فتح محمد ندوی
بتوں سے تجھ کو امیدیں خداسے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
(علامہ اقبال)
کچھ ماہ قبل میرے پاس ایک سابق ریٹائرڈ فوجی کرنل راجیو راوت صاحب تشریف لائے تھے۔ مختلف امور پر پر ان سے تبادلہ خیال ہوا۔ بات ہندو مسلم اتحاد پر پہنچی۔ انہوں کہا کہ ہم اور آپ ہندو مسلم اتحاد پر مل کر کام اور محنت کریں۔ تو ہو سکتا ہے دونوں میں کچھ بڑھ تی ہوئی دریاں کم ہو جائیں۔ گفتگو کا سلسلہ بڑھتا رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کرنل صاحب سیاست میں بھی زور آز مائی کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ یوپی میں برسر اقتدار پارٹی اہم لوگوں کے قریبی ہونے کی وجہ سے بہٹ اسمبلی سیٹ سے الیکشن بھی لڑنا کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خیر جب انہوں نے ہم سے یہ درخواست کی کہ آپ ہمارا تعاون کریں گے۔ اور مسلمانوں کو سمجھا ئیں گے۔ تو میں نے ان سے یہ کہاکہ کرنل صاحب ہم تو آپ کا تعاون کر سکتے ہیں۔مسلمان آپ کو ووٹ بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن آپ ہمیں یہ بتائیں کہ ایک مسلمان تو آپ کو ہمارے کہنے سے ووٹ دے سکتا ہے۔ لیکن آپ کے کہنے سے کتنے ہندو ایک مسلمان کنڈیڈیٹ کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس پر وہ بالکل خاموش ہوگئے۔ اور کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر میں نے ان کو سمجھایا کہ آپ نے ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے حوالے سے اتنی بھردی ہے کہ وہ مسلمان کا نام سنتے ہی چراغ پا ہوجاتا ہے۔ نفرت کی آگ اگلنے لگتا ہے۔ غرض مسلمان کے نام سے اس کے اندر ایک کرودھ اور غصہ ہے۔ اس غصہ کا اظہار اب ہرجگہ ہونے لگا ہے۔ سیاست۔ سماجیات۔ اسپتال اسکول اور یونیورسٹیوں تک آپ نے ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کردیے ہیں،واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلمان ہندو کنڈیڈیٹ کو ووٹ دے سکتا ہے لیکن ہندو ووٹ نہیں دیتا۔ ایک مسلمان اپنے بچے کو ہندو اسکول میں پڑھا سکتا۔ ہے۔ لیکن ہندو نہیں پڑھا تا۔ڈاکٹر جو کبھی مسیحا ہوا کرتے تھے۔ وہ ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم ہو گئے۔ حتی کہ مریض اور اسپتال تک بھی تقسیم ہو گئے۔ غر ض اسی طرح اور بہت سے میدان ایسے تھے جہاں نفرت کی دیواریں حائل نہیں تھی۔ انسانیت اور انسانی قدریں محفوظ تھیں۔ لیکن اب روایت بدل گئی اور لوگوں کی آنکھوں میں نفرت کے بال آگئے۔ ملک کی بڑی اکثر یت کا مزاج خصوصا آرایس ایس نظریے کے حامل لوگ ہندوستان کے نہ سیکولرزم میں یقین رکھتے ہیں۔اور نہ ہی آئین میں۔بلکہ وہ سرے سے ہی اس آئیڈیل اور نظام کا انکار کرتے رہیں ہیں۔اور ساتھ ہی ہندو اسٹیٹ کے لیے اس کو بڑی رکاوٹ بھی مانتے ہیں۔یہ نظریا ت جب ملک کی اکثریت کے لوگوں کے ہیں تو ان سے یہ امید کیسی کی جاسکتی ہے۔کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں کوئی مثبت پہل کریں گے اور ا س مشن کو آگے لے جائیں گے۔ اس لیے میں آپ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ سب سے پہلے اپنی قوم کے لوگوں میں جاکر مسلمانوں کے تئیں جو نفرت آگ کی طرح ان کے دماغوں میں بھری ہو ئی ہے اس کو نکا لیے اور اس پر محنت کیجئے۔ کیو ں کہ پیا ر ومحبت تمام انسانوں کی ضرورت ہے بغیر پیار محبت اور شانتی کے انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔
۔ اب بات مسلمانوں کی کرتے ہیں ہندوستان کا مسلمان آزادی کے بعد سے آج تک کسی نہ صورت میں یہ پروف کرنے میں لگاہوا ہے۔کہ وہ سیکولر ہے ۔اورمزید اس کے لیے وہ اپنے مذہبی تشخص کو بھی چھوڑدیتا ہے۔اسے شرکیہ نارے لگانے سے مورتیوں کے سامنے ہاتھ جوڑ نے سے ۔اس کے علاوہ جو بھی اس کو غلط سے غلط عمل کرنا ہو تا ہے وہ کر گزرتاہے۔بلکہ اب تو اہل مدارس بھی اس لائن میں آگے آگئے۔اوروہ بھی پروف کررہیں ہیں ۔بادل نہ خواستہ ہی سہی۔
اس وہن کی بیماری سے ہمیں چھٹکارا پانے ہوگا۔ اور یہ بات بھی دل سے نکالنی ہوگی کہ ہمیں وفاداری کے ثبوت پیش کرنے ضرورت ہے۔ ہمیں کوئی ثبوت پیش کر نے ضرورت نہیں۔تاہممجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ ہمیں اتحاد کو باقی رکھنے کے لیے وہ کام کرنے چاہیے جن کی شریعت نے ہمیں اجازت دی ہے۔لیکن ہم اس بات کے سخت مخالف ہیں کہ ہم اپنے مذہب کو بالاۓ طاق رکھ وہ کام کریں جس کی ہمیں شریعت نے اجازت نہیں دی۔ایک مسلمان کے نزدیک سب سے بڑی چیز ایمان عقیدہ اور ساتھ ہی اس کا تشخص ہے۔یاد رہے کہ بغیر تشخص کے انسان کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ مردہ لاش ہے۔
آپ یہ ارادہ کریں اور مضبوطی سے کریں کہ ہمیں ہندستان میں اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ رہنا ہے۔ہمارے بڑوں نے اس کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں ۔اوران کی تمام قربانیاں صر ف اسی لیے تھی کہ مسلمان اپنے ایمان اور اپنی تہذیب کے ساتھ اس ملک کے اندر رہیں اس ملک کا تحفظ کریں۔اس ملک کی دستور کی حفاظت کریں۔اس ملک کی قدیم آپسی بھارگی اور قومی یکجہتی جیسے خوبصورت کردار کو بقاء کی صورت عطا کرنی ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں