٭بسم اللہ الرحمن الرحیم٭
از: مفتی صدیق احمد
آپ حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آئے دن دنیا بھر کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں؛ظلم وتشدداور عصیان ونافرمانی کابازار گرم ہے،تعصب بڑھتا جارہا ہے،قتل وقتال عام ہوچکا ہے،خود غرضی اور مفاد پرستی زور پکڑ رہی ہے،ہر ایک کو اپنی ہی فکر کھائے جارہی ہے،ہر حکمراں اپنی رعایا سے الگ الگ طریقے سے کھلواڑ کرتانظر آرہاہے،رعایاکے ذہن ودماغ اور نظریات پر حملے کیے جارہے ہیں،ہر طرح سے رعایاکو غلام بنانے اور انکے تمام اختیارات چھیننے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہے،حقوق کی وصولیابی کے لیے آواز اٹھانے پر انکی آواز کو دبانے پر ہی اکتفاء نہیں کیا جارہا ہے،بلکہ اب تو ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک بھی کیا جارہا ہے،انہیں یا توموت کے دہانے پر کھڑا کردیا جاتاہے،یا تو جان ہی لے لی جاتی ہے،اور خانہ جنگی میں اُلجھا دیا جاتا ہے،انکے اہم اور ممتاز ترین لوگوں پر اس طرح کیچڑاُچھالاجارہاہے کہ سوائے عداوت بغض اور نفرت کے کچھ بھی باقی نہیں رہ پاتا،صحیح اور غلط کی پہچان تو درکناراسکی تحقیق تک رسائی حاصل کرنابھی مشکل نظر آرہاہے۔
یہودبے بہود اس وقت مسلمانوں کے خلاف منظم سازشیں رچ رہے ہیں،جس میں سرفہرست دجّال کاانتظار،اسکے لیے راہیں ہموارکرناہے،اورعالم اسلام سے لیکردنیاکے خطے خطے کوجنگ میں جھونک کر، انکے مال پر ناحق قبضہ جمالینابھی ہے،اوراپنی شاطرانہ عیّاریوں سے دنیابھر کے مسلمانوں کوظلم وتشددکانشانہ بناناہے،جسکے لیے کوششیں اب بھی جاری ہیں۔
دنیابھر میں مسلمانوں کے خلاف عیسائی مشنری نہایت ہی تیزرفتاری سے تبلیغِ عیسائیت کاکام کر رہی ہے،غرباء فقراء کومال و دولت کی لالچ دیکر،بیماروں کاعلاج ومعالجہ کرکے،کبھی اپنے اچھے اخلاق سے لُبھاکر،اورکبھی اپنی خوبصورت لڑکیوں کے عشقیّہ جال میں پھنساکر،مذہب عیسائیت کی تبلیغ کررہے ہیں،اس مقصد کے حصول کے لیے باقاعدہ قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی ہے،تاکہ سار ے احکام ومسائل جان کر اسلام کیخلاف منصوبہ بناسکے۔
ملحدین مسلمانوں پرہرطرح کے مظالم ڈھاکر،انکے مذہبی آزادی کوچھیننے،اورانکوشعائر اسلام سے رو کنے میں لگے ہوئے ہیں،حتی کہ اسلامی رُکن کوچپکے سے بھی داکرلینے کی صورت میں انکے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔
آرایس ایس جوکہ ہندوتواشدّت پسندنظریات کی حامل ہیں،جس کامقصدجمھوری ملک پرہندو توانظریہ کوزبردستی تھوپ کر،ملک کوہندوراشٹر بنانا،اوریکساں سول کوڈکانفاذہے،ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنے اپنے مذاہب سے بھی بغاوت کرلی ہے،اوراس راہ میں حائل ہونے والی تمام دیواروں کومسمارکرنے پرآمادہ ہیں،اسی کی ایک کڑی ملک میں کالے قوانین(CAA/NRC/NPR)کانفاذ ہے،ملک کی معیشت کوتباہ کرچکے ہیں،اورملک پرزعفرانی دہشت گردی کارنگ چڑھاچکے ہیں،انھوں نے ملک کے تمام سیکولرافرادکے ناک میں دم کررکھاہے،آئین کاتوجنازہ نکل چکاہے،ہائی کورٹ سے لیکر،سپریم کورٹ تک کے ججیزچیخ رہے ہیں کہ: ملک کی جمھوریت کوخطرہ لاحق ہے،پوراملک زعفرانی شدت پسندتنظیم کے نظریے کے تحت اوراس کے دباؤمیں چل رہاہے،آئے دن ظلم وتشددکابازارگرم ہورہاہے،موجودہ ایام میں ملک کوشدیدترین خطرہ لاحق ہے؛ملک کے سیکولرتمام افراد،خاص طورسے مائیں بہنیں کالے قوانین کے خلاف ملک کی سلامتی اور بقاء کے لیے دامے، درمے، قدمے، سخنے ہرطرح کی قربانی کے لیے تیار ہیں،اورقربانی دے بھی رہے ہیں؛لیکن موجودہ حکومت بے حس ہوکربلاسوچے سمجھے اپنے ناپاک منصوبے کی تکمیل میں لگی ہوئی ہے،عدالت سے لیکرحکومت کے تمام کارندے متعصّبانہ رویّہ اختیارکیے ہوئے ہیں،ملک کے خزانے بے جاخرچ کیے جارہے ہیں،تعلیم اورصحت یابی کی جگہ یعنی اسکول اوراسپتال کوتوآج ملک بھر میں کمائی کاذریعہ بنالیاگیاہے؛سرکاری ادارے خانہ پوری کر رہے ہیں،یامذہبی آزادی سے عاری ہیں،یاتوفحاشی وضیاع وقت کااڈہ بنے ہوئے ہیں؛ایسی صورتحال میں ان دونوں چیزوں کوبھی شدید خطرہ لاحق ہے۔
شیعہ بھی مسلمانوں سے حددرجہ بغض وعنادرکھتے ہیں،اندرونِ خانہ وہ بھی اسلام ومسلمانوں کے خلاف سازشیں رچتے رہتے ہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخیاں کرتے رہتے ہیں،غرض وہ بھی آستین کے سانپ سے کم نہیں ہیں۔
انگریزوں نے جب مسلم اتحادکو دیکھاتواْن کی نظرکونہ بھایا،اورمسلمانوں کے درمیان اختلاف پیداکرنے کے لیے علمائے سوء کوخریدکرنیئ نیئ گمراہ فرقے ایجادکرنے میں مصروف ہوگئیں،انکامقصد یہ تھاکہ پھوٹ ڈالوحکومت کرو،وقت گزتاگیایہ اختلاف شدت پکڑتاگیا،حتی کہ ایک فرقہ دوسرے کوکافراورمشرک قراردینے لگا،مسلمان آپس میں دست وگریباں ہوگئیں،ایسے منتشراوراختلافی ماحول میں انگریزوں نے نصاب تعلیم وضع کیا،اوررات دن انگریزی زبان کوفروغ دینے میں لگ گئے،درپردہ انگریزی میں اپنے نظریات،اسلام مخالف عقائد،اسلام پراعتراض،سائنس،سیکس اوربے حیاء وفحاشی کورائج کرنے کااوراسکے ذریعے لوگوں کوگمراہی کی راہ پرگھسیٹنے میں لگ گئے،حق پرست علماء کرام کوشہیدکرنے لگے،ظلم کاکوئی طریقہ ایسانہ تھا،جسے اختیارنہ کیاگیاہو،ایسے حالات میں چند باغیرت، حق پرست علماء کرام صدائے حق بلند کیے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے،اوردین اسلام کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ عالم اسلام کے مسلم حکمراں اپنی عیاشی ومستی میں چوربے حس ہوکرمظلوم مسلمانوں کاصرف تماشہ ہی نہیں دیکھ رہے ہیں، بلکہ ظالموں کے شانہ بشانہ کھڑے نظرآرہے ہیں،خداکی نعمتوں کابیجااستعمال کرکے باطل کے تعاون میں لگے ہوئے ہیں،حق پرست علماء کرام کوقیدوبندکی صعوبتیں دینے میں ذرہ برابر بھی اْنھیں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔
مسلمانوں پرمظالم کومزید تقویت میڈیا نے دے رکھاہے،جوکہ مکمل جھوٹ،اسلام ومسلمانوں کے خلاف پروپیگینڈاپھیلانے،اورتاریخ اسلام کومسخ کرکے پیش کر نے میں مصروف ہے،جھوٹ کوسچ،سچ کوجھوٹ بناکرپیش کر نے میں ماہر ہے،لوگوں کوذہنی ارتدادسے لیکرکفرکی گھٹاٹوپ تاریکی میں ڈھکیلنے میں لگاہواہے۔
مزیدتکلیف اسوقت بڑھ جاتی ہے،جبکہ ہمارے اپنے ہی طبقے کے بعض جمھوریت کالبادہ اوڑھے لوگ عقائدومذہبی شعائر کی پرواہ کیے بغیر،محض اظہار یکجہتی کے لیے حدوداسلام کے دائرے سے باہرجانے،یااسلام کے باڈرپرٹامک ٹوئیاں مارنے سے بالکل بھی گریز نہیں کرتے،جبکہ شریعت میں اس کی قطعًاکوئی گنجائش نہیں ہے۔
غرض اسلام اورمسلمانوں پرچوطرفہ یلغارہے، یہودونصاری اپنی شاطرانہ عیاریوں سے،اوردیگرمعاندین اسلام اپنے منظم منصوبہ بندی سے دنیاکو بے جاچیزوں میں مشغول کرکے دنیاکے تمام خطوں پر قبضہ جمارہے ہیں،اوردنیاکومیڈیاجیسے مہلک ہتھیار سے اپنے قبضے میں کر رکھا ہے،ایمانیات اورعقائد ونظریات پر طرح طرح سے حملے کیے جارہے ہیں،اور اِدھر ہمارے ایمان واعمال میں اتنی کمزوری آچکی ہے کہ معمولی سی کوڑی میں ہم ایمان کا سودا کر بیٹھتے ہیں،خانہ جنگی اتنی زیادہ شدّت پکڑچکی ہے کہ معمولی سی باتوں پر قتل وقتال کی نوبت آجاتی ہے،ایسے افسوسناک صورت حال میں ہمارے لیے ایمان پر قائم رہنا اوراسے دنیاسے بچا کر لے جانابڑامشکل نظر آرہا ہے،یہودونصاری اپنے مشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے رات دن محنت کر رہے ہیں،نئی نئی چیزیں ایجاد کر کے لوگوں کو مرعوب کر رہے ہیں، اور اب بھی ہم غفلت و لاپرواہی اورسستی کے سائے میں جی رہے ہیں،جس کی وجہ سے ہم ناکامی اور اسلام دشمن طاقتیں کامیابی کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہے،اور اس کے لیے استعمال ہونے والا سب سے مہلک ترین ہتھیار میڈیاہے،جو عوام کوعلماء وممتازمعزز ترین افراد اور بزرگان دین سے بد ظن کرکے انکے تئیں نفرت بھررہاہے،ایسے گھٹاٹوپ تاریک دورمیں روشنی پھیلانے اور اُمید کی کرن جگانے کی سخت ضرورت ہے،اور اس مسموم فضاکاتریاق تلاش کرنا بھی ازحد ضروری ہے،ان تمام مشکلات کے حل کے لیے قرآنی تعلیمات اوراسوۂ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا،خانہ جنگی ختم کرکے باطل طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد ہوکرکھڑے ہوناہوگا؛نیز علماء کے تئیں عوام کے اعتماد کو بحال کرکے انکی عظمت رفتہ کو واپس لانا ہوگا۔
اسباب:
مسلمانوں نے متحدہ طورپرکوئی ایسی مضبوط تنظیم،یاجماعت نہیں بنائی جوہرطرح کے مسائل سے نمٹ سکے۔دین اسلام سے علمی وعملی دوری۔آپ کی زندگی کونمونہ بناکراسکے مطابق نہ چلنا۔ماضی سے رشتہ جوڑکر،تاریخی کارناموں کوسامنے رکھتے ہوئے منظم منصوبہ اورحکمت عملی س آگے نہ بڑھنا۔مسلمانوں کے درمیان ہی ہرزمانے میں کچھ زرخریدغلام رہے ہیں،جنھوں نے باطل کاآلہ کار بن کرانکے منصوبے کی تکمیل میں تعاون کیا۔مسلمان خودآپس میں دست وگریباں ہیں،آپسی انتشاروخلفشارنیانھیں کمزورکردیاہے۔مال ودولت کابیجااستعمال،اسکے حصول کے لیے مؤثرحکمت عملی سے کام نہ لینا۔تیرھویں صدی کے بعد سے سائنس اورٹیکنالوجی سے دوری،سیاست سے پلّہ جھاڑلینا۔کچھ ہماری سادگی، اورضرورت سے زیادہ اعتماد نے بھی ہمارابیڑاغرق کیاہے۔
موجودہ حالات:
اسلام پوری دنیامیں تیزی سے پھیل رہاہے،اسلام کی حقانیت ہرکس وناکس کواپنی طرف کھینچ رہی ہے۔مسلمانوں کی ہمت وجرأت بڑھ رہی ہے،ان کاایمان مضبوط ہورہاہے۔دوسری طرف ارتدادکی ایسی سخت آندھی چل رہی ہے،جس نے عقائد کی بنیادوں کوہلارکھاہے۔
مسلمان معاشی،دینی ہراعتبارسے کمزوری کی طرف بڑھ رہے ہیں،ہرطرف مظلوم ہی مظلوم دِکھ رہے ہیں۔کمزورمسلمانوں کے عقائدکوشدیدخطرہ لاحق ہے۔مسلمان نفسیاتی اعتبارسے ذہنی کشمکش کے شکارہیں،اب توصحیح اورغلط کاپتہ چلنابھی دشوارہوچکاہے۔ایسے سنگین ترین حالات میں بھی مسلمان قلبی اعتبارسے چین وسکون اورراحت میں ہیں،جبکہ دیگرمحرّف مذاہب کے ماننے والے اس عظیم دولت سے محروم ہیں۔
کسی نے کیاہی خوب کہاہے؛
ہزار سخت مسائل نے ہم کو گھیرا ہے
ہمارے چاروں طرف دشمنوں کا ڈیرا ہے
یہ وقت ہے کہ خود اپنی عظمتوں کے لیے
سیاہ رات کو کہتے رہو سویرا ہے
لائحہئ عمل:
ہمیں چاہیے کہ ہم رجوع الی اللہ ہوکر،توبہ واستغفارکریں،اوراللہ سے مددمانگیں۔ہماری یہ خامی رہی ہے کہ ہم ہرایک پربلا سوچے بھروسہ کرلیتے ہیں ستر سالوں سے ہماری یہی غلطی چلی آرہی ہے۔اب تک کے تمام قتل عام اورفسادات نے ہمیں یہ سبق سکھادیاکہ ہم کسی کے بھروسے پرنہیں جی سکتے ہیں؛ بلکہ خوداعتمادی اورقوت وطاقت کیساتھ ہی چین سے رہ سکیں گے۔دہلی فسادات سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ عام طورپرحملہ ایسے علاقوں پرہوتاہے جہاں اقلیت میں مسلم ہوں یادوسری جگہ سے آکربسے لوگ ہوں جومالی طورپرمضبوط نہ ہوں غرباء اورپسماندہ طبقے پرزیادہ حملے ہوتے ہیں؛اس لیے ہمیں اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اب ہرایک کواپنے اپنے طورپرہروقت تیاررہناہوگا،کسی سے بھی امداد وتعاون کی امید رکھنابے سودہے؛
اب شعائراسلام پرحملہ ہے اورلڑائی صرف اورصرف مسلمانوں اوراسلام کی ہوچکی ہے، بعض ہمارے غیرمسلم بھائی ساتھ ہیں جومنصف ذہنیت کے ہیں، انکااحترام ضروری ہے؛لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے یہ اسلام اورمسلمانوں کی لڑائی ہے البتہ جمھوریت ایک مْہرہ ہے؛جسے استعمال کیاجارہاہے؛تاکہ سب لوگ اسمیں شامل ہوجائیں؛ کیونکہ جمھوریت توبہت پہلے سے ختم ہوچکی،ملک برباد ہوچکا،اسکی عالمی بدنامی ہوچکی، اب دنیابھر میں بے عزتی کے لیے صرف اتناکہناکافی ہے کہ میں انڈیاسے ہوں؛ ملک صدیوں پیچھے چلاگیا، جسکی واپسی ناممکن ہوتی جارہی ہے،ماضی کی روشن تاریخ پرحال کی تاریک سیاہی چھاگئی؛ ہاں یہ بات اورہے کہ مسلمانوں کے ساتھ مظلوم ملک کے تمام مذاہب کے لوگ بھی ہیں؛لیکن زیادہ نقصان مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے نچلی ذاتوں کا ہے،ملک کا نقصان ہے،جس کوہمارے آباء واجداد نے اپنے خون سے سینچا اور انگریزوں کے ناپاک چنگل سے چھڑایاتھا؛اس لیے ہمیں انکی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیناہے؛ گھٹاٹوپ تاریک بادل نے اب ملک کوچاروں طرف سے گھیر لیاہے جوکبھی بھی برس سکتاہے۔اب تک کے جتنے فسادات وقوع پذیرہوئے ہیں سب کے سب قتل عام کی سازش تھی؛ یہ بات اورہے کہ کچھ میں کامیابی ہوئی اورکچھ میں ناکامی لیکرفسادیوں کومنہ کی کھانی پڑی۔
اسلیے ملک کی بقاء وسلامتی کے لیے شاہین باغ کے طرزپرہرعلاقے،خطے،اورگوشے میں منظم طریقے پردھرناکاآغازہو،بلاتفریق مذہب وملت ہرایک کوساتھ لیکرآگے بڑھیں،بھوک ہڑتال،انسانی زنجیر،اجتماعی ریلی،اورپْرامن احتجاجی جلسے کیے جائیں،ایم ایل اے،ایم پی پر،سیاسی پارٹیوں پردباؤبنایاجائے کہ وہ جمھوریت مخالف قوانین کے خلاف آوازاٹھائیں،اسکول وکالج کے بچوں کے شعورکوبیدارکیاجائے؛سیکولرزم کے تحفظ کے لیے اس تحریک کوجاری رکھناہوگا۔
ابھی عارضی طورپرتمام احتیاطی تدبیراختیارکرنے کے باوجودبھی مظاہرین کوزبردستی مکمل سو۰۰۱دن کے بعد کوروناوائرس کی وجہ سے ہٹادیاگیا؛لیکن یہ بات یاد رہے کہ: ”شاہین باغ ایک تحریک کانام ہے“،اوریہ تحریک ان شاء اللہ اب بھی جاری رہے گی،لوک ڈاؤن کے اختتام پذیرہونے تک ہم گھرگھرشاہین باغ بنائیں گے،اوراسکے بعد پھرمیدان عمل میں مزید ہمت وقوت اورجرأت بے باکی کے ساتھ آئیں گے،اوران شاء اللہ ان کالے قوانین کی واپسی تک مستقل جہدمسلسل میں لگے رہیں گے۔ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی اداکرناہوگا۔
دراصل اس احتجاج کوچارمرحلے تک لیجاناہوگا؛۱[این پی آر سے قبل کادورانیہ ۲[ خاتمہ تک. ۳[2024 تک. ۴[ برہمنیت،ذات پات،اورسنگھ واد کے خاتمے تک۔
اورحکومت پانچ انگلیوں سے کھیل کرملک کے باشندوں کوباہرنکالے گی۔ ۱[ معلومات اکٹھاکرنا ۲[ مشکوک شہریت کونشانہ بنانا ۳[ شہریت سے نکالنا ۴[ مشکوک کواثبات کاموقع فراہم کرنا ۵[ حراستی کیمپ۔
احتجاج کرنے والوں کاساتھ دینا،اورخواتین کوسنگھی دہشت گردوں،اورمظاہرین کوظالم پولس کی تشددوبربریت سے بچاناہم سب کی ذمہ داری ہے؛نیز ایسے ظالم پولس والوں کاویڈیوبناکرٹویٹر،سوشل میڈیا،اورتمام نیوزایجنسی تک پہنچانابھی ہماری ذمہ داری ہے،اورایف آئی آر بھی درج کرائیں؛اگرکوئی آپ کوضرب شدیدپہنچانے،یاجان سے مارنے کی درپے ہو،توقانون آپ کو اپنی حفاظت کے لیے حملہ آورکوجان تک سے ماردینے کی اجازت دیتاہے؛ اسلیے جب سنگھی غنڈے اس طرح کامعاملہ کریں توآپ بھی اس قانون کااستعمال کرکے ان کوکیفرکردارتک پہنچادیں۔غرض ہم سے جوکچھ بھی مدد ہوسکے عملی میدان میں آکرمددکریں،ان شاء اللہ ہماری ماؤوں بہنوں کی قربانیاں رنگ لائے گی۔
مولانا محمد برہان الدین قاسمی نے مظاہرے کوتین مراحل میں تقسیم کرکے بہترین اندازمیں پیش کیا ہے:"(1)حکومت کی طرف سے قصدًا مظاہرین کے مطالبات اور تمام احتجاجوں کو نظر انداز کرنا (2) اورحکومت کے کارندے بشمول موجوددہ میڈیاکے ذریعہ مظاہرین کو برُا بھلا کہنا، انہیں بدنام کرنیکی کوشش کرنا، اورمظاہروں کو ہندومسلم کارنگ دینے کی کوشش کرنا۔ مگر اب یہ دونوں مرحلے بحسن خوبی گزرگئے۔(3)اب تیسرامرحلہ، جو بہت ہی مشکل اور انتہائی صبر آزما ہوگا، شروع ہونے والاہے۔اور اس موقع پر آپ کا آپکے ملک سے حقیقی محبت، اور جمہوری اقدار کے تئیں آپکے حقیقی جذبے کاامتحان ہوگا۔ اس کا ثبوت دینے کے لیے ہمیں اور آپکو گلی کونچوں میں، شاہراہوں پر کئی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔اس آزمائشی دورکا سامنااپنے الفاظ و اعمال اور جسم و جذبے سب سے کرنا ہوگا۔"
مفتی غلام رسول قاسمی نے اپنے مضمون میں وضاحت کی: "اگر کسی کوکہیں سے بلاجرم کے گرفتارکرلیاجائے توان طریقوں کواپنائے،جلد رہائی ہوجائے گی،یاگرفتاری سے چھٹکارامل جائیگا۔۱[:جو بھی پولیس والا یا داروغہ گرفتار کر کے لے جارہا ہے اس کا نام اور کس پولیس اسٹیشن لیکر جا رہا ہے اس چوکی کا نام، دو گواہ مقرر کر کے ان دونوں کا نام، گرفتاری کا وقت اور اس دن کی تاریخ کسی ڈائری یا پیپر پر نوٹ کر لیں۔۲[: ایک خط لکھیں جس میں تین چیزوں کا ذکر کریں۔ ۱[مثلاً محمد سمیر کو بوقت صبح دس بجے بتاریخ تیئس فروری کو فلاں فلاں لوگوں (گواہ) کے سامنے، فلاں اسٹیش پولیس گرفتار کرکے لے گئی ہے. ۲[ ہمیں پورا شک ہے کہ پولیس غلط کیس میں ان کو پھنسا نہ دے. ۳[ آپ امیجیٹلی(فوری طور پر) ایکشن لیں۔
اب اس خط کو ان پانچ جگہ ضرور ارسال کر دیں:۱[ نیشنل ہیومن یادرکھیے! یہ تین اصول ہمیشہ قوموں کے عروج و ارتقا کا راستہ ثابت ہوتے ہیں (1)علم نافع: جس سے دارین کی ترقی نظر آتی ہے(2)اخلاق حسنہ: جس سے ان راہوں پر چلنے کی قوت ملے(3)عمل صالح: جس سے زندگی کی برتری اور عزت ممکن ہو۔(خطبات حکیم الاسلام)
لہٰذا علماء کرام کو چاہیے کہ طلبہ کو بیدار کریں؛اورایسے میدان عمل کا انتخاب کرنا چاہیے جو امت کی ضرورت اور وقت کاتقاضہ ہو؛جیساکہ بزرگان دین نے جیسا موقعہ آیا،جس طرح کی قربانی کی ضرورت درپیش ہوئی ہمہ وقت ہر قربانی کے لیے بلاکسی پس وپیش کے تیار تھیں، تب جاکر بڑے سے بڑے معرکے اور خطرناک ترین فتنوں کو مختصر سے وقفے میں کچل کر رکھ دیا، اس زمانے میں ضرورت ہے امت کو متحد کرنے کی؛ نیز اپنے جوانوں کو پھیلتے ہوئے ارتداد سے بچانے کی،اسکول وکالج کے طلبہ کے ڈگمگاتے ایمان کو محفوظ رکھنے کی؛چونکہ امت کے یہی نوجوان اس قوم کے مستقبل ہیں، اس لیے انکے شعو رکوبیدار کیا جائے، انھیں اندھی عقیدت سے نکالنا ہوگا،اوراْنہیں اس بات کی تاکید کرنی ہوگی کہ جب کبھی جہاں کہیں آپ کے مستقبل سے کوئی بھی کھلواڑ کرے،تو آپ خاموش مت بیٹھنا،بلکہ آوازیں بلند کرنا،ورنہ کل کامیابی سے کوسوں دور رہ جاؤگے،طلبہ کودوران زمانہ طالب علمی تاریخی کارنامے محمد بن قاسم سلطان محمد الفاتح صلاح الدین ایوبی خلافت عثمانیہ اس طرح کی کتابیں پڑھتے رہنا ہوگا،تاکہ عزائم بلند ہوں۔
یاد رکھیے! اسلام اورمسلمان پرکوئی خطرہ نہیں ہے،اتنے سارے دشمنوں کے باوجود الحمدللہ اسلام پھول رہاہے،اوران شاء اللہ پھولتارہے گا؛اسلیے ایسے عارضی حالات میں خوف وہراس میں مبتلاہونے اورمایوس وناامید ہونیکی قطعًاضرورت نہیں؛کیونکہ مایوسی کسی چیز کاعلاج نہیں؛بلکہ اْمید ویقین تمام مشکلات کاحل ہے،اورڈرنا،گھبراناکسی مسلمان کوزیبانہیں دیتا؛مصائب وآزمائش کیسامنے استقامت وشجاعت دکھانایہ مؤمنانہ کردارہے؛کیونکہ مسلمانوں کاایمان ہے کہ موت وحیات،اچھی بُری تقدیر کامالک اللہ ہے،اورمؤمن اسی کے فیصلے پرراضی رہتاہے۔
مسلمانوں کے پاس ابھی بہت ہی اچھا موقع ہے، موجودہ صورتحال میں فائدہ اٹھا کر عظمت رفتہ کوواپس لانے میں کامیابی ہوسکتی ہے؛چونکہ تعلیم اورصحت دونوں کو موجودہ سرکار نے برباد کردیا،عوام نے اسیکھلواڑ بنالیا،مالداروں نے اسے کمائی کاذریعہ سمجھ لیا،جسکی وجہ سے رعایاکوکافی نقصان اٹھاناپڑرہاہے۔
لہٰذا اب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کیاس پہلوسے ہمیں سبق لیناہوگا؛فتح مکہ سے قبل جب آپ کی موجودگی میں اس طرح کے حالات درپیش ہوئے تو،حضوراقدس صلی اللہ علیہ سلم نے ان تین کاموں کواپنااوڑھنابچھونابنالیاتھا، ہمیں بھی سیرت کے اس پہلو سے سبق لے کراسی کے مطابق چلنا چاہیے،ان شاء اللہ کامیابی ہماراقدم چومے گی۔۱[باہمی اتحاد ۲[دین اسلام کااچھی طرح تعارف ۳[ خدمت خلق۔
چنانچہ شیخ الہند حضر ت مولانا محمودالحسن دیوبندی کو جب مالٹاکے جیل میں قید کیا گیا تھاتو آپ نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں غور کرنا شروع کیا،اور اس نتیجے پرپہنچے کہ موجودہ مسلمانوں کے زوال کے اسباب دو ہیں؛۱[قرآن سے دوری،۲[ مسلمانوں کے آپسی تنازعات۔
موجودہ ملک کے باشندوں نے اس کاثبوت پیش کردیاہے کہ قوم میں جذبہ،جرأت،اورعمل کی صلاحیت اب بھی ہے،حالانکہ دشمن نے یہ سمجھ لیاتھاقوم مرُدہ ہوچکی ہے؛ اب سب سے اہم خدمت قوم کی خوداعتمادی،اوراحساس آزادی کوباقی رکھ کر،اسے پروان چڑھاناہے۔
قارئین! ہمیشہ باطل کے ضمیرمیں اپنی شکست کااحساس موجودہوتاہے،یہ اوربات ہیکہ وقتی طورپرباطل اْبھرکرسامنے آتاہے،حق دبتاہے،لیکن پھرحق غالب آتاہے،اورباطل نیست ونابودہوجاتاہے؛بس ضرورت ہے اپنے اپنے کام میں لگیں،اورباہم تعاون سے آگے بڑھیں،پوری امت کی فکرکریں،عملی اقدام میں بھی پیچھے نہ ہٹیں؛فی الحال پھیلی ہوئی وباء سے بچنے کے لیے احتیاطی تمام تدابیر بجالائیں؛کسی بھی بیماری کا پھیلنا اللہ کاعذاب ہے، جوغافل بندوں کو راہ حق پرلانے کے لیے گناہوں کی کثرت سے پھیلنے کے بعد آتی ہے؛اس لیے اس کامذاق اڑانے کے بجائے،اس سے پناہ مانگنی چاہیے،اورتوبہ واستغفار کرکے اسکے خاتمہ کی دعاء بھی کرتے رہنا چاہیے۔ لیکن شاہین باغ کی تحریک کو زندہ رکھیں،یہ تحریک ختم ہونے نہ پائے؛اگر موجودہ حکومت اس بیماری کے درپردہ اپنے ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے اقدام کرے،توہم باہمی اتحاد کے ساتھ اسکوپورے طورپر کچلنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں،بہت حساس رہیں۔ ایسے پریشان کْن حالات میں اللہ کی یاد توبہ واستغفارسے ایک لمحے کے لیے بھی غفلت نہ برتیں؛ نیزموجودہ لوک ڈاؤن جوکہ بلاکسی انتظام کے کیاگیاہے، اس میں کچھ افراط وتفریط سے کام لیا جارہاہے؛ کہیں رعایاافراط وتفریط سے کام لے رہی ہے، احتیاطی تدابیر نہیں اپنا رہی ہے؛ اورکہیں پولیس والے بلاوجہ، سخت مجبوری میں بھی باہر نکلنے والوں پر ظلم وتشدد سے نہیں کتراتے ہیں؛دونوں طرف کے لوگوں کو سوچنے کی ضرورت ہے؛وہ پولیس جو حفاظت پرمأمور ہیں،جب خودظلم کرے گی تورعایاکاکیاہوگا؟حکومت کو بھی ایسے غنڈے اورظالم پولیس والوں کی سرزنش کرکے انکوبرطرف کرناچاہیے؛ ورنہ مستقبل میں بغاوت وظلم مزیدبڑھتے جائیں گے،اورنتیجہ قتل وقتال ہوگا۔
غرباء فقراء اورمزدور طبقہ بھوک مری کاشکار ہیں،اپنی اپنی استطاعت کے مطابق انکومدد فراہم کرنے کی پوری کوشش کریں؛حکومت سے بھی مطالبہ کیاجائے کہ وہ انکے لیے کچھ رقم متعین کرکے ان تک امداد پہنچائے،جوکہ ان پورے ایام میں کفایت کرسکے،اوران مسافروں کومنزل مقصود تک پہنچانے کی بھی فکرکریں،جوکہ درمیان راہ میں پھنس گئے ہیں؛ ورنہ کوروناسے زیادہ لوگ بھوک مری، اورسواری کاانتظام نہ ہونے کی وجہ سے دونوں طرح کے لوگ موت کالقمہ بن جائیں گے۔
ان شاء اللہ یہ ایام بھی عافیت کیساتھ گزر جائیں گے اورہم پھرسے گھر سے باہرکی دنیاکودیکھ پائیں گے،اوراپنے اپنے فریضے کی ادائیگی میں لگ جائیں گے۔
اخیرمیں یہ بات ہر ایک اپنے ذہن میں بٹھالے کہ: ہمارے ملک کے آئین کونظر انداز کرکے موجودہ حکومت کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتی؛کیونکہ ظلم کی حکومت زیادہ دیرتک نہیں چلتی ہے؛ اوراسلام مخالف طاقتیں کان کھول کرسن لیں! اسلام اورمسلمانوں کوکسی بھی طاقت کے زورپرمٹایانہیں جاسکتا۔
جگرمرادآبادی نے کیاہی خوب کہاہے:
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
تمت بالخیر
جواب دیں