لوگ سیاستدانوں کو خود غرض سمجھتے ہیں مگر مذہبی پیشواوں کو اہمیت دی جا تی ہے اسلئے انہیں کی قیادت میں پیغام امن و انصاف کی یاترا نکالنی چاہیے . شیعہ اور سنیوں کے درمیان پھیلائی ہوی غلط فہمیوں کو دور کر نی چاہیے . عصری تعلیم کے بغیر ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے . ہندوں میں سات سو سے زیادہ فرقہ ہیں لیکن وہ آپس میں نہیں لڑتے لیکن ہم مسلمان متحد کیوں نہیں ہو تے . ہمارے مسلکی اختلافات کو دور کر نے کی کوشش کر نا چاہیے . مسلم سیاستدان بکھرے ہوے ہیں اور ان کے نام پر بننے والی سیاسی پارٹیاں بھی متحد نہیں ہیں . سب کے سب اقتدار کی ہوس میں دوڑ رہے ہیں اور مسلمانوں کی زبوں حالی سے ان کو کچھ لینا دینا نہیں ہے . آج مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو متحد رکھنا چاہیے اور اسے بٹنے نہ دینا چاہیے ورنہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہو گا . اجتمائی طور پر علمائے کرام کو ملکر اپنی یہ ذمہ داری امت کو اعتماد میں لیتے ہوے ادا کر نی چاہیے ” . یہ وہ خیالات ہیں جو ملی کونسل کے جلسہ میں علماء اور دیگر حضرات نے عید گاہ قدوس صاھب بنگلور میں 14.3.2015 کو پیش کئے . ان خیالات میں کوئی نئی بات نہیں ہے . 23.3.2015کو جئے پور میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایک اجلاس ہوا جسمیں یہ قرار دادیں پاس ہویں کہ ملی صفوں میں دراڑ ختم کر نا چاہیے ، ملک کی اکثریت کو اسلام کی خصوصی صفات سے آگاہ کر نا چاہیے ،اور ملک کے جمہوری ڈھانچے کو غیر مستحکم ہو نے سے بچانا ہر شہری کا فرض ہے . یہ وہ خیالات ہیں جو جو پچھلے پچیس سالوں سے ہمارے مقررین ہر محفل میں اور ہر کانفرنس اور جلسے میں سناتے آ رہے ہیں . انہیں خیالات کو بار بار دھراتے ہوے نہ مقررین تھک رہے ہیں اور نہ ہم سننے والے تھک رہے ہیں . ملک و ملت کی کمزوریان بیان کر تے رہنا ہمارا محبوب مشغلہ بن کر رہ گیا ہے . ہر محفل میں وہی سو پچاس جانے پہچانے چہرے ہوتے ہیں . وہ ہم کو سناتے ہیں اور ہم ان کو سنا تے ہیں پھر بریانی کھا کر اپنے اپنے گھروں کو چلے جا تے ہیں . ہمارے تمام جلسے مسلم علاقوں میں ہو تے ہیں جہاں غیر مسلم بلکل ہی نہیں ہو تے . ہر محفل میں حضرات سو کی اچھاڑ پچھاڑ دیکھنے کو ملتی ہے جبکہ دانشوروں اور ماہرین کو بہت کم موقعہ دیا جا تا ہے . حضرات حق خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہے ہیں اور گوشہ نشینی کو گلے لگا کر رہ گئے ہیں . اگر بڑے بڑے جلسے کر کے دھواں دھار تقریریں کر نے سے ہمارے مسائل حل ہو جا تے تو وہ کب کے حل ہو گئے ہو تے . ہمارے مسائل دو حصوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں . ایک مذہبی مسائل ہیں اور دوسرے عصری مسائل . مذہبی مسائل میں مسلک ، اکابر ، شریعت ، زکوات ، طلاق و خلع ، مساجد مدارس اور آپسی اتفاق و اتحاد وغیرہ آتے ہیں . یہ وہ مسائل ہیں جنکو ہم ملت کے اندر بیٹھکر آپسی غور و خوص اور بحث مباحثے کے ذریعہ حل کر سکتے ہیں . یہ کام علماء حضرات الگ سے بیٹھ کر سلجھا سکتے ہیں . مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پچھلے سو سالوں سے الگ الگ مسلکوں سے تعلق رکھنے والے علماء نے کبھی بیٹھک نہیں کی اور نہ ہی اخلاص سے اس مسلہ کو حل کرنے کی کوشش کی . دھواں دھار تقریریں تو ہیں ، دل کو چھو جانے والی باتیں تو ہیں مگر عملی طور پر سب کچھ صفر ہی صفر ہے . خواہشیں اور آرزویں تو ہیں مگر مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں . بنگلور اور جئے پورکے جلسے میں جو کچھ کہا گیا وہ صرف آرزویں اور تمنائیں تھیں مگر ٹھوس کچھ بھی نہیں . کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم فلاں مسلہ پر متحد ہو گئے ہیں ، فلاں کام ہم نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور فلاں ٹھوس کام ہم کر رہے ہیں . ہر ادارہ تجاویز پیش کر تا ہے مگر یہ نہیں کہتا کہ وہ میدان میں اتر کر فلاں کام کر رہے ہیں . تمام ادارے اور انجمنیں اتحاد کی باتیں کر تے ہیں مگر خود انکے اندر اور انکے درمیان اتحاد نہیں ہے .
عصری مسائل ہمارے دنیاوی مسائل ہیں جیسے تعلیم ، معاش ، سیاست وغیرہ . یہ وہ مسائل ہیں جسکا میدان دانشوروں کا ہے . یہ وہ میدان ہے جو ہر کسی کو ضروری ہے .. ہر شخص اپنے آپ کے لئے اور اپنے بچوں کے لئے تعلیم و تربیت چاہتا ہے ، ملازمت چاہتا ہے اور سیاست میں اپنا حصہ اور وزن چاہتا ہے . مذہبی حضرات اگر اس میدان میں قیادت سے دور رہیں تو بہت اچھا ہے . اس میدان میں مسلمانوں کے الگ سے کوئی مسائل نہیں ہیں . ہمارے مسائل وہی ہیں جو دوسروں کے ہیں یعنی امن و امان ، تعلیمی میدان میں ترقی ، ملازمت ، سیاسی طاقت ، صحت و تندرستی وغیرہ . اس کے لئے ہمیں چاہیے کہ ہم غیر مسلموں کی تنظیموں سے مل جلکر کام کریں . ان میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو داخل کریں اور سب سے آگے رہ کر کام کریں . ہر شعبہ میں کام کر نے کے لئے ایک الگ الگ ادارہ قائم کر نا ہو گا . میں نے اب تک جو کچھ کہا وہ بھی ایک آرزو اور تمنا ہے . اس کو عملی جامعہ پہنا نے کے لئے مجھے یا کسی اور کو آگے بڑھ کر سب سے پہلے صرف دس ملی درد رکھنے والے اشخاص کو جوڑ کر غور و خوص کر نا ہو گا اور پھر آہستہ آہستہ اس تعداد کو بڑھا کر ہر شہر میں 25 / 30 تک لے جائیں اور پھر سب ملکر مسلمانوں کی ذہین سازی کر نے کے لئے ہر مسجد میں مہینہ کی ایک جمعہ بیان دیں اور امام حضرات کی ذہین سازی بھی کریں . اس پہلے قدم کو اٹھائے بغیر ہم دوسرا قدم اٹھا نہیں سکتے . اکثر صحافی اور مضمون نگار حضرات مذہبی حضرات کو تنقید کا نشانہ بنا تے ہیں اور ان سے ملت کو ہو نے والے نقصان بیان کر تے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انکی سوچ میں تبدیلی آئے اور وہ اخبارات اور نئی نئی کتابیں پڑھکر اپنی معلومات میں اضافہ کر لیں تاکہ انکے ذریعہ عوام کی ذہین سازی ہو سکے . مذہنی حضرات کو چاہیے کہ کہ وہ ان پر تنقید کر نے والوں کو بلائیں اور پوچھیں کہ وہ ان میں کیا کمزوریاں دیکھتے ہیں اور ان سے کیا چاہتے ہیں ۔
بہتر طریقہ یہ ہو گا کہ مذہبی حضرات اور دانشوروں کے درمیان one to one لیول پر بات ہو اور ایک دوسرے کو برابری کے انداز میں رکھیں . اب تک یہی ہو رہا ہے کہ وہ تقریریں کر تے ہیں اور ہم سنتے ہیں اور دونوں اپنے اپنے گھروں کو چلے جا تے ہیں .
جواب دیں