ہم تو مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں

دوسری طرف راجیو گاندھی نے سکھوں کو خوش کرنے کے لئے خزانے کا منھ کھول دیا اور اتنی مدد کی تاکہ ان کا غصہ ٹھنڈا ہوسکے۔ لیکن اس دن سے آج تک سکھوں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا جبکہ جگدیش صاحب اور سجن کمار دونوں کو ان کے اہم عہدوں سے ہٹا بھی دیا گیا لیکن سکھوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں پھانسی دی جائے یا عمرقید کی سزا۔ وہ اس سلسلہ میں عدالتوں کو بھی معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
1987ء میں جب راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالا کھلوایا اور اس میں پوجا پاٹ کی اجازت دلوادی تو پورے ملک کے مسلمانوں نے زبردست احتجاج کیا۔ یہ احتجاج میرٹھ کے مسلمانوں نے بھی کیا اور وہاں کچھ ایسا ہوا کہ اسے راجیو گاندھی نے اپنے خلاف محاذ آرائی سمجھا اور نرائن دت جیسے شریف وزیر اعلیٰ کو ہٹاکر ایک بدمعاش اور ذلیل ویر بہادر کو وزیر اعلیٰ بناکر انہوں نے حکم دیا کہ میرٹھ کے مسلمان ذرا زیادہ سر اُٹھا رہے ہیں انہیں سبق سکھا دو۔ ویر بہادر نے جو خود بھی انتہائی مسلم دشمن تھا۔ میرٹھ میں وہ کیا جس نے 1984 ء کو بھی مات کردیا اور اس دن سے اب تک میرٹھ کے مسلمانوں کا غم غلط کرنے کے لئے سوائے اُن کے مسلمان بھائیوں کے کوئی سامنے نہیں آیا۔
راجیو گاندھی کو تو قدرت نے اس کی سزا جیسی دی وہ سب نے دیکھ لیا اور راجیو کو اُکسانے والے ان کے یار ارون نہرو بھی سیاسی کوڑے دان میں ڈال دیئے گئے اور ویربہادر کو بھی اسی طرح ماراکہ اس کے منھ میں اُن کے دھرم کے مطابق کوئی گنگا جل ڈالنے والا بھی اس کے پاس نہیں تھا اور جس نے ہزاروں کروڑ روپئے اپنی حکومت کے اثر سے جمع کرکے اپنے دوستوں کے پاس رکھ دیئے تھے ان کا پتہ نشان بتانے والا بھی کوی نہیں رہا لیکن یہ سزا قدرت نے اس لئے دی کہ نہ انہیں حکومت نے سزا دی اور نہ عدالت نے۔ لیکن یا تو ہم نے سنا نہیں یا یاد نہیں کہ میرٹھ کے برباد مسلمانوں کو حکومت نے کوی امداد دی ہو؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جب انہیں مروانے اور برباد کرانے کا حکم راجیو گاندھی دیں اور اس حکم پر عمل بھی اُترپردیش کا وزیر اعلیٰ کرے تو امداد کون دے گا؟ بس ان کے مسلمان بھائی ہی تھے جو ریلیف کا کام کررہے تھے لیکن ایک غریب جیسے دوسرے غریب کو اپنی ایک روٹی میں سے آدھی دے سکتا ہے ایسے ہی مسلمانوں نے اپنے منھ کا نوالہ دیا جو نہ دینے کے برابر تھا۔
2007ء میں آج تک چینل کے نیوز ایڈیٹر مسٹر باجپئی میرٹھ گئے تھے۔ انہوں نے گھوم گھوم کر ہاشم پورہ کے ٹوٹے پھوٹے گھر دکھائے تھے اور بھوکے پیاسے بھوکوں کو اُن میں سے کسی کے جسم پر نہ چمکدار کپڑے تھے نہ چہروں پر رونق۔ جس کسی کو دکھایا اور اس کی گفتگو سنوائی وہ رُلادینے والی کہانی تھی۔ یہ زمانہ وہ تھا جب سردار منموہن سنگھ وزیر اعظم بن چکے تھے۔ اسی زمانہ کے آس پاس 1984 ء کے قتل عام کی تحقیقاتی رپورٹ جو جسٹس ناناوتی نے تیار کی تھی وہ انہوں نے حکومت کے سپرد کی۔ اس رپورٹ کو وزیراعظم پارلیمنٹ میں لے کر آئے اور روتے ہوئے رپورٹ کا خلاصہ بتایا اور پھر سیکڑوں کروڑ روپئے کی امداد کا اعلان کیا اور سکھوں سے معافی مانگی وہ جتنی جتنی رقم کا اعلان کرتے جاتے تھے پارلیمنٹ کے ممبر اتنی ہی میزیں تھپتھپائے جاتے تھے۔
سردار جی نے جو اعلان کیا یہ دوسری قسط تھی۔ اس کے بعد پھر ایک قسط مزید دی گئی لیکن سکھوں کا غصہ نہ پہلے اعلان کے ختم ہوا اور نہ اب ختم ہوا ہے جبکہ کوئی نیا آدمی موٹے سے موٹے شیشوں کی عینک سے دیکھ کر یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ ان مکانوں میں کون سا کبھی جلایا گیا تھا؟ اور کون سی دکان لوٹی اور جلائی گئی تھی؟ یا کون سے سردار جی اور سردارنی زخمی ہوئے تھے یا متاثر ہوئے؟؟؟ اس کے برعکس 2007 ء کا ہاشم پورہ باجپئی نے ٹی وی پر دکھایا تھا اور 2015 ء کا ہاشم پورہ کا ایک ایک گھر۔ ایک ایک گلی اور ایک ایک سڑک ہر چینل نے اس وقت دکھائی جب عدالت نے 28 برس کے بعد یہ شرمناک فیصلہ سنایا کہ اسے نہیں معلوم کہ ہاشم پورہ کے 42 جوانوں کو کس نے گولی ماری اور نہ اسے یہ معلوم ہوسکا کہ ہاشم پورہ پر کوئی ایسا حملہ ہوا تھا جیسا دشمن فوج کسی شہر کو فتح کرنے کے لئے کرتی ہے۔ جج صاحب کو انڈین ایکسپریس کے وہ سیکڑوں فوٹو بھی کچھ نہ سمجھا سکے کہ ہاشم پورہ میں پولیس اور فوج کیا کررہی ہے؟ اگر ایسا فیصلہ سکھوں کے معاملہ میں کوئی عدالت کرتی تو شاید نہ جج رہتے نہ سرکاری وکیل، نہ چیمبر اور نہ عدالت کی عمارت۔ لیکن یہ مسلمان تھے جو صرف ایک دوسرے سے گلے مل مل کر رولئے۔ اس لئے کہ انہیں پہلے ایک جناح نام کے جادوگر نے اپنے جادو کے زور سے پہلے ایک مملکت خداداد پاکستان دکھایا کہ یہ جنت ارضی ہے۔ پھر جب اس نے چاہا کہ مسلمان اس مطالبہ سے دستبردار ہوجائیں تو مسلمان نہیں مانے اور ہمیں نفرت کے جہنم میں چھوڑکر چلے گئے۔ پھر جب ان کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ وہ مملکت شیاطین ہے اور اب جو حال ہمارا ہے وہی ان کا بھی ہے بلکہ ان کا ہم سے بھی برا ہے۔ ان سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی نے بھی وزیر اعظم بنتے ہی ضروری سمجھا کہ سکھوں کو اپنا بنانے کے لئے وہ بھی کچھ کریں۔ اور انہوں نے آنکھ بند کرکے پانچ پانچ لاکھ کے چیک بانٹے نہیں برسادیئے۔ یہ وہی مودی تھے جنہیں خزانہ کا مالک بن کر بھی گجرات کے مسلمان یاد نہیں آئے جو 13 برس کے بعد بھی سڑکوں کے پاس پڑے ہیں۔
ہاشم پورہ جیسے 1987 ء میں تھا ایسا ہی اب ہے انہیں اگر سکھوں سے آدھی چوتھائی مدد بھی ملی ہوتی تو ہاشم پورہ بھی جگمگا رہا ہوتا۔ دنیا جانتی ہے کہ مسلمان کو تعمیر کا شوق بھی ہے اور سلیقہ بھی۔ یہ مسلمان کی بنائی ہوئی ہی عمارتیں ہیں جنہیں تاج محل کہا جاتا ہے، قطب مینار کہا جاتا ہے، یا لال قلعہ اور ہمایوں کا مقبرہ۔ جنہیں دنیا کا ہر آدمی چاہے وہ اپنے ملک کا صدر ہو، وزیر اعظم ہو یا فقیر سب دیکھنا چاہتے ہیں اور دیکھ کر مبہوت ہوجاتے ہیں اور جن کی آمدنی 100 کروڑ ہندو کھاتے بھی ہیں اور حسرت سے اسے مندر کہہ کر کلیجہ ٹھنڈا کرلیتے ہیں۔ شاید پچاس برس پہلے بھی ہم آگرہ گئے تھے تو تاج محل کے قریب ایک مندر بن رہا تھا۔ اس وقت وہاں کے کاریگروں نے بتایا تھا کہ یہ تاج محل سے زیادہ خوبصورت بنے گا۔ اس کے بعد کوئی خبر نہیں ملی کہ اب دنیا کا ایک عجوبہ ہندوؤں نے بھی بنا دیا ہے۔
کل سے سن رہے تھے کہ ہاشم پورہ کا ایک وفد شری ملائم سنگھ سے ملنے آیا تھا اور وہ وزیر اعلیٰ سے بھی ملا۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ان کا مقدمہ اب وہ لڑیں گے۔ اس خبر سے تو ہمیں خوشی نہیں ہوئی کیونکہ عدالتیں حکومت کے ماتحت نہیں ہوتیں اور جب 28 برس مقدمہ چلا تب بھی دو بار شری ملائم سنگھ کی حکومت رہی البتہ انہوں نے جو ہاشم پورہ اور ملیانہ کے متاثر حضرات کو پانچ پانچ لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیا ہے اس سے اس لئے خوشی ہوئی کہ اس رقم سے وہ لوگ اس زخم کے لئے مرہم خریدیں گے جو عدالت کے فیصلہ سے لگے ہیں۔
ہمارے ملک میں جمہوریت ہے اس کی وجہ سے ہر کام ووٹ کے لئے ہوتا ہے۔ شری ملائم سنگھ دیکھ رہے ہیں کہ مودی اور امت شاہ اُترپردیش کو خونی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ ہر قیمت پر اس پر بھگوا جھنڈا لہرانا چاہتے ہیں اور شاید مایاوتی نے سمجھ لیا ہے کہ ان کا کھیل ختم ہوگیا اسی لئے وہ اپنا خزانہ داؤ پر لگانا نہیں چاہتیں۔ اس صورت میں مقابلہ مودی بنام ملائم ہوگا اور اس وقت انہیں 100 فیصدی مسلمانوں کی ضرورت ہوگی اور ملائم سنگھ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہاشم پورہ مسلمانوں کے لئے بابری مسجد جیسا ہے۔ اس وقت انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ کچھ بھی سوچ کر کیا ہو لیکن ہاشم پورہ کے مسلمانوں کو تحفہ دے کر ملک کے ہر مسلمان سے دعا لے لی۔ اس لئے کہ ملک میں مسلمان ہی سب سے زیادہ احسان شناس ہے۔ اس لئے کہ اس کا ایمان ہے۔ ’’ہل جزاء الاحسان الّاالاحسان۔‘‘

«
»

خبر ہونے تک….

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے