حفیظ نعمانی
یاد نہیں کہ کتنے مقدمات کے بارے میں پریشان لوگوں کا منھ بند کرنے کے ٍلئے کہا گیا کہ بس اب ہر دن سماعت کرکے مقدمہ کو جلد سے جلد ختم کردیا جائے گا اور اب یہ بھی یاد نہیں کہ آج سے پہلے بابری مسجد کے مقدمہ سے پہلے کبھی اس پر عمل ہوا ہو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عزتمآب گوگوئی نے یہ کارنامہ اس مقدمہ میں کرکے دکھایا جس کی جڑیں 1885 ء میں بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ اور یہ ہندوستان کا ایسا مقدمہ ہے جس نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ آنریبل جسٹس گوگوئی نے جو کیا کہ ہر دن پابندی سے سماعت جاری رکھی اور جب دیکھا کہ وقت کم اور کام زیادہ ہے تو اجلاس کے وقت میں ہر دن ایک گھنٹہ کا اضافہ کردیا اور یہ تو ہر مقدمہ میں اور ہر تحقیقات میں سنا تھا کہ عدالت نے مزید وقت مانگا ہے لیکن یہ صرف اس مقدمہ میں دیکھا کہ پہلے اعلان کیا کہ 18 اکتوبر کو بحث کا آخری دن ہوگا اور بجائے بڑھانے کے اعلان کیا کہ بحث کا آخری دن 16 اکتوبر ہوگا جس میں ہندو فریقوں کو بھی وقت دیا جائے گا اور آخر کا ایک گھنٹہ مسلم فریق کے وکیل کو اور وقت ختم ہوتے ہی دفتر بند کردیا جائے گا۔
اس اعتبار سے بھی شاید یہ مقدمہ منفرد تھا کہ چالیس دن اس کی سماعت ہوئی اور ہر دن دن بھر الیکٹرانک میڈیا ہر گھنٹہ کی خبر دیتا رہا اور آخری دن تو غضب ہی ہوگیا کہ ہندو فریق کے ایک وکیل نے چند کتابیں اپنی بحث کے دوران پیش کیں تو جمعیۃ علماء کے وکیل دَھون صاحب نے اعتراض کیا کہ یہ نئی چیز ہے یہ ہائی کورٹ میں پیش نہیں کی گئی تھی اس کے ساتھ انہوں نے ایک نقشہ بھی پیش کیا جس میں اس جگہ کو دکھایا گیا تھا جہاں ان کے نزدیک رام چندر جی کی ولادت ہوئی تھی۔ اس نقشہ پر مسلمانوں کے وکیل دَھون صاحب آگ بگولہ ہوگئے اور عدالت سے کہا کہ میں اسے پھینک دینا چاہتا ہوں چیف جسٹس نے فرمایا کہ آپ اسے پھاڑ بھی سکتے ہیں یہ خبر ہم نے خود دن میں تین بجے ان الفاظ میں سنی کہ وکیل راجیو دَھون نے نقشہ کو پھاڑکر پھینک دیا یہ بات چیف جسٹس کو اتنی ناگوار گذری کہ انہوں نے غصہ میں فرمایا کہ ہم اُٹھ کر جا بھی سکتے ہیں اور یہ بھی کہا کہ یہ دھمکی تھی۔ جبکہ بعد میں معلوم ہوا کہ چیف جسٹس نے مسکراکر فرمایا کہ آپ اسے پھاڑ بھی سکتے ہیں اور دَھون صاحب نے ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دیا۔ یہ ایسی بات تھی جو مسٹر راجیو دَھون کی چالیس روزہ محنت اور قابلیت پر پانی پھیر سکتی تھی۔ اور جن حضرات نے چالیس دن مسلسل ہر دن ان کا انداز دیکھا ہے ان کے حلق سے نہیں اتر رہا تھا۔ یہ تو بعد میں چیف صاحب کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ آپ اسے پھاڑ بھی سکتے ہیں۔ اور جب وہ پھاڑکر پھینک چکے تو چیف صاحب نے فرمایا کہ میری اجازت سے انہوں نے نقشہ پھاڑا تھا۔
اس وقت ہندو فریقوں نے غصہ میں یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ بھگوان رام کی پیدائش اس جگہ ہوئی ہے جہاں بابری مسجد کا درمیانی گنبد تھا۔ اگر یہ گنبد ان کی پیدائش سے پہلے موجود تھا اور اس کے بارے میں بھی یہ شہرت تھی کہ اگر درد بڑھتا جاتا تھا اور ولادت نہیں ہوپاتی تھی تو مکہ معظمہ میں کفار مکہ خانہئ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کے پاس لے جاتے تھے اور ولادت کو ان بھگوانوں کی مہربانی سمجھتے تھے۔ اگر ایسا ہی بابری مسجد میں ہوتا تھا تو اور اس کے ثبوت موجود ہوں تو ہم مان سکتے ہیں کہ جس جگہ کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے۔ یا نقشہ میں جو جگہ بتائی گئی ہے وہاں ہی ولادت ہوئی ہوگی۔ لیکن ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ رام چندر جی کا زمانہ لاکھوں سال پہلے کا ہے۔ اب سب سے پہلے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ کتنے لاکھ سال ہوئے اور پھر یہ تحقیق کرنا پڑے گی کہ کیا اس زمانہ میں راجہ اور راج کمار محل اور گرہستی لباس رہن سہن اوزار اور کھانے پینے کا یہ طریقہ ایجاد ہوچکا تھا۔ اس معاملہ میں کسی ہندو کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ہر کسی نے آستھا کی چادر اوڑھ لی ہے ان سے ثبوت مانگو تو جواب دیتا ہے کہ یہ ہماری آستھا ہے اور آستھا کے لئے نہ وقت کی ضرورت ہے نہ کسی دلیل کی۔ اور ہندو وکیلوں نے یہ ثابت نہیں کیا کہ مسجد کے نیچے جو کھدائی کی گئی اس میں مندر کے ثبوت نکلے وہ بھی آخرکار آستھا پر آگئے اور کہہ دیا کہ آستھا بھی ایک ثبوت ہے اور جب ہر ہندو کی آستھا ہے کہ بھگوان رام وہیں پیدا ہوئے جہاں کے بارے میں ہندو لیڈروں نے آستھا بنالی ہے۔ اور نہ اسے کسی ثبوت کی ضرورت ہے نہ دلیل کی۔ بہرحال جمعیۃ کے وکیل مسٹر راجیو دَھون جن کا جسٹس کاٹجو بھی قصیدہ پڑھ چکے ہیں انہوں نے پورے مقدمہ کو جس طرح پیش کیا اسے کوئی ایسا مسلمان ہی پیش کرسکتا تھا جس پر نہ احساس کمتری کا اثر ہو اور جو صرف مسلمان نہ ہو بلکہ اسلام کا وکیل ہو۔ لیکن وہ جو بھی ہوتا راجیو دَھون صاحب سے پھر بھی شاید کمتر رہتا جنہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اسلام ایک خوبصورت مذہب ہے اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر لوگوں نے اسلام مذہب قبول کیا۔ اور جب انہوں نے اپنی چالیسویں دن بحث ختم کی تو علامہ اقبال کے اشعار پڑھ کر جو کمی رہ گئی تھی اسے بھی پورا کردیا۔ انہوں نے سب کو مخاطب کرکے کہا:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
یونان و مصر روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دَورِ زماں ہمارا
٭٭٭
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
میں صرف اپنی اور اپنے اخبار کی طرف سے ہی نہیں پوری ملت اسلامیہ کی طرف سے راجیو دَھون ایڈوکیٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے ہاتھ میں جتانا یا ہرانا نہیں ہے ان کو صرف وہ سب عدالت کے روبہ رو رکھ دینا تھا جو ہمارے دل میں تھا۔ اور ہم اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے مقابلہ میں کہیں زیادہ وہ کہہ دیا جو شاید ہم نہ کہہ پاتے۔
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
24اکتوبر2019(فکروخبر)
جواب دیں