اِس میڈیکل کالج اور ہاسپٹل سے بے پناہ اُنسیت رہی۔ وہ اِس جیسے اور کالجس قائم کرنا چاہتے تھے۔ آزاد ہندوستان کا اولین ویمنس میڈیکل کالجس قائم کرنے میں وہ کامیاب رہے۔ وہ کچھ سانسیں زندگی کی کچھ اور گھڑیاں چاہتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ وہی کرتا ہے جو اس کے بندوں کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔ میری بیٹی نے مجھ سے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب کو شاداں کالج کیمپس میں کیوں دفن کیا جارہا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ شاداں میڈیکل کالج ڈاکٹر صاحب کی خوابوں کا تاج محل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاج محل شاہ جہاں کی محبت کی یادگار ہے اور شاداں میڈیکل کالج کیمپس اِن کی محبت کی یادگار ہے۔ اس کے در و دیوار میں ان کے جذبوں کے روغن کی آمیزش ہے۔ جس کے ہر ایک ذرے میں ان کی بے پناہ چاہت پنہاں ہے۔
ڈاکٹر محمد وزارت رسول خان کو ان کی تعلیمی میدان میں خدمات کے لئے جنوبی ہند کا سرسید کہا جاتا رہا۔ ویسے جنوبی ہند میں سر سیدوں کی کمی نہیں رہی۔ ڈاکٹر وزارت رسول خان نے جو خدمات انجام دیں وہ سر سید کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ رہیں۔ گذشتہ 30برسوں کے دوران جنوبی ہند کے اکثر مسلم نوجوانوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے تو اس میں ڈاکٹر وزارت رسول خان کے کلیدی رول کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے لگ بھگ ربع صدی قبل انہوں نے تعلیمی مشن کا آغاز کیا تو وہ ایک فرد تنہا تھے۔ محترمہ شاداں تہنیت ان کی شریک زندگی اور رفیق سفر تھیں۔ سبھی فرزندان کمسن تھے۔ ناسازگار حالات میں اس مرد مجاہد نے اپنے منزل کا تعین کیا اور اللہ کا نام لے کر قدم بڑھاتا گیا۔ سنگ میل گزرتے گئے۔ کئی منزلیں آئیں اور ہر منزل کو سنگ میل کی طرح پار کیا۔ اور جب اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے تو صرف یادیں ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے اتنی روشن مشعلیں چھوڑ گئے جس کی روشنی میں وہ اپنی راہ خود تلاش کرنے کے اہل ہیں۔56تعلیمی ادارے‘ 25ہزار طلباء و طالبات۔ یہ محض ایک فرد واحد کی نیک نیتی کا ثمر ہے۔
ڈاکٹر وزارت رسول خان اُن خوش نصیب انسانوں میں سے تھے جن کی خدمات کا ان کی زندگی ہی میں اعتراف کیا گیا۔ دنیا نے ان کی کاوشوں کو صدق دل سے سراہا اور دعاؤں سے نوازا۔ وہ تھے بھی اسی لائق۔ کے جی سے پی جی تک قائم کئے گئے اداروں میں ایسے اَن گنت طلباء و طالبات شامل تھے جن کی وہ چپکے سے کفالت کیا کرتے تھے۔
ایک معزز، متمول، علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر وزارت رسول خان نے ایک مدبر سیاست دان کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات کے اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ بعد میں وہ سیاسی میدان میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئے تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی مصلحت تھی۔ اگر وہ صرف سیاسی میدان تک محدود رہ جاتے تو شاید جتنی خدمات تعلیمی اداروں کے قیام کے ذریعہ انہوں نے کی اس سے محروم رہ جاتے۔ ڈاکٹر وی آر کے ویمنس میڈیکل کالج کی اڈمنسٹریٹیو بلاک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر جناب غلام نبی آزاد نے وہاں موجود مسٹر ڈی ناگیندر (ریاستی وزیر) سے اظہار تشکر کیا کہ انہوں نے سیاسی میدان میں ڈاکٹر وزارت رسول خان کو کامیابی سے روکا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے 50سے زائد تعلیمی ادارے قائم نہ ہوتے۔ مسلمانوں کے لئے دو میڈیکل کالجس کا قیام ناممکن سا تھا۔
ڈاکٹر وزارت رسول خان ایک کامیاب سیاست دان اور ماہر تعلیم تو تھے ہی مگر ایک مخلص اعلیٰ ظرف انسان بھی تھے۔ دینی جذبے اور خوف خدا سے سرشار بھی تھے۔ ان کے قریبی حلقہ احباب سے ان کی عبادتوں سے متعلق معلومات ہوتیں تو تعجب بھی ہوتا اور رشک بھی۔ کیوں کہ کلین شیو سوٹ بوٹ میں رہنے والا یہ شخص مستقل تہجد گذار تھا اور کئی کئی پارے تلاوت قرآن پاک ان کے روز مرہ کے معمولات میں شامل تھی۔
خیریت آباد کے شاداں کامپلکس میں بارہ برس پہلے شاندار عالیشان مسجد تعمیر کی اور اور اسے بہترین آرائش و زیبائش سے آراستہ کیا۔ رمضان مبارک کی ابتدائی پانچ راتوں میں وہ اسی مسجد میں تراویح میں چھ پارے سنا کرتے تھے اور نمازو ں کے بعد مصلیوں سے ملاقات کرتے۔ یہ مسجد ایک معنوں میں وی آئی پیز کا مرکز بن چکی ہے۔ اکثر اعلیٰ مسلم عہدیدار رمضان میں یہیں نماز ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے ان کا مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا۔ ماہ رمضان المبارک کے تمام ایام میں ڈاکٹر صاحب کی جانب سے مسجد کے سیلر میں افطار کا اہتمام کیا جاتا رہا۔ جس میں سینکڑوں کی تعداد میں روزہ دار شریک ہوتے۔ مسجد شاداں وزارت رسول خان کی تعمیر اس علاقہ کے مسلمانوں کے لئے پنج وقتہ نماز کی ادائیگی کے لئے بہت بڑی سہولت سبب بنی۔ الحمدللہ! نہ صرف شاداں کالج کے طلباء کی وجہ سے بلکہ اطراف و اکناف کے علاقوں اور اس راستہ سے گذرنے والے مسلمانوں کی بدولت یہ ہمیشہ مصلیوں سے آباد رہی ہے۔ ڈاکٹر وزارت رسول خان نے صرف ایک مسجد تعمیر نہیں کی بلکہ اللہ کے اس گھر میں ہر قسم کی سہولت فراہم کی۔ اس کی آرائش و زیبائش میں ان کی اللہ کے گھر کے لئے خدمت کے جذبے چھلکتے ہیں۔ یہ تاقیامت ان کے لئے ثواب جاریہ کا ذریعہ ہے۔ مسجد سے ان کا جو جذباتی لگاؤ رہا اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ اسی مسجد میں ادا کی جائے۔
ڈاکٹر وزارت رسول خان نے ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کی۔ رہنمائے دکن سے میڈیا پلس اور پھر گواہ تک دامے درمے سخنے ان کا تعاون حاصل رہا۔ جب بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا لگتا کہ ہمارا درجہ کچھ اور بلند ہوگیا کیوں کہ وہ اسی انداز سے حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ اگر ان کے ساتھ کوئی ہوتا تو اس سے اس انداز میں تعارف کرواتے کہ وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹر صاحب صرف گفتار کے غازی نہیں تھے بلکہ عمل پیہم کا زندہ پیکر تھے۔ 1999ء میں میڈیا پلس کی بنیاد ڈالی گئی۔ ڈاکٹر صاحب آصف نگر حلقہ اسمبلی سے امیدوار تھے۔ انہوں نے الیکشن پبلسٹی کی ذمہ داری میڈیا پلس کو تفویض کی۔ اگرچہ کہ اس وقت کئی حضرات نے انہیں شخصی طور پر فون کرکے منع کیا مگر ڈاکٹر صاحب نے کسی کی نہیں سنی اور میڈیا پلس کی عملی طور پر سرپرستی کی۔ اس الیکشن میں اگرچہ کہ وہ کامیاب نہ ہوسکے مگر ان کی یہی ناکامی ان کی اولو العزمی کی بنیاد بنی اور یہیں سے ایک نئے عزم کے ساتھ وہ ملت کی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لئے وقف ہوگئے۔
ڈاکٹر وی آر کے ویمنس میڈیکل کالج آزاد ہندوستان کی تاریخ کا پہلا ویمنس میڈیکل کالج ہے اور ڈاکٹر وزارت رسول خان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے اپنی قوم کی لڑکیوں کے لئے میڈیکل کالج کی منظوری حاصل کی۔ یقیناًاس کالج کی بدولت دختران قوم کی ایک کثیر تعداد ڈاکٹر بننے کے خواب کی تعبیر دیکھیں گی۔ اس کالج کے قیام سے قوم کو کس قدر خوشی ہوئی ہوگی اس کا مجھے اندازہ نہیں ہے مگر جتنی خوشی مجھے ہوئی اس کا بھی کسی کو اندازہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس کالج کے پہلے بیاچ میں میری اپنی بیٹی شامل ہے جو اب ایم بی بی ایس تھرڈ ایئر کی تکمیل کررہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جتنی بار میں نے اپنی بیٹی کو ایپرن (وہائٹ کوٹ) میں دیکھا اتنی مرتبہ ڈاکٹر وزارت رسول خان کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعاء نکلی۔ کیوں کہ ذہانت، قابلیت، محنت اور جستجو کے باوجود میرٹ کی اساس پر ایم بی بی ایس میں داخلے آسان نہیں۔ وی آر کے ویمنس میڈیکل کالج اینڈ ریسرچ سنٹر کی بدولت غریب اور متوسط طبقے کی دختران ملت کی ایک قابل لحاظ تعداد میرٹ کی اساس پر ایم بی بی ایس میں داخلہ حاصل کرنے لگی ہیں۔ جب جب کسی کی بیٹی میرٹ کی بنیاد پر ایم بی بی ایس کے لئے منتخب ہوتی ہے تو اس سے زیادہ اس کے والدین خوش ہوتے ہیں۔ جب منتخب طالبات کے نام کا اعلان کیا جاتا ہے اور داخلہ کے مرحلے کے لئے والدین اپنی بیٹیوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو ان کی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے دھندلا جاتی ہیں‘ ا ور لبوں پر شکر الٰہی ہوتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے اس کالج کے بانیوں کے لئے دعائیں بھی نکلتی ہیں۔ یہی دعائیں ڈاکٹر وزارت رسول خان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام ملے گا انشاء اللہ۔
ڈاکٹر وزارت رسول خان نے اپنی علالت میں بھی اپنے تعلیمی اداروں اور مستقبل کے منصوبوں کو ترک نہیں کیا۔ مشیت الٰہی کچھ اور تھی وہ پوری طمانیت کے ساتھ رخصت ہوئے کیوں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے چاروں فرزندان کو ذمہ داری پوری کرتے ہوئے دیکھا۔ یقیناًیہ ان کے مشن کی تکمیل کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے تنہا تعلیمی انقلاب لایا ان کے فرزندان کو ورثے میں ان کا ملی جذبہ ملا ہے۔ وہ یقیناًاور بھی نئے انقلابات کے نقیب ثابت ہوں گے۔ چاروں فرزندان ڈاکٹر محمد صارب رسول خان، محمد ثاقب رسول خان، محمد عازب رسول خان اور محمد شاہ عالم رسول خان‘ بلاشبہ شاداں تعلیمی تحریک کے چار ستون ہیں۔ اور جناب اعزازالرحمن کو وہ بنیاد کہا جاسکتا ہے کیوں کہ ڈاکٹر وزارت رسول خان نے اعزازالرحمن کو اپنی اولاد سے زیادہ چاہا اپنے دل سے قریب رکھا۔ شاید ہی کبھی ہم نے ڈاکٹر وزارت رسول خان کو اعزازالرحمن کے بغیر دیکھا۔ چاروں بھائی اپنے والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوئے ہیں تو اعزازالرحمن بھی اپنے شفیق مہربان کے سائے سے محروم ہوئے ہیں ان کے علاوہ ادارے اور ڈاکٹر صاحب سے جذباتی طور پر تین دہائیوں سے زیادہ وابستہ جناب محمد اعظم بھی ایک عظیم صدمہ سے دوچار ہوئے ہیں۔ یقیناًڈاکٹر صاحب کے غیاب میں اعزازالرحمن کی رہنمائی اور تجربات کی روشنی میں چاروں برادران قدم آگے بڑھاتے رہیں گے۔ وہ اس دنیا میں تنہا نہیں ہیں۔ شاداں تعلیمی اداروں سے وابستہ سابق اور موجودہ طلباء و طالبات ارکان عملہ اور ڈاکٹر صاحب کے چاہنے والے ان کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کے ارکان خاندان کو مکمل اتحاد و اتفاق کے ساتھ قوم کی خدمت کی طاقت عطا کرے۔
جواب دیں