وہ ٹرک اتنالمباتھا کہ خود مجھے اس سے پہلے اس طرح کا بڑا ٹرک دیکھنا یادنہیں آرہاتھا،میں نے اپنی گاڑی کی رفتار دھیمی کی اور دائیں بائیں کئی لوگوں سے پوچھاکہ کیا قصہ ہے ؟ بھیڑکیوں جمع ہے ؟ سب کا کہنا تھا کہ مولانا :۔ کوئی خاص بات نہیں ہوئی ہے، آپ چلے جائیے ، مجھ سے رہانہیں گیا ،مجمع کوچیرتاہوا میں ٹرک کے قریب جب پہونچا تو کچھ لوگ ایک نامعلوم شخص کو ماں بہن کی گالی دے رہے تھے ، اس میں سے ایک کو میں نے پہچان لیا میں نے قریب جاکر اس سے پوچھا کہ بتائیے کیا ماجراہے ؟ اس پر اس نے جو تفصیل سنائی وہ سن کر میں شرم سے پانی پانی ہوگیا ۔
اس نے بتایا کہ اس بے چارے حدنظر تک پھیلے ہوئے لمبے اور اونچے ٹرک کے ڈرائیور کو منگلور سے بمبئی جاتے ہوئے ہمارے شہر کے بیچوں بیچ پہنچ کر آگے جانے والے راستہ کے متعلق شبہ ہوگیا اور اس نے سرکل پر پہنچ کر راستہ چلتے ایک آدمی سے پوچھ لیا کہ بھائی صاحب:۔ مجھے ممبئی جاناہے ، اس میں سے ممبئی جانے کا راستہ کونسا ہے ؟ میرے دل میں بات آئی کہ اس شخص نے سوچاہوگاکہ اچھاموقع مفت ہاتھ آیا ہے ،یہ آسمان کو چھونے والی چھت والا اور حدنظر تک پھیلاہوا اتنا بڑا اور لمباٹرک میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا ہے میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی میری طرح اس کودیکھیں گے تو ان کی بھی خوشی کی انتہا نہیں رہے گی، چلو :۔ اس کوجس سڑک پرمیرا گھرواقع ہے اسی کے متعلق بتاتے ہیں کہ یہ راستہ ممبئی جاتاہے ، اس طرح مفت میں گھر سے ہی بچوں کے ساتھ میرے دیگر گھروالے بھی اس حیرت انگیز ٹرک کا نظارہ کرلیں گے چاہے اس بیچارے کو آگے چل کر جلد ہی احساس ہو جائے کہ وہ غلط راستہ پرآیاہے ، اس سے مجھے کیا فرق پڑتاہے ،اس کو تکلیف ہوتی ہوتو ہو،میرے بچے اورگھروالے تو اس دیوہیکل ٹرک کے نظارہ سے اس دوران لطف اندوز ہوجائیں گے ،چنانچہ اس مسلمان کی بات پر یقین کرکے جب اس دیوہیکل ٹرک کے ڈرائیور نے بندرروڈ پر ٹرک کو موڑ دیا تو کچھ ہی دیر میں کئی لوگوں نے اس کو روک کر پوچھنا شروع کیا کہ بھائی صاحب:۔ اس تنگ راستہ میں تمہارا ٹرک کیوں آیا ہے ؟ تب اس نے بتایا کہ مجھے تو ایک صاحب نے بتایا کہ بمبئی جانے کا یہی راستہ ہے ، توسب کی زبان سے اس نامعلوم شخص کے لیے بددعائیں نکلنے لگیں اور اس سے واپس مڑنے کے لیے کہنے لگے ،لیکن معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا،وہ اس غیر وسیع راستہ سے اپنا ٹرک واپس موڑ بھی نہیں سکتا تھا،راستہ چلتے کئی ماہر ڈرائیوروں نے اس کے اس ٹرک کو واپس موڑنے کی بے انتہاکوشش کی یہاں تک کہ کئی گھنٹے اس میں ضائع ہوگئے ، بالآخر ہمارے شہر کے بلڈوزر وں کے مالک ایک ماہرنوجوان ڈرائیور فرحان شاہ بندری صاحب وہاں پہنچے اور انہوں نے کمال مہارت سے کسی طرح بڑی مشقت کے بعد سرکل پر لاکر ٹرک اس کے حوالہ کردیا،وہ نامعلوم شخص اس سڑک پر واقع اپنے مکان کے برآمدہ میں اپنے بچوں کو لاکراس دوران اس ٹرک کا مفت نظارہ کرانے میں کامیاب ہوگیا ،تفریح طبع کے لیے اس نے کس قدر رذیل حرکت کا ارتکاب کیاہے یہ اس کا ایک نمونہ تھا،لیکن اسی کے ساتھ چلتے چلتے وہ شخص اس غیر مسلم ڈرائیور کے دل میں اسلام کے متعلق بدظنی کا ایک ایسا بیج بھی بوگیا کہ شاید مرتے دم تک اس کا ازالہ نہ ہوسکے۔
اس موقع پر خود اپنے بیرون ملک سفر کے دوران راستہ بھولنے کا ایک واقعہ مجھے یادآگیا،3/4سال پہلے جاپان کے دعوتی سفر کے دوران ہم اپنے میزبان ڈاکٹر سلیم الرحمن صاحب ندوی کے ساتھ رات دیر گئے ٹوکیواپنے مستقر پر واپس آرہے تھے کہ ہمارا مصری ڈرائیور راستہ بھول گیا، اس کی گاڑی میں موجود راستہ بتانے والا آلہ(G.P.S) بھی شاید کام نہیں کررہاتھا، جاپان میں گاڑی کا ہارن بجانا سخت منع ہے ، اگر کسی کے ساتھ کوئی اہم حادثہ یا واقعہ پیش آئے تو ڈرائیورہارن بجاتاہے جس کو سن کر سامنے یا دائیں بائیں گذرنے والی گاڑی والا رک جاتاہے اور اس کی مدد کے لیے حاضر ہوجاتاہے ،ہمارے ڈارئیور نے جب ہارن بجایا تو دائیں طرف ایک جاپانی شخص نے اپنی گاڑی روک دی ،ہمارے مصری ڈارئیور نے جاپانی زبان میں اس سے پوچھا کہ یہاں ہم راستہ بھول گئے ہیں اور ہمیں فلاں جگہ پہنچناہے تو کیا آپ ہماری مدد کرسکتے ہیں؟ اس نے بڑی لجاجت اور معذرت سے کہا کہ معاف کیجئے:۔ مجھے آپ کی مطلوبہ منزل کا صحیح پتہ نہیں ہے ،یہ کہہ کر پھر وہ اپنی گاڑی میں چلاگیا ، ہم لوگ بھی روانہ ہوئے ،کچھ ہی آگے بڑھے تھے اورتین چارمنٹ کا وقفہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک شخص نے ہارن بجاکر ہمیں رکنے کا اشارہ کیا ، ہمارا مصری ڈرائیور یہ سمجھ کرکہ شایداس کو کسی مدد کی ضرورت ہے اپنی گاڑی روک کر اس کے قریب پہنچا تو اس نے بتایا کہ بھائی صاحب :۔ آپ نے ابھی کچھ دیر پہلے مجھ سے راستہ دریافت کیا تھا، مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی مدد نہیں کرسکا تھا لیکن میں نے اپنی گاڑی کی (G.P.S)جی پی یس سسٹم پر چیک کرکے یہ راستہ معلو م کرلیا ہے ، آپ اطمینان سے میرے پیچھے چلیں ،میں وہاں تک آپ کو پہنچاکر واپس آؤں گا ، حالانکہ مجھے وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے ، ہم نے اس کو منع کیا کہ آپ صرف بتادیں، زحمت نہ کریں ، لیکن وہ نہیں مانا مُصررہااورمنزل پر ہمیں پہنچاکر ہی واپس گیا ۔
ان ہی جاپانیوں کی انسانی ہمدردی کا حیرت انگیزایک اورواقعہ سنئے ۔ماضی قریب میں جاپان میں جب زلزلہ آیا تو لوگوں نے دوسرے شہروں سے آنے والے متاثرین کے لیے اپنے گھرخالی کئے ، خود صحنوں ، چھتوں اور برآمدوں میں کئی کئی راتیں گذاریں اور متاثرین کو اپنے گھروں میں رکھا، دوکانداروں نے اس سانحہ سے متاثر ہوکر سامان خوردونوش کی قیمتوں میں ۹۰/فیصد تک کی کمی کی یعنی سوجاپانی ین کا سامان نقصان برداشت کرتے ہوئے ۱۰/فیصد میں فروخت کرناشروع کیا ، ہوٹلوں میں مفت کھانے کا نظم کئی کئی دن تک رہا ،اسٹار ہوٹلوں میں بلامعاوضہ ہفتوں رہنے کی اجازت دی گئی، سوپرمارکیٹ اپنا سامان مفت میں متاثرین کے لیے دینے کا اعلان کرنے لگیں ،اگر متاثرین خوشحال ہوں اور ان کو مفت سامان لینے میں عار اور شرم محسوس ہوتو کہاگیا کہ آپ رات کے اندھیرے میں آئیں ، ہم لائٹ بجھادیں گے،خاموشی سے اس طرح سامان لے جائیں کہ کسی کو پتہ بھی نہ ہواور آپ کی عزت نفس پرحرف بھی نہ آئے ،غرض یہ کہ انسانی ہمدردی کی آخری حدودکو چھونے میں جاپانی کامیاب ہوئے ۔
دوسری طرف ہمارے ایک پڑوسی مسلم ملک میں بھی کچھ سالوں پہلے زلزلہ آیاتھا،ملبوں سے سسکتی، کراہتی لاشوں کو بچانے کے بجائے ہمارے مسلم بھائیوں کو خواتین کے گلوں اور ہاتھوں سے سونے کے زیورات چھیننے اور لوٹنے سے فرصت نہیں ملی ، چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ لاش ملبہ میں دبی ہے اور صرف ہاتھ باہر نظرآرہاہے ،اندر سے کراہنے کی آوازیں آرہی ہیں لیکن سنگدل بھائیوں نے ملبہ ہٹاکر جان بچانے کی کوشش کے بجائے حرص ولالچ میں زیورات کے لیے ہاتھ ہی کاٹ لیا ،دس روپئے قیمت کا پانی متاثرین کے لیے سوروپیوں میں بکنے لگا ،نازک موقع سے ناجائز فائدہ اٹھاکر سامان خوردونوش میں ہزار گنا دوکانداروں نے اضافہ کیا ، یعنی زلزلہ کے متاثرین کو عام دنوں میں تو دس روپیہ میں ملنے والا پیاز سوروپیہ میں ملنے لگا ،دوسرے ملکوں سے آنے والاامداد ی سامان متاثرین کے گھروں میں پہنچنے کے بجائے دوکانوں میں فروخت ہوتا نظرآیا، غرض یہ کہ بے رحمی ،انسانیت سوزی اورسنگدلی کی حدود کو ہمارے اپنوں نے پارکیا۔
جاپان کے اسی دعوتی سفر کے دوران ہم تین ساتھی میٹروٹرین سے واپس آرہے تھے،ٹرین میں ہم دوکو جگہ بیٹھنے کی مل گئی ، ایک ساتھی کھڑا تھا ،ایک تقریباًستر سال کی عمررسیدہ جاپانی خاتون کچھ ہی دیر میں ہماری نشست سے کھڑی ہوگئی ،کئی اسٹیشنوں پر بھی جب وہ نہیں اتری تو ان سے ہمارے ساتھی نے پوچھا کہ جب آپ کو اترنا نہیں تھا تو آپ اپنی نشست چھوڑ کر کھڑی کیوں ہوئی ؟ اس نے کہا کہ میں نے دیکھاآپ لوگوں کا تین ساتھیوں کا گروپ ہے ،دوکو تو سیٹ مل گئی ہے، ایک کھڑا رہے، یہ مجھ سے رہا نہیں گیا ، اس لیے آپ کے خاطر میں نے کھڑے ہوکر سفرکرنے کی زحمت برداشت کی ،ہم نے بارہا اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ بیٹھے ، لیکن وہ نہیں مانی ، دوسری طرف بمبئی لوکل ٹرین پر سفر کرنے کے دوران ان گناہ گار آنکھوں نے اس کا متضاد منظر بھی دیکھا ناقابل یقین بھیڑ میں جب ہم سوار ہوکر پنویل سے وی ٹی اسٹیشن آرہے تھے، ایک معمر خاتون ایک سیٹ پربیٹھی تھی، اس نشست میں صرف 3/4مسافروں کو بیٹھنے کی گنجائش تھی ،لیکن پانچ بیٹھے ہوئے تھے ایک چھٹا شخص آیا کچھ دیر کھڑا رہا، تھوڑی دیر میں کنارے بیٹھ گیا اور دوسرے کنارے کھڑکی کے پاس بیٹھی اس معمر خاتون سے غصہ سے بار بار یہ کہتا رہا کہ اماّں:۔ ٹھیک سے بیٹھو ، تھوڑا دب جاؤ ، آگے بڑھو، یہاں تک کہ اس خاتون نے عافیت اسی میں سمجھی کہ اس گالی گلوج کے لہجہ کو سنتے ہوئے تکلیف کے ساتھ اس بیٹھنے سے کھڑے ہوکر منزل پر جانا ہی بہترہے ، چنانچہ وہ کھڑی ہوگئی اور وہ سنگدل شخص بیٹھااس کو دیکھتارہا۔
جاپان کے سفر میں ہم نے اخلاق ومروت اور شرافت وانسانیت نواز ی اور وقت کی قیمت جاننے کے ایسے مناظر دیکھے کہ عقل حیران رہ گئی ، ٹرین کے آنے میں اگر نصف منٹ بھی باقی ہے تو لائن میں کھڑا شخص کتاب کا مطالعہ کرتانظر آیا،ٹرین میں چڑھنے کے لیے بے پناہ ہجوم لیکن مجال کسی کی کہ دھکّم دھکّا کرتے چڑھنے کی کوشش کرے ،سینکڑوں لوگ قطار میں ہیں ،لیکن اس طرح کھڑے ہیں کہ کسی کا بدن بھی کسی سے نہ چھوئے،ہردو آدمی کے درمیان ایک دیڑھ فٹ کا فاصلہ،پوری ٹرین کی بوگی میں موجود سوآدمیوں میں دو تین مسافر بھی آپس میں گفتگو کرتے نظرنہیں آتے ،سب کے سب اخبارات وکتابوں کے مطالعہ میں مشغول ہیں یا ملازم پیشہ لوگ اپنے لیپ ٹاپ پرآفس کے کام میں منہمک اسلامی اصولوں کے مطابق دوکانیں اور تجارتی مراکز مغرب سے پہلے بند ہوتے ہیں اور علی الصبح کھلتے ہیں ،وطن واپسی پرمیراتو تاثر یہی تھاکہ یہ قوم پوری دنیا میں اخلاق وکردار کے اعلی نمونوں کی حامل ہے ،صرف اسلام اور توحید کی نعمت سے محروم ہے، اگر ان کو ہدایت مل جاتی ہے تو پوری دنیا میں یہ قوم اسلام کی بہترین ترجمان اور نمونہ بن کرسامنے آسکتی ہے ۔ محمد الیاس ندوی بھٹکلی
جواب دیں