یہ لڑائی صرف مسلمان کی نہیں،تمام ہندوستانیوں کی ہے
تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
شہریت بل کی آگ میں آسام جل رہا ہے۔ نارتھ ایسٹ سلگ رہاہے۔مغربی بنگال میں یہ چنگاری شعلہ بننے والی ہے۔ دلی سے حیدرآباد تک لوگ سڑکوں پر ہیں اور احتجاج کا طوفان سا آگیا ہے۔ سب کو یقین ہے کہ شہریت بل کے بعد اب این آرسی لایا جائے گاجس میں مسلمانوں کے علاوہ سب کو ملک کا فطری شہری مان لیا جائے گا۔ مسلمانوں سے شہریت کی دلیل مانگی جائے گی، حب الوطنی کا ثبوت طلب کیا جائے اور یہ سب، وہ لوگ کرینگے جن کے آباء واجداد پر جنگ آزادی میں حصہ لینے کے بجائے انگریزوں کی مخبری کا الزام ہے۔مسلمان کے سرپر ملک سے بے دخلی کی تلوار تو لٹک رہی ہے مگر بے چین وہ تمام ہندوستانی ہیں جو اس ملک سے پیار کرتے ہیں اور اس کے اتحادوسالمیت میں یقین رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں غیرمسلم برادرانِ وطن، حکومت کی ناانصافی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ بھارت کے ہزاروں سائنسدانوں، صحافیوں، قلم کاروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کیا ہے اور شہریت بل ومجوزہ این آرسی کو ملک دشمن قدم قرار دیاہے۔ وہ جانتے ہیں کہ حکومت کے اندر بیٹھے لوگوں کا ایک فرقہ وارانہ فیصلہ اس ملک کے مستقبل کو تاریک کردے گا۔ خطروں کی زد میں صرف مسلمان نہیں آئیں گے بلکہ ہندوستان آئے گا۔ آخر مسلمان بھی تواسی کشتی کے سوار ہیں، جس پر تمام ہندوستانی سفر کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو نفع ونقصان دوسروں کے نفع ونقصان سے جڑا ہوا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاسی پارٹیوں نے بھی اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کیا۔کانگریس،سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتادل، بہوجن سماج پارٹی، این سی پی، شیوسینا، ترنمول کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیاں شہریت بل کے سخت خلاف ہیں اور اسے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف قرار دے رہی ہیں۔ملک کی کئی غیربی جے پی ریاستی حکومتوں نے تو اپنے حدود اختیار میں اس قانون کو نافذ کرنے سے بھی انکار کردیا ہے۔ اس قانون کو اقوام متحدہ اور دنیا کے کئی ملکوں نے اقلیت دشمن اور مذہبی بھید بھاؤ والا بتایا ہے۔ حالانکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس ہونے اور صدرجمہوریہ کے دستخط کے بعد یہ بل،قانون بن چکا ہے۔اس بیچ اسے سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ہے مگر اس بات کا امکان کم ہے کہ مودی۔شاہ کی مرضی کے برعکس کورٹ کا کوئی فیصلہ آئے۔ بابری مسجد کیس میں ہم انصاف کا حشر دیکھ چکے ہیں۔
مسلمان، حکمت عملی بنائیں
یوں توہرطبقہ شہریت بل کو مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی قرار دے رہا ہے مگر خود مسلمانوں کے اندر بہت زیادہ بے چینی ہے کیونکہ ان کا وجود خطروں کی زد میں ہے۔جگہ جگہ مظاہرے ہورہے ہیں اور ہمیشہ خاموش مزاجی اور بے حسی کا مظاہرہ کرنے والے مسلمان بھی، سڑکوں پر نظر آرہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی تک اور ممبئی سے لے کر دور افتادہ کشن گنج تک مسلمان احتجاج کے راستے پر ہیں۔ یہ ہونا بھی چاہئے مگر مسلمانوں کو ایک بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ یہ لڑائی ان کی تنہا کی نہیں ہے بلکہ اس ملک کے کروڑوں انصاف پسند ہندووں، عیسائیوں،سکھوں اور بودھوں کی بھی ہے۔ بابری مسجد کیس میں مسلمانوں کی لڑائی لڑنے میں راجیو دھون، کپل سبل اور سدھارت شنکر رائے بھی شامل تھے۔ پارلیمنٹ میں جس طرح شہریت بل پر اسدالدین اویسی نے آواز بلند کی، اسی طرح ادھیر رنجن چودھری نے بھی اپنی باتیں رکھیں اور ڈیریک اوبرائن بھی پیچھے نہیں تھے۔ اگر آج احتجاج کے لئے انڈین یونین مسلم لیگ اور ایم آئی ایم سامنے آئی ہیں تو کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتیں بھی مظاہرے کر رہی ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ تنہا نہ چلیں اور اسے صرف مسلمان کا معاملہ نہ بننے دیں بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی اور بدھسٹ بھائیوں کے ساتھ مل کر احتجاج کریں۔ ویسے یہ لڑائی ایک دن کی نہیں ہے،طویل چل سکتی ہے اور یہ انٹرنیشنل بھی ہوسکتی ہے لہٰذا مل بیٹھ کر اس پر حکمت عملی تیار کی جانی چاہئے۔ اسے عالمی پلیٹ فارموں پر اٹھانے کی تیاری بھی ہونی چاہئے۔ متحرک وفعال علماء، زعماء اور مسلم تنظیموں کوبھی اس تحریک میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے کمرکس لینی چاہیے۔سب کو عہد کرنا ہوگا کہ ہم شہریت بل نافذ نہیں ہونے دینگے اور بھارت کو جمہوریت وسیکورلرازم کا قبرستان نہیں بننے دیں گے۔ ملک کے پہلے ہی تین ٹکڑے ہوچکے ہیں،اب مزید تقسیم کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اب کوئی ’این آرسیستان‘نہیں بن سکتا۔ یہ بھی دھیان رہے کہ پوری تحریک پرامن اور عدم تشدد کی راہ سے نہ بھٹکے اوریہ لڑائی صرف گاندھیائی طریقے سے لڑی جائے۔
ناتھ ایسٹ انڈیا میں اشتعال
ایسا نہیں ہے کہ اس بل کے خلاف صرف مسلمان اور ترقی پسند معاشرہ ہی کھڑا ہوا ہے۔ آسام میں اس کے خلاف سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور سماج کا ہر طبقہ اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ آسام معاہدے کے مطابق، 24 مارچ 1971 کے بعد آنے والے افراد، خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان،یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، انھیں آسام سے خارج کرنالازمی ہے۔اب اس ترمیمی بل کی مدد سے 2008 میں آئے تمام بنگالی غیرمسلموں کو بھی آسام کا شہری سمجھا جائے گا۔ یہی سبب ہے کہ آسام میں ا س بل کی سخت مخالفت ہورہی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ آسام معاہدے کے آرٹیکل 6 میں آسام کی ثقافت اور زبان کو برقرار رکھنے کے بارے میں کہا گیا تھا۔ دوسری ریاستوں سے آنے والے ہندوؤں کو بھی آسام کا شہری نہیں سمجھا جاسکتا اگر وہ 24 مارچ 1971 کے بعد آئے تھے۔اب اس بل کے تحت مسلمانوں کے علاوہ تمام ملکی اور غیرملکی آسام کے شہری قرار پائینگے۔پورے نارتھ ایسٹ انڈیا کا معاملہ بھی کم وبیش کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں کے لوگ نہیں چاہتے کہ دوسرے خطوں کے لوگ آکر ان کی تہذیب پر اثر انداز ہوں، وہ خواہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں۔ اسی لئے یہاں شہریت بل کی شدت سے مخالفت ہورہی ہے۔
مغربی بنگال میں لاواپک رہا ہے
مغربی بنگال بھی ان صوبوں میں شامل ہے، جہاں شہریت بل کی شدید مخالفت ہورہی ہے۔ احتجاجیوں نے کئی اضلاع میں بسوں اور ٹرینوں میں آگ لگادی۔یہاں برسراقتدارترنمول کانگریس اس بل کی سخت مخالف ہے۔ مغربی بنگال میں بنگلہ دیش سے آنے والے لوگوں کی تعداد ایک تہائی یعنی تقریبا 3 تین کروڑ بتائی جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف وجوہات کی بناء پر مختلف اوقات میں آتے رہے ہیں۔ ان میں ہندو اکثریت میں ہیں۔ یہ تمام لوگ پہلے سے بھارت کے شہری ہیں مگر چند لاکھ ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں اس قانون سے فائد ہ مل سکتا ہے۔ بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلمان، بنگال میں کم ہیں لیکن یہ مسئلہ مسلمانوں کے لئے جذباتی طور پر اہم ہے۔انھیں خوف ہے کہ اس کے بعد این آرسی آئے گا اور انھیں شہریت سے محروم کر جیل بھیج دیا جائے گا۔
آئین ہند سے ٹکرانے والا قانون
شہریت ترمیمی بل میں مسلمانوں کی عدم شمولیت سے آئین ہند کی روح کو نقصان پہنچاہے اوریہ آئین کے سیکشن 14 اور 21 کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ اس طرح کا قانون شاید ہی ہندوستان کی تاریخ میں کبھی لایا گیا ہو۔ اگر بی جے پی انسانیت کی بات کرتی ہے تو پڑوسی ممالک کے کسی بھی مذہب کے مہاجرین کو ہندوستان کا حصہ سمجھا جانا چاہئے۔ ایسے مظلوم طبقات میں سب سے زیادہ قابل رحم سری لنکا سے آئے تمل ہندو اور میانمار سے آئے روہنگیا مسلمان ہیں۔
بھارت پر دنیا کی نظریں
پاکستان اپنی انتہائی کوششوں کے باجود اقوام متحدہ میں بھارت کا کچھ خاص نہیں بگاڑ پایا مگر اب شہریت بل کے بہانے بھارت خود سوالوں کے گھیرے میں آگیا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ حالات پر نظر بنائے ہوئے ہے۔ اقلیتوں کی حق تلفی نہیں ہونی چاہئے۔ دوسری طرف شہریت ترمیمی قانون کے بعد شمال مشرق سمیت ملک کے کئی خطوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس کے مدنظر اب فرانس، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ نے بھی اپنے شہریوں کے لئے ایڈوائزری جاری کی ہے اورانھیں آسام نہ جانے کی صلاح دی ہے،نیز شمالی ہند کے سفر سے بھی منع کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر آفیسر نے کہا ہے کہ ہندوستان کے ذریعہ اپنے شہریت قانون میں ترمیم کئے جانے کے بعد رونما ہونے والے واقعات پر امریکہ قریبی نظر رکھے ہوئے ہے۔ آفیسر نے کہا کہ امریکہ نے ہندوستان سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے آئینی اور جمہوری اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔واضح ہوکہ اقوام متحدہ نے 1948 میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کوتسلیم کیا تھا۔ ہندوستان نے بھی اس منشور پر دستخط کیے ہیں۔ اس اعلامیے کے آرٹیکل 15 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہروہ فردجوخواہ کسی قوم سے ہو، اسے شہریت کا حق حاصل ہے اور کسی کو بھی شہریت سے من مانے طریقے سے محروم نہیں رکھا جاسکتا یا شہریت تبدیل کرنے سے منع نہیں کیا جاسکتا۔اب اقوام متحدہ اور دنیا کے دوسرے ملکوں کو اندیشہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون،ہندوستان کو ایک ہندو تکثیریت پسند قوم کے طور پرسامنے لائے گا، جسے خود یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہوگا کہ کون سے طبقے کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دے اور کس کو نہیں۔
بھارت کی سیکولر امیج کے خلاف
یہ کہنا مبالغہ آمیز نہیں ہوگا کہ شہریت ترمیمی بل ہندوستان کی سیکولر امیج کے خلاف ہے۔کیا بھارت ایسے ہی قانون بناکر عالمی گرو بننے کے اپنے خواب پورے کرے گا؟ ایک مہذب معاشرہ ایسے قوانین کی حمایت نہیں کرسکتا جو مذہبی بنیاد پرستی کی عکاسی کرتے ہوں۔ یہ قانون ہمیں دوسرا اسرائیل بنائے گا، جبکہ یہ ہندوستان ہے۔ تمام مذاہب کے لوگ صدیوں سے یہاں مقیم ہیں۔ ہمیں نسل پرست اور فاشسٹ ثقافت کی طرف کیوں جانا چاہئے؟ ایسے میں سیاسی جماعتوں کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ تاریخ کے اس دوراہے پر وہ کس نظریہ کے ساتھ کھڑی ہیں؟ بات یہاں تعداد کی نہیں بلکہ اصولوں کی ہے کہ ہندوستان گاندھی کے راستے پر گامزن ہوگا یا گوڈسے کی راہ پر آگے بڑھے گا؟
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں