مگر نام نہاد ہندوؤں کے ٹھیکیداروں نے اسے ایک سازش قرار دیکر اسے لو جہاد کا نعرہ دے دیا اس طرح انہوں نے لفظ جہاد کو بھی بدنام کر دیا جبکہ جہاد کا ایسے واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر افسوس کہ ایک دو واقعے کو اتنا اچھال کر اسے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا جس کی آگ میں اتر پردیش جل جانے کو ہے ۔مگر اسکے برعکس سینکڑوں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ مسلم لڑکی نے ہندو لڑکے سے شادی کی اور ہندو بن کر رہ رہی ہے فلمی دنیا میں تو ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جو سنیل دت سے لیکر ریتک روشن تک چلی آئی ہیں سنیل دت نے نرگس سے شادی کی ،کشن چندر نے سلمی صدیقی سے ،ریتک روشن نے سوجین خان سے ،اتول اگنیہوتری نے الویرا خان سے،روہت راجپال نیلیلہ خان سے ،نانا چوڈاساما نے ،منیرا جسدن والاسے ،اجے ارورانے سیمون خان سے ،آدیتیہ پنچولی نے زرینہ وہاب سے،سنیل شٹی نے سنا قادری سے ،اجیت اگارکر نے فاطمہ دھندلی سے سچن پائیلٹ نے سارا عبد اللہ سے،ارون آہوجہ (گووندہ کے والد)نے نجمہ سے ،شیریس کندر نے فرح خان سے،ارون گاؤلی نے عائشہ سے ،منوج واجپئی نے شبانہ رضا سے ،پنکج کپور نے نیلیما عظیم سے ،گنڈو دینیش راؤ نے تبسّم سے ،ششی ریکھی نے وحیدہ رحمان سے ،راج ببر نے نادرہ ظہیر سے ،کرنل سودھی نے نفیسہ علی سے ،میور وادھوانی نے ممتاز سے ،رندھاوا نے ملیکا خان سے ،وشنو بھاگوت نے نیلوفر سے ،کشور کمار نے مدھوبالا(ممتاز)سے ،وی ایس نائیپال نے نادرہ سے ،کبیر سومن نے سبینہ یاسمین سے ،بی آر اشارہ نے ریحانہ سلطان سے ،سمیر نیرورکر نے تسنیم شیخ سے ،انوراگ مودی نے شمیم سے ،کملیشور ناتھ سہگل نے زہرہ سہگل سے ،وکرم مہتہ نے تسنیم سے ،بھارت چند نارا نے زہرا ارورا سے ،چودھری ٹینو آنند نے شہناز سے ،ایم ایس ستھو نے شمع زیدی سے ،روی شنکر نے روشن آراء سے ،پردیپ چیرین نے فوزیہ فاطمہ سے ،پنکج ادھاس نے فریدہ سے ،کے این سہائے نے زاہدہ حسین سے ،بریج سدانا نے سعیدہ خانم سے ،نرمل پانڈے نے کوثر منیر سے ،وجے گوئل نے تبسّم سے ،امیت موئترا نے ناہید کریم بھائی سے ،روپ کے شوری نے خورشید جہاں سے ، ہنس لال مہتہ نے سفینہ حسین سے ،کمد مشرا نے عائشہ رضا سے ،منوج پربھاکر نے فرحین سے ،گنپت لال بھٹی نے شمشاد بیگم سے ،ٹی کے سپرو نے تاجور سلطانہ سے ،رمیش باگوے نے زینب سے ،منیش تیواری نے نازنین سے ،سیتا رام یچوری نے سیما چشتی سے ،سمیت سہگل نے شاہین سے شادی کی ہے اسے یہ لوگ راشٹریہ ایکاتمتا(قومی یکجہتی) کا نام دیتے ہیں اور اگر کسی مسلمان نے کسی ہندو لڑکی سے شادی کر لیا تو اسے لو جہاد کہا جاتا ہے یہ کون سی قومی یکجہتی ہے سمجھ میں نہیں آتا ۔اسی طرح بی جے پی کا نام نہاد مسلم چہرہ شاہنواز حسین،اور مختار عباس نقوی کی بیویاں بھی ہندو ہیں اس پر بی جے پی نے واویلا کیوں نہیں مچایا؟اس ملک کی یہ بھی ایک تہذیب رہی ہے کہ ہندو لڑکیاں مسلمان بنی ہیں مسلم لڑکیاں ہندو بنی ہیں سکھ لڑکی مسلم بنی ہے یہ سب عشق اور پسند کا معاملہ ہے اور عشق پر کسی کا زور نہیں ہے اور نہ ہی عشق کو مذہب کی سرحدوں میں قید کیا جا سکتا ہے بی جے پی اور آر ایس ایس کو بھی یہ معلوم ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس ملک میں صدیوں سے یہ چلا آرہا ہے راجہ مہاراجاؤں نے بھی ایسا کیا ہے اکبر اعظم کی ملکہ کون تھی۔یہ سب جانتے ہیں ۔ہمارے ملک کی یہ روایات رہی ہے کہ سبھی مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں برابر شریک ہوتے رہے ہیں مگر سیاسی مقصد کی خاطر آج بی جے پی اسے ایک زہریلا عنوان بنا کر پیش کر کے پورے ملک میں ہنگامہ کھڑا کر دینے کی مبینہ سازش کر رہی ہے اس سازش کو ناکام بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے مٹھی بھر لوگ اس ملک کی قدیم روایات اور اسکی تہذیبی شناخت کو روند نہیں سکتے۔ہندو لڑکی کا مسلمان بن جانا یا مسلم لڑکی کا ہندو بن جانا یہ کسی کے روکنے اور منع کرنے سے رکنے والا نہیں ہے ماضی میں راجستھان کے ایک وزیر نے ایک مسلمان لڑکی سے شادی کرکے خود مسلمان بن گیا تھا ایسے بے شمار واقعات ہیں اس سلسلے کو نہ کوئی روک سکا ہے اور نہ ہی روک سکے گا بی جے پی ہو یا آر ایس ایس یا پورا سنگھ پریوار کوئی کچھ نہیں کر سکتا البتہ اسے ایک عنوان بنا کر اس ملک کی پر امن فضا کو خراب ضرور کیا جا سکتا ہے اور اپنے سیاسی مقصد کے لئے یہ لوگ ایسی سازش کر بھی رہے ہیں مگر آج بھی اس ملک کی اکثریت سیکولر ہے یکجہتی پر یقین رکھتی ہے وہ مٹھی بھر لوگ منہ کی کھا جائینگے۔یہ صرف سیاسی روٹیاں سینکنے کے لئے نفرت کی آگ دہکائی جا رہی ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ اس آگ میں انکے منصوبے خاک ہو جائنگے۔
مہاراشٹر میں قربانی کے لئے درپیش مسائل کا قانونی حل کیا ہو۔؟
فاروق انصاری
مہاراشٹر میں قربانی کے لئے ہر سال مسلمان انتہائی طور پر کشمکش کا شکار ہوتا ہے ایک طرف پولس کی پریشانیوں میں الجھتا ہے تو دوسری طرف نام نہاد ہندو تنظیمیں گؤ ہتیہ کے نام پر قربانی کے جانوروں کو ضبط کرواتے ہیں قربانی کے لئے ابھی ایک مہینہ سے زائد باقی ہیں مگر ابھی سے پولس الرٹ دکھائی دے رہی ہے اور بجرنگِ وشو ہندو پریشد ،آر ایس ایس اور اہنسا سنگھ جیسی تنظیمیں سرگرم ہو رہی ہیں اہنسا سنگھ تو پورے مہاراشٹر میں گذشتہ تین مہینوں سے گؤ رکھشا کے نام پر گاؤں گاؤں گھوم رہے ہیں اور ہندوؤں کو بیدار کر رہے ہیں یہاں ایک بات بتانا ضروری ہے کہ جیسا کہ لوک سبھا الیکشن سے قبل پورے ملک میں گاؤں گاؤں اسی کی آڑ میں بی جے پی کی انتخابی مہم چلا رہے تھے جس کا خاطر خواہ نتیجہ آپ نے دیکھ لیا ٹھیک اسی طرح اب یہ تنظیمیں مہاراشٹر میں سرگرم ہیں اور قربانی کے عنوان پر وہ مبینہ طور پر ہندوؤں کو ورغلا رہے ہیں مگر مہاراشٹر میں اسکا خاطر خواہ اثر اسلئے نہیں پڑے گا کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان تنظیموں کا اصل مقصد کیا ہے خیر ہم ان باتوں میں الجھ کر اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہتے بلکہ ہم قربانی کے لئے درپیش مسائل کے قانونی پہلو پر کچھ باتیں رکھنا چاہتے ہیں تاکہ مسلمان ہیجان انگیزی کے عالم میں قربانی کرنے کے بجائے اطمینان و سکون سے قربانی کرے۔اس ملک کے آئین نے ملک میں آباد سبھی مذاہب کو انکے مذہبی رسوم و رواج کی ادائیگی کی مکمل آزادی دی ہے اس قانون کی روشنی میں ہم عدالت سے قربانی کے لئے تین دنوں تک جانوروں کے ذبیحہ کی اجازت حاصل کر سکتے ہیں مگر ملک کے آئین کو جواز بنا کر آج تک مسلم تنظیموں نے اپنا آئینی حق نہیں مانگا ہے وہ اس مسئلے کو انتہائی طور پرجذباتی بنا کر اسی طرز پر حل کرنا چاہتا ہے جبکہ یہ ناممکن ہے اس حساس مسئلے کو حل کرنے کے لئے جذبات کو الگ رکھ کر مصلحت پسندی کے ساتھ قانون کے سہارے حل کرنا چاہیئے مگر اسکے لئے بھی مقامی افسران کو اعتماد میں لینا ضروری ہے ورنہ دیکھا یہ گیا ہے کہ عدالت کے حکم کے باوجود مقامی اعلی افسران نے عدالت کے حکم کی بجا آوری میں لاء اینڈ آڈر کا مسئلہ بتا کر اس پر عمل نہیں کیا ہے ملک میں ایسی درجنوں مثالیں ہیں مثلاً اتر پردیش کے سنت کبیر نگر ضلع کے گاؤں پھیونسا (نزد پسائی) میں لوگوں نے بکرے کی قربانی کرنے کے لئے عدالت سے اجازت حاصل کی مگرمقامی ڈی۔ایم نے مقامی پولس کو اسکی ذمہ داری دے دی کہ وہ حالات کا جائزہ لیں اور دونوں فرقے کے لوگوں کو اعتماد میں لیکر کوئی قدم اُٹھائیں۔مگر چونکہ اس وقت کا تھانے دار بھی اونچی ذات کا تھا اسلئے اس نے لاء اینڈ آڈر کا مسئلہ بتا کر اسے التوا میں ڈال دیا نیز بتایا جاتا ہے کہ ڈی ایم بھی اونچی ذات کا تھااور وہ خود نہیں چاہتا تھا کہ قربانی ہو اسلئے مسلمانوں کو قربانی کرنے سے منع کر دیا گیا ۔حالانکہ اس گاؤں کے مسلمان قربانی میں بکرا ذبحہ کرتے ہیں مگر تعصب اس قدر ہے کہ گاؤں کے مسلمانوں کو قربانی میں بکرا بھی ذبحہ نہیں کرنے دیتے جبکہ وہ خود سال بھر بکرے کا گوشت کھاتے ہیں مگر قربانی میں انہیں یہ ضد ہو جاتی ہے اور وہ محاذ کھول بیٹھتے ہیں اس معاملے کو لیکر گاؤں کے لوگ سپریم کورٹ تک گئے مگر کسی بھی عدالت کے حکم پر عمل آوری تو مقامی پولس اور ڈی ایم کو ہی کرنا ہوتا ہے اور اگر وہ نہ چاہیں تو سپریم کورٹ کا حکم بھی التوء میں ڈال دیا جاتا ہے اسلئے اس معاملے میں ہرگز جذباتی نہیں ہونا چاہیئے بلکہ قانون کا ہی سہارا لینا چاہیئے اور اسکے ساتھ ساتھ مقامی پولس کو بھی ہمنوا بنا کر رکھنا چاہیئے۔ اسلئے کہ ا نکے ہی ذریعہ ہم قانونی اختیارات حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ بنیا دی حقوق کے حصول میں قانون مدد گار رہا ہے مگر قانون کے اطلاق میں ہمیشہ مقامی پولس عملہ کی تساہلی یااسکی عمل آوری میں مبینہ ٹال مٹول دیکھا گیا ہے ہم نے مذکورہ اتر پردیش کی ایک مثال دی ہے اسی طرح کی ایک مثال اور ہے جو سنت کبیر نگر کی ہی ہے مہنداول تحصیل کے گاؤں مسہرہ میں سال بھر شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بکرے ذبح کئے جاتے ہیں مگر عید الاضحی کے تین دن گاؤں کے ٹھاکر لوگوں کی طرف سے منائی ہے کہ وہ قربانی نہیں کر سکتے۔حالانکہ اسکے لئے چار سال پہلے بہت ہنگامہ بھی ہوا تھا اس وقت کے ایم ایل اے محمد تابش خان نے ڈی ایم سے منظوری لیکر مقامی پولس فورس کی مدد سے قر بانی کروائی مگر دوسرے روز گاؤں کے جن مسلما ن کے کھیت تھے ان کی کھڑی فصل کو آگ لگا دی گئی کئی گھروں کو نقصان پہنچایا گیا اسکے بعد مسلمان ایک دم خاموش ہو گئے دوسرے سال جب قربانی کا موقع آیا تو ڈی ایم کا دورہ ہوا ڈی ایم نے مقامی پولس کو ہدایت دی کہ وہ اپنی نگرانی میں بکروں کی قربانی ہونے دیں مگر ڈی ایم کے جاتے ہی پولس نے گاؤں کے مسلمانوں کو سمجھا دیا کہ وہ ایسا نہ کریں ورنہ خواہ مخواہ لاء اینڈ آڈر کا مسئلہ پیدا ہو جائیگا۔کیونکہ گاؤں کے ٹھاکر قربانی نہ کرنے پر بضد ہیں اور دھمکی بھی دیئے ہیں کہ اگر قربانی ہوئی تو بہت برا ہو جائیگا تب سے آج تک اس گاؤں میں قربانی نہیں ہوئی اور اس گاؤں کے مسلمان قریب کے مہندوپار گاؤں میں جاکر قربانی کر کے بوٹی وغیرہ بنا کر تب اپنے گاؤں لیجاتے ہیں۔اس گاؤں کے مسلمان اتنا امیر بھی نہیں ہیں کہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔البتہ ان کا ایک وفد ملائم سنگھ یادو سے مل چکا ہے اعظم خان صاحب سے بھی ملا ہے مگر ان دونوں کی جانب سے انہیں انکے مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے لئے کوئی خاطر خواہ جواب یا کاروائی کی اطلاع نہیں ملی۔ایسی مثالوں کی روشنی میں یہی بتانا ہے کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں تو وہ سب کچھ کر لیتے ہیں مگر جہاں کم تعداد میں ہیں وہاں انہیں بکرے کی قربانی کرنا بھی نصیب نہیں ہوتا جبکہ ملک کے آئین میں مذہبی فریضہ کی ادائیگی کی مکمل آزادی دی گئی ہے تو وہ آزادی کہاں ہے پولس کو ملک کا آئین دیکھنا چاہیئے نہ کہ مقامی لوگوں کی ہٹ دھرمی پر ہتھیار ڈال دینا چاہیئے۔یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے مہاراشٹر میں تو ایسا نہیں ہوتا مگر یہاں بجرنگ دل ،وشوا ہندو پریشد ،اور گؤ رکشا سمیتی جب سے فعال ہوئی ہے تب سے ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے ویسے بھی مہاراشٹر میں تند رست اور فربہ جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی ہے ایسا جانور جو کھیتی باڑی کے لائق ہو اسے ہرگز ہرگز ذبحہ نہیں کیا جا سکتا۔اسکے باوجود مذہبی فریضہ کی بنیاد پر ہر سال قربانی کے موقع پر مسلمانوں کو رعایت دی جاتی ہے اور مقامی میونسپل کے محکمہ صحت سے منسلکڈاکٹر سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہیں جنھیں وی ڈی آر کہا جاتا ہے جس بڑے جانور کا وی ڈی آر نہیں ہوگا اسکی قربانی کی قانوناً اجازت نہیں ہے مگر قانون کی تلوار تب بھی لٹکی رہتی ہے اسلئے اس انتہائی طور پر حساس معاملے کو قانونی طور پر حل کرنا ہی مناسب ہے جذبات کو اس معاملے میں کنارے رکھنا ہی بہتر ہے ورنہ پابندیاں سخت ہو جائینگی۔اسلئے قربانی کے لئے درپیش مسائل کے لئے قانونی حل ہی تلاش کرنا بہتر ہے اور اگر قانونی طور سے فٹ نہیں ہیں تو یہاں معاملہ افہام و تفہیم سے بھی ہو جاتا ہے لیکن اسکے لئے صبر کرنے کی ضرورت ہے مصلحت پسندی کی ضرورت ہے اگر مصلحت پسندی ہوگی تو قربانی کا مسئلہ آسانی سے حل ہو جائیگا۔اور اگر اس معاملے میں جذباتی بن کر کام کرینگے تو اس سے مسئلہ الجھ جائیگا۔کیونکہ مہاراشٹر میں قانون ہی ایسا ہے جسکی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی البتہ اگر اس قانون میں ترمیم ہو جائے تو قربانی کرنا آسان ہو جائیگا مگر اسکے لئے اسمبلی اجلاس میں ترمیمی بل پیش کرنا ہوگا یہاں یہ افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ اتنے نازک اور حساس مسئلے پر بھی مسل ممبران اسمبلی سنجیدہ نہیں ہیں اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو اب تک اسمبلی میں ذبیحہ کے تعلق سے ترمیمی بل پیش کر چکے ہوتے مگر اس کے لئے بھی لیاقت چاہیئے وہ کہاں سے لائینگے؟دانشمندی کا تقاضہ تو یپہی تھا کہ سڑک پر چلانے اور بار بار وزیر اعلی کو میمورنڈم دیکر قربانی میں بھیک کی سہولت مانگنے سے اچھا یہی تھا کہ اسمبلی میں ترمیمی بل پیش کر کے دیگر سبھی پارٹیوں کے ممبران کو مذہبی فریضہ کے نام پر اعتماد میں لیکر اسے منظور کرایا جا سکتا تھا مگر اس طرح کی کوشش کسی مسلم ممبران اسمبلی نے نہیں کی اسلئے آج تک مسلمانوں کو ہر سال عید الاضحی کے موقع پر پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے چند سال قبل ایک اور بات ہو گئی تھی کہ کچھ لوگ ممبئی میں عارضی طور پر مسلم محلوں میں سلاٹر ہاؤس بنا کر دیا جائے جیسے بھیونڈی ، مالیگاؤں اور دھولیہ سمیت مہاراشٹر کے کئی مسلم اکثریتی علاقوں میں کیا جاتا ہے تین دنوں کے لئے عارضی سلاٹر ہاؤس بنا کر دے دیا جاتا ہے اسی طرح ممبئی میں بھی مانگا جا رہا تھا مگر ممبئی میں یہ ممکن نہیں ہے اسلئے عدالت نے ابھی تک اس معاملے میں کوئی واضح فیصلہ نہیں دیا ہے البتہ عدالت نے یہ پوچھا تھا کہ جگہ بتائیں تو عریضہ گذار جگہ بتانے سے قاصر رہے یہ معاملہ انہوں نے میونسپل انتظامیہ پر چھوڑ دیا تھا وہ عرضداشت ابھی تک عدالت میں زیر سماعت ہی ہے۔اس لئے اس معاملے میں بہت ہی محتاط رہ کر سوچھ سمجھ کر ہی کوئی اقدام کرنے کی ضرورت ہے جب قانونی طور پر تندرست بڑے جانور ذبحہ ہی نہیں کر سکتے تو سلاٹر ہاؤس کیسے مانگ سکتے ہیں یہ مقامی انتظامیہ کے ساتھ افہام و تفہیم سے حل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ آج تک ہوتا آیا ہے۔اسلئے مسلمان قربانی کے معاملے میں بہت زیادہ جذباتی نہ ہوکر عقل و دانشمندی کے ساتھ کام کرے تو کوئی دشواری نہیں آئیگی۔
جواب دیں