری تعلیم کو اس قدر اہمیت دے رہے ہیں کہ بچوں اور بچیوں کو بالغ ہونے کے باوجود اس لئے نماز کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کروایا جاتا، روزہ نہیں رکھوایا جاتا اور قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرائی جاتی کیونکہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحان کی تیاری کرنی ہے وغیرہ وغیرہ، یعنی دنیاوی تعلیم کے لئے ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا آسان ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ جو طلبہ عصری درس گاہوں سے پڑھ کر نکل رہے ہیں اُن میں سے ایک بڑی تعداد دین کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتی ہے۔ 
ٹی وی اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال:معاشرہ کی بے شمار برائیاں ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے پھیل رہی ہیں، لہذا فحش وعریانیت وبے حیائی کے پروگرام دیکھنے سے اپنے آپ کو بھی دور رکھیں، اور اپنی اولاد وگھر والوں کی خاص نگرانی رکھیں تاکہ یہ جدید وسائل ہمارے ماتحتوں کی آخرت میں ناکامی کا سبب نہ بنیں کیونکہ ہم سے ہمارے ماتحتوں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کواُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ (سورۃ التحریم ۶)  
بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی:جن کبیرہ گناہوں کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی، ان میں کوتاہی کی صورت میں اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پراللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا، ان شاء اللہ۔ لیکن اگر گناہوں کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے مثلاً کسی شخص کا سامان چرایا یا کسی شخص کو تکلیف دی یا کسی کو گالی دی یا کسی شخص کا حق مارا تو قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا حق ہے، اس کا حق ادا کیا جائے یا اس سے حق معاف کروایا جائے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ واستغفار کے لئے رجوع کیا جائے۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایاہے: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم) 
غیبت: سب سے پہلے ارشاد نبوی ﷺکی روشنی میں سمجھیں کہ غیبت کیا چیز ہے؟ رسول اللہ ﷺنے صحابہئ کرام سے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہئ کرام نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی اس چیز کا ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ کہا گیا اگر وہ چیزیں اس میں موجود ہوں تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ چیز اس کے اندر ہو توتم نے غیبت کی اور اگر نہ ہو تو وہ بہتان ہوگا۔ (مسلم) حضور اکرمﷺ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کیا جائے جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں ہیں تو وہ بہتان ہے لیکن بدقسمتی سے یہ دونوں ہی برائیاں عام ہیں، اللہ ان دونوں برائیوں سے امت مسلمہ کو محفوظ فرمائے۔ آمین۔ کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا یعنی غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا۔ بھلا کون ایسا ہوگا جو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس سے نفرت دلائی ہے، ارشاد باری ہے:تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی۔(سورہئ الحجرات۲۱) 
جھوٹ: معاشرہ کی ایک مہلک بیماری جھوٹ بولنا ہے، جو بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے، ان کے لئے جہنم تیار کی ہے جو بدترین ٹھکانا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے سورہئ الاحزاب آیت ۰۷۔ ۱۷ میں ایمان والوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔ جھوٹ بولنے والوں کے متعلق آپ ﷺ کی سخت وعید ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی یکساں طور پر سچ کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کی نظر میں اس کا نام سچوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچے رہو اس لئے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ بتاتا ہے، اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور اسی کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم)
بے پردگی: پاکیزہ معاشرہ اور صاف ستھری سوسائٹی کے لئے عورتوں کو گھروں میں رکھ کر گھریلو ذمہ داریاں ان کو دی گئیں اور مردوں کو باہر کی ذمہ داریوں کا پابند کرکے مردوں اور عورتوں کے باہمی اختلاط سے حتی الامکان روکا گیا تاکہ ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکے اور مسلم معاشرے کی یہ خصوصیت اب تک باقی تھی اور تقریباً پچیس سال سے مغربی تہذیب سے ہمارا معاشرہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور افسوس وفکر کی بات ہے کہ اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے بعض مسلم دانشور اس کوشش میں ہیں کہ بے پردگی کو جواز کا درجہ دیدیا جائے۔ اسی پس منظر میں قرآن وحدیث کی روشنی میں چند باتیں پیش خدمت ہیں:  ۱) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مردوں اور عورتوں کو مشترکہ حکم:  ےَحْفَظُوا فُرُوْجَھُمْ اور ےَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُن (سورہئ النور ۰۳۔۱۳) کے الفاظ میں دیا ہے، قرآن کریم میں بہت سے مقامات اور احادیث میں بکثرت یہ حکم وارد ہوا ہے، یہ سب کو معلوم ہے کہ شرمگاہ کی حفاظت پردہ سے ہی ہوتی ہے۔ اور عصمت دری کی ابتداء بے پردگی سے ہوکر زنا کی حد تک جا پہنچتی ہے۔ چنانچہ مشہور حدیث میں اس کی طرف اشارہ ہے:رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے آنکھ بھی زنا کرتی ہے اور آنکھ کا زنا بد نگاہی ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔ (صحیح بخاری)  ۲) اسی طرح فرمان الٰہی ہے: وَلَا ےَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِےَعْلَمَ مَا ےُخْفِےْنَ مِنْ زِےْنِتِہِنَّ (سورہئ النور ۱۳)  عورتوں کو زمین پر پیر پٹخ کر چلنے کی ممانعت اس لئے ہے کہ کہیں پازیب کی جھنکارو زینت سے کوئی گرویدہ نہ ہوجائے۔ اگر پازیب کی آواز کو پردہ میں رکھا گیا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک عورت کو زیب وزینت کے ساتھ بے پردہ گھومنے کی اجازت دی جائے۔ نہیں، ہرگز نہیں۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کسی عورت کو پیغام نکاح دینے کا ارادہ ہوتو اس کو دیکھ لینے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (مسند احمد) اس  حدیث میں صرف پیغام نکاح دینے والے کو غیر محرم عورت کو دیکھنے میں گناہ سے مستثنی کرنے کا مطلب واضح ہے کہ غیروں کو دیکھنے اور دکھانے میں گناہ ہوگا۔ 
رشوت:  رشوت اپنے جائز یا ناجائز مقاصدکوحاصل کرنے کے لئے اہل منصب کو روپئے یا کوئی دوسری چیز پیش کرنا۔موجودہ دور میں اس لین دین کو ہدیہ یانذرانہ کاخوبصورت نام دیاجاتاہے لیکن درحقیقت یہ رشوت ہے۔ رشوت کی مذمت اوراس کے لینے اوردینے والوں پراللہ کے رسولﷺ نے بڑی سخت وعیدیں کی ہیں، چنانچہ فرمان رسول ہے:رشوت لینے اوردینے والے پراللہ کی لعنت برستی ہے۔ (ابن ماجہ) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: رشوت لینے اوردینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے۔ (طبرانی) اسلام کی نظرمیں جس طرح رشوت لینے اوردینے والاملعون اوردوزخی ہے اسی طرح اس معاملہ کی دلالی کرنے والابھی حدیث رسول کی روشنی میں ملعون ہے۔صحابی رسول حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے رشوت لینے اوردینے والے اوررشوت کی دلالی کرنے والے سب پرلعنت فرمائی ہے۔ (مسند احمدوطبرانی) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تویہاں تک فرماتے ہیں کہ قاضی کاکسی سے رشوت لے کراس کے حق میں فیصلہ کرناکفرکے برابرہے، اورعام لوگوں کاایک دوسرے سے رشوت لینا ”سُحت“ یعنی حرام ناپاک کمائی ہے۔ (طبرانی) 
رشوت دینے کی گنجائش کب ہوسکتی ہے؟ ایک شخص کاحق ہے کہ جواسے ملناچاہیے،رشوت دیے بغیرنہیں ملے گا،یااتنی دیرسے ملے گاجس میں اسے غیرمعمولی مشقت برداشت کرنی پڑے گی۔اسی طرح اس کے اوپرکسی فردکی طرف سے ظالمانہ مطالبات عائدہوگئے ہیں اوررشوت دیے بغیران سے خلاصی مشکل ہے توامیدہے کہ رشوت دینے والاشخص گناہ گارنہ ہوگا،البتہ دیانت شرط ہے جس کی ذمہ داری خوداس پرہوگی۔
سود یعنی انسانوں کو ہلاک کرنے والا گناہ: سب سے پہلے سمجھیں کہ سود کیا ہے؟وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں اور روپئے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض کچھ زائد دینا پڑتا ہو "ربا" اور "سود"کہلاتا ہے۔جس وقت قرآن کریم نے سود کو حرام قرار دیا اس وقت عربوں میں سودکا لین دین متعارف اور مشہور تھا، اور اُس وقت سود اُسے کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو زیادہ رقم کے مطالبہ کے ساتھ قرض دیا جائے خواہ لینے والا اپنے ذاتی اخراجات کے لئے قرض لے رہا ہو یا پھر تجارت کی غرض سے، نیز وہ صرف ایک مرتبہ کا سود ہو یا سود پر سود۔ مثلاً زید نے بکر کو ایک ماہ کے لئے ۰۰۱ روپئے بطور قرض اس شرط پر دئے کہ وہ ۰۱۱ روپئے واپس کرے، تو یہ سودہے۔بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے وہ بھی سود ہے۔سود کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، جس کے حرام ہونے پر پوری امت مسلمہ متفق ہے۔ 
    اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام مذکورہ برائیوں سے محفوظ رہ رکر دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے، آمین۔              
                       

 

«
»

اسمارٹ فون نسل نو کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں

رحمت عالمؐ کی مثالی دوستی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے