ہم الزام اُن کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

آر ایس ایس کی طرف سے گاندھی جی کا قد کم کرنے کے لئے برابر کوشش ہوتی رہتی ہے۔ جہاں تک تقسیم کی بات ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ گاندھی جی بیشک اُس کے مخالف تھے۔ اگر مولانا آزاد کے ساتھ ساتھ جواہر لال نہرو بھی تقسیم کی مخالفت پر قائم رہتے تو پھر گاندھی جی ملک کو تقسیم نہ ہونے دیتے۔ آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار کی یہ بات کچھ زیادہ غلط نہیں ہے کہ اگر گاندھی جی نہ جھکتے تو ملک تقسیم نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ آر ایس ایس کو تقسیم کی اب کیوں تکلیف محسوس ہورہی ہے جبکہ وہ سب سے زیادہ تقسیم اور کٹے پھٹے پاکستان کی وکالت کررہی تھی؟ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ وہ یا تقسیم کے حامی سب کے سب ہندو لیڈر یہ سوچے بیٹھے تھے کہ جب مسٹر جناح کو پنجاب بھی آدھا ملے گا اور بنگال بھی آدھا جس میں بنگال کی جان کلکتہ بھی پاکستان کو نہیں ملے گا تو یا تو مسٹر جناح تقسیم کا مطالبہ واپس لے لیں گے۔ اور اگر اتنے کٹنے اور پھٹنے کے بعد بھی وہ پاکستان پر آمادہ ہوجائیں گے تو وہ پاکستان شاید پانچ سال بھی اپنے بل پر کھڑا نہ رہ سکے گا اور ہندوستان کے قدموں میں آجائے گا۔ پھر ہم اسے جب چاہیں گے بنالیں گے۔
صرف آر ایس ایس نہیں برلا جو اس زمانہ میں کانگریس پر حاوی تھے اور ان کے علاوہ ہر ہندو لیڈر کو یقین تھا کہ کٹا پھٹا پاکستان جناح صاحب قبول نہیں کریں گے۔ لیکن جناح صاحب نے اس کٹے پھٹے پاکستان کو اس لئے قبول کرلیا کہ بات یہاں تک آگئی تھی کہ وہ اگر پاکستان سے دستبردار ہوجاتے تو مسلم لیگ پھٹ جاتی اور مسٹر جناح کے مخالف لیڈر ایسی حالت میں پاکستان کو قبول کرنے کی بات کرتے اور وہ مسلمان جن کے دلوں میں مسٹر جناح نے ہندو سے نفرت حلق تک بھرتی تھی وہ باغی ہوکر مسٹر جناح کے سر سے قائد اعظم کا تاج اُتار لیتے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جب مسٹر جناح جب پوری طرح صاحب فراش ہوگئے تو انہوں نے لیاقت علی خاں کو بلوایا تھا اور ان سے کہا تھا کہ میں اچھا ہوجاؤں تو جواہر لال کے پاس جاؤں گا اور ان سے بات کروں گا کہ نئے سرے سے مسئلے پر غور کیا جائے۔ اس وقت پاکستانی اخباروں میں آیا تھا کہ ڈاکٹروں کے ساتھ نواب زادہ لیاقت علی خاں جب باہر نکلے تو سنجیدگی سے کہا کہ ’’اب عقل آئی بڑے میاں کو‘‘ اس وقت مسٹر جناح کو اس کا تصور بھی نہیں تھا کہ عالم اسلام پاکستان کے قیام سے کتنا خوش ہے؟ اس لئے کہ وہ اسلامی کے ذہن کے آدمی نہیں تھے۔ یہ تو 1965 ء کی بات ہے کہ پاکستان نے بھلے ہی احمقانہ حرکت کی ہو لیکن دنیا کو اندازہ ہوگیا کہ وہ کٹا پھٹا پاکستان جس کا قدموں پر گرنے کا ہندوستان بے صبری سے انتظار کررہا تھا وہ اتنی ہمت بھی کرسکتا ہے کہ کشمیر اور پنجاب کے کٹے ہوئے اضلاع واپس لینے کے لئے حملہ کرنے کی ہمت کرے؟
روس اس وقت عالمی طاقت تھا اس نے درمیان میں پڑکر اور دونوں کو بلاکر ایک دوسرے سے ملوا دیا۔ لیکن شاستری جی کی موت سے کہانی وہیں کی وہیں رہ گئی۔ دنیا مانتی ہے کہ یہ ایوب خاں کی جذباتی حرکت تھی لیکن اس نے کہانی کو نیا موڑ دے دیا۔ اس وقت عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں تیل کے چشمے اُبل پڑے تھے جس کی آمدنی اتنی تھی کہ ان کا ہر شہری مالا مال ہوگیا اور سب نے پاکستان کو گود لے لیا۔ لیبیا کے معمر قذافی جو بدنام ترین فوجی ڈکٹیٹر تھے انہوں نے تو پاکستان کو اتنا دیا کہ اس نے ایٹم بم بنا لئے اور جب اس نے دھماکہ کرکے پوری دنیا کو دہلا دیا تب ہندو لیڈروں اور آر ایس ایس کو محسوس ہوا کہ تقسیم کا فیصلہ غلط تھا اور یہ حقیقت ہے کہ اس وقت چاہے جس نے جو بھی سوچا ہو۔ لیکن جواب ہورہا ہے وہ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ انگریز تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ جو کوئی اُن کے اوپر ملک کے دو ٹکڑے کرنے کا الزام لگا رہا ہے وہ غلط بیانی کررہا ہے۔ آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہر ممکن کوشش کی کہ ملک تقسیم نہ ہو۔ بلکہ جب بنگال کے وزیر اعلیٰ حسن شہید سہروردی نے پورے بنگال کو الگ ملک بنانے کی تجویز رکھی تو ماؤنٹ بیٹن نے سختی کے ساتھ اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ملک کے دو ٹکڑے نہیں کرنا چاہتے آپ تین ٹکڑے کرانا چاہتے ہیں۔ اس کا اصل سبب یہ تھا کہ ماؤنٹ بیٹن جلد سے جلد ہندوستان سے جان چھڑانا چاہتے تھے اور وہ صوبوں کی تقسیم پر صرف اس لئے آمادہ ہوگئے تھے کہ شاید اسی دباؤ سے جناح صاحب اپنے مطالبہ سے ہٹ جائیں۔ ہندوستان تو کلکتہ کی طرح لاہور کو بھی ہندوستان میں شامل کرانا چاہتا تھا لیکن ماؤنٹ بیٹن نے یہ کہہ کر ان کی بات ردّ کردی کہ کلکتہ اور لاہور میں سے کوئی ایک ہندوستان کو دیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک گاندھی جی کا تعلق ہے تو اُن کے بارے میں مولانا آزاد نے کہا تھا کہ وہ کسی طرح بھی تقسیم کو منظور نہیں کریں گے۔ مولانا کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دونوں ساتھیوں کو بہت سمجھایا کہ وہ یہ آخری قدم نہ اٹھائیں۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ سردار پٹیل اس معاملے میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ وہ کچھ بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دو گھنٹہ سے زیادہ میں نے ان کے ساتھ بحث کی۔ میں نے سمجھایا کہ اگر ہم نے تقسیم کو قبول کرلیا تو ہم ہندوستان کے لئے ایک مسئلہ پیدا کردیں گے۔ مولانا نے کہا کہ ایک مرتبہ منافرت کی بنیاد پر دو ریاستیں وجود میں آجائیں تو کسی کو معلوم نہیں کہ حالات کس حد تک خراب ہوسکتے ہیں۔
مولانا نے لکھا ہے کہ اب جبکہ جواہر لال بھی سردار پٹیل کی حمایت کے ساتھ تقسیم پر آمادہ ہوگئے تو میری تمام اُمیدیں گاندھی جی سے وابستہ رہ گئیں ان دنوں وہ پٹنہ میں تھے۔ گاندھی جی 31 مارچ 1947 ء کو جب دہلی آگئے تو میں ان سے ملنے کے لئے گیا۔ ان کا پہلا فقرہ تھا کہ تقسیم اب ایک خطرہ بن چکی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ولبھ بھائی اور جواہر لال دونوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ میں نے معلوم کیا کہ اب آپ کیا کریں گے؟ آپ بھی میرا ساتھ دیں گے یا آپ بھی بدل جائیں گے؟ مولانا لکھتے ہیں کہ میں نے یہ بھی کہا کہ آپ بھی اگر تقسیم پر راضی ہوگئے تو ہندوستان مٹ جائے گا۔ گاندھی جی نے کہا کہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ اگر کانگریس تقسیم کو منظور کرنا چاہتی ہے تو ایسا میری لاش پر ہوگا۔ جب تک میں زندہ ہوں ہندوستان تقسیم نہیں ہوگا۔
مولانا آزاد نے آگے لکھا ہے کہ گاندھی جی پہلے ماؤنٹ بیٹن سے ملنے گئے واپس آکر وہ سردار پٹیل سے ملے اور دونوں میں دو گھنٹے تک صلاح و مشورہ ہوا۔ ان کے درمیان کیا بات ہوئی یہ میں نہیں جانتا لیکن میں جب دوبارہ گاندھی جی سے ملا تو مجھے زندگی کا سب سے بڑا صدمہ پہونچا مجھے معلوم ہوا کہ وہ بھی اب بدل چکے ہیں۔ وہ اگرچہ تقسیم کے حق میں تو نہیں ہوئے لیکن انہوں نے سختی سے اس کی مخالفت چھوڑ دی۔ مجھے سب سے زیادہ صدمہ اس کا ہوا کہ انہوں نے وہی دلائل دہرائے جو سردار پٹیل نے میرے ساتھ گفتگو میں دیئے تھے۔ اس وقت کی وہ تاریخیں جو دیانت داری سے مکمل ہوگئی ہیں ان کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ صرف مولانا آزاد آخر میں رہ گئے تھے اور جو سب سے اہم مسئلہ کہ ہندوستانی ایک قوم ہے اور وہی کانگریس کا سب سے بڑا نعرہ تھا جبکہ جناح صاحب ہندو اور مسلمان دو قومیں مانتے تھے۔ آخر میں سردار پٹیل نے کھل کر کہنا شروع کردیا تھا کہ ہندوستان میں دو قومیں ہیں۔
آر ایس ایس ہو یا اس زمانہ کے ہندو لیڈر تقسیم اور کٹا پھٹا پاکستان کو اس لئے دے کر خوش تھے کہ وہ چند برس میں ہی گرپڑے گا۔ آج جب امریکہ بھی اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے اور چائنا نے بھی دونوں ہاتھوں سے اس کی کمر تھام لی ہے اور وہ خود ایٹم بم کے تربوز لئے بیٹھا ہے تب آر ایس ایس تقسیم کی ذمہ داری گاندھی جی پر ڈال کر اپنے کو الگ کررہا ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ وہ اور اس کے ذہن کے سردار پٹیل جیسے کانگریسی برلا وغیرہ ان میں جو بھی زندہ ہے وہ ایک طاقتور دشمن کو دیکھ دیکھ کر اپنا سر پیٹ رہا ہے۔

«
»

ہائے اللہ ! یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں ؟؟

شب قدر ۔ایک رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے