ہم چراغوں کوڈراتے ہو،یہ کیا کرتے ہو؟!

اور اسی پر عمل ہورہاہے ، 21؍جون کو عالمی یوگاڈے کا انعقادبذاتِ خود موضوعِ بحث بناہواتھا اور مسلمان تو مسلمان،خود ہندووں کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی یہ کہہ رہاتھاکہ اگر یوگاایک ورزش اور صحت کے لیے مفید عمل ہے،تو اسے لوگوں کی اپنی مرضی پر چھوڑدیناچاہیے،جسے مفید لگے،وہ کرے اورجو چاہے نہ کرے،مگر حکومت تو ایک خاص منصوبے کے ساتھ اسے نافذکرنا چاہتی تھی،سو باقاعدہ راجپتھ پر ایک’یوگامیلہ‘لگایاگیا،جس میں میڈیاکے مطابق تقریباً چالیس ہزار لوگوں نے شرکت کی،اس کے علاوہ ملک کے دیگر خطوں،صوبوں اور شہروں میں بھی بی جے پی لیڈروں نے مجمع لگاکریوگاکیااور سارے ملک میں یوگایوگاہونے لگا،جبکہ دوسری جانب ان ہی دنوں ممبئی سے خبرآئی کہ سیکڑو ں لوگ زہریلی شراب پینے کی وجہ سے مرگئے،بارش کی وجہ سے پوراشہرجل تھل ہوگیااورنظامِ زندگی درہم برہم ہوگیا،مگر یوگا کی دھوم میں انسانی جانوں کے ضیاع کی خبریں دب کر رہ گئیں۔اس کے بعدبی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری آرایس ایس ریٹرن رام مادھونے ٹوئٹ کیا ، جس میں یوگاڈے کے پروگرام کوراجیہ سبھاٹی وی پر نہ دکھائے جانے اور پروگرام میں نائب صدرجمہوریہ حامدانصاری کی عدمِ شرکت کونشانہ بنایا گیا، پھر جب چاروں طرف سے تھوتھوہونے لگی اور معلوم ہواکہ نائب صدرکواس پروگرام میں بلایاہی نہیں گیاتھا،توفوراًاس ٹوئٹ کوڈیلیٹ کردیاگیااوررام مادھونے اظہارِ معذرت کرکے چھٹی لے لی،اس سے پہلے یومِ جمہوریہ کے موقع پر قومی جھنڈے کو سلامی نہ دینے کے مسئلے پر بھی بی جے پی نے غلط پروپیگنڈہ کیا اور حامد انصاری کی تذلیل کی کوشش کی تھی۔ابھی اِس مسئلے پر میڈیامیں بحث و مباحثہ جاری ہی تھا کہ پراچی نامی نیم مجنونہ سادھوی کابیان آیاکہ یوگاپروگرام کسی سیاسی لیڈرکی شادی کی تقریب نہ تھی کہ اس میں باقاعدہ نائب صدر کو دعوت دی جاتی،انھیں خود آنا تھا اور جو لوگ ہندوستانی کلچر اور تہذیب کو اپنانے سے انکاری ہیں، وہ پاکستان چلے جائیں،انھیں اس ملک میں رہنے کی ضرورت نہیں۔23؍جون کو آل انڈیاہندومہاسبھاکے حوالے سے ایک خبر یہ آئی کہ لکھنؤمیں اس کی عاملہ کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ ہندومہاسبھا’اسلام مکت بھارت‘بنانے کی مہم چلائے گا،اس کے کارگزارقومی صدرکملیش تیواری کاکہناہے کہ آنے والے ساون کے پہلے پیر کوکاشی کے وشوناتھ مندرمیں’جل‘چڑھانے کے بعدہندوستان کوہندوراشٹربنانے کی مہم چلائی جائے گی،واضح رہے کہ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے ہندومہاسبھانے باقاعدہ’غدارو،بھارت چھوڑو!‘کے عنوان سے ایک مہم چلائی تھی،جس میں حیدرآباد سے ممبرپارلیمنٹ بیرسٹراسدالدین اویسی، یوپی کے کابینی وزیر اعظم خان اورشاہجہانی جامع مسجد دہلی کے امام احمد بخاری کو ہندوستان چھوڑنے کوکہاگیا تھا۔اب پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندوستان بدرکرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے،ایسا کہاجارہاہے کہ ہندومہاسبھاکا یہ فیصلہ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈکے اُس خط کے ردِعمل کے طورپرسامنے آیاہے،جس میں7؍جون کولکھنؤمیں ہونے والی اس کی مجلسِ عاملہ کی میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے عام مسلمانوں،دانشوروں،علمااورمساجدکے خطباسے اپیل کی گئی ہے وہ یوگا،سوریہ نمشکار،وندے ماترم جیسے مشرکانہ اعمال سے سختی سے پرہیز کریں،علماعام مسلمانوں کو اس حوالے سے بیدارکریں اورحکومت کی بدنیتی کو سمجھیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ ابھی لگاتاربی جے پی کے چوٹی کے لیڈران،وزراکرپشن کے کیسزمیں پھنستے نظرآرہے ہیں اور اپوزیشن کو اسے گھیرنے اور کٹہرے میں کھڑاکرنے کا اچھا موقع مل گیا ہے،ایسے میں بی جے پی بھی اپنی روایتی چال اور حکمتِ عملی سے کیسے دست بردارہوسکتی ہے؛چنانچہ ایک جانب جہاں مرکزی وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی فیک ڈگری معاملے میں پھنستی نظرآرہی ہیں اوردہلی کے پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے ان کے خلاف مقدمہ کی تیاری کرلی ہے،تودوسری جانب سے ان کی جانب سے یہ اعلان کرکے لوگوں کا ذہن موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ایک سے آٹھویں کلاس تک تمام اسکولوں میں یوگاکولازمی سبجیکٹ کے طورپرشامل کیاجائے گا،اسی طرح وزیرِ خارجہ سشماسوراج اور راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھراراجے مبینہ طورپرایک اعلیٰ درجے کے گھوٹالے بازسابق آئی پی ایل چیئرمین للت مودی سے سانٹھ گانٹھ کے معاملے میں بے نقاب ہوچکی ہیں،اورتواورمہاراشٹرکی کابینہ میں وزیرپنکجامنڈے کے حوالے سے206؍کروڑکے اچھے خاصے گھوٹالے کی بھی خبریں آرہی ہیں؛یہ سب وہ معاملات ہیں کہ ان پر بی جے پی کی اچھی طرح کلاس لگنی چاہیے تھی،جس طرح ماضی میں کانگریس کو اس نے گھیرا اور گھوٹالے کے ملزم وزراسے استعفادلوایاگیاتھا،اسی طرح اگر بی جے پی میں شرم و حیا ہوتی اور وہ عوام کے تئیں اچھی اور شفاف حکومت دینے کے اپنے وعدے میں سچی ہوتی توکرپشن کے الزام سے دوچارمذکورہ لیڈران کوان کے عہدوں سے سبک دوش کرکے ان کے خلاف منصفانہ جانچ کرواتی،مگراس کے برخلاف وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہتے نظرآرہے ہیں کہ کوئی استعفانہیں دے گا،یہ یوپی اے کی نہیں،این ڈی اے کی حکومت ہے،آخران کی اس بات کا کیامطلب ہوسکتاہے،یہ کہ عوام لاکھ چیختے رہیں،ان کے وزیراپناکاروبارِبطن پروری جاری رکھیں گے،کیا اسی لیے اُنھوں نے لوگوں کے ووٹ حاصل کیے تھے؟یہ سراسردھوکہ،فریب اورلوگوں کوالوبناناہے،سب کا ساتھ،سب کاوکاس اورنہ کھائیں گے،نہ کسی کوکھانے دیں گے؛یہ سب امت شاہ کی زبان میں واقعتاً’’ جملے‘‘ہی تھے!
ایک طرف تویہ معاملہ ہے،دوسری طرف یہ حکومت اپنے اصل ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ملک کے عوام کومذہبی بنیادوں پر تقسیم و تفریق کرنے کے بھی انتظامات مسلسل کر رہی ہے؛چنانچہ حکومت کی جانب سے مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصرپرروک لگانے،زہرناک بیانات دینے والے اشخاص و افراد اور تنظیموں پر قدغن لگانے اور ملک کی جمہوریت کے تحفظ و بقاکی سمت میں اقدامات کرنے کی بجاے خاموشی سے ایسے تمام اداروں اور افراد کوانرجی پہنچائی جارہی ہے،یہ کام بہت سے وہ لوگ بھی کر رہے ہیں،جواس کی پارٹی کے لیڈرہیں،ایم پی ہیں؛بلکہ بہت سے ایسے لوگ بھی،جوقسمت سے مرکزی کابینہ میں وزیرکے عہدے پر براجمان ہیں اور جوکچھ کورکسرباقی ہے،اس کی تکمیل وشوہندوپریشد،بجرنگ دل،ہندومہاسبھاٹائپ کی ’’غیر سماجی‘‘ تنظیمیں کیے دے رہی ہیں۔یہ کتنی بھونڈی اور بے سرپیرکی بات ہے کہ کچھ لوگ رہ رہ کرمسلمانوں سے یہ کہتے ہیں کہ’ ’تم پاکستان چلے جاؤ‘‘اُنھیں کون سمجھائے کہ ہمیں پاکستان جانا ہوتایاہندوستان چھوڑناہوتا،توہم(یاہمارے اَجداد)47ء میں نہ چھوڑ چکے ہوتے،جب باقاعدہ مسلم اور ہندوکے نام پر چندخودغرض،ابن الوقت، مفاد پرست نام نہادلیڈران نے انگریزبہادرسے دوالگ الگ ملک بنوالیے تھے اور دونوں طرف کے انسان کش حیوانوں کی جماعت انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑاکراپنی آزادی کا جشن منارہی تھی،ہم نے تو اُس وقت بھی ہندوستان نہیں چھوڑاتھا،جب یہ جھانسہ دیاجارہاتھا کہ ایک الگ ملک چلو،ایسے ملک، جو سراسر اسلامی ہوگا،جہاں اسلامی احکام نافذہوں گے اور مسلمان آزادی کے ساتھ جیئیں گے اور ہر طرح کی خوشحالی و فراوانی ان کے قدم چومے گی،اس کے بعد بھی ہمارے اوپر حالات کی سنگینی و شدت کے کئی اَدوار آئے،مسجدوں کی شہادت کے حوالے سے،فسادات کے ذریعے،دہشت گردی کے بہتان کے ذریعے اور دیگر مختلف حربوں سے ہمیں ہندوستان سے نکال دینے کی کتنی ہی تحریکیں چلائی گئیں،مگرنتیجہ کیانکلا؟کچھ نہیں،جوتحریک چلانے والے تھے،وہ تھک ہارکربیٹھ رہے اور ہم اِسی ہندوستان میں اُن کے سینوں پر مونگ دَل رہے اور پوری آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں،بسا اوقات تو ہمیں اُن لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ احساسِ فخر ہوتا ہے،جو اسلام کے نام پر اپنے گھربار کوچھوڑکرسرحدکے اُس پارچلے گئے تھے اور اب لمحہ لمحہ غیرمحفوظ زندگیاں جی رہے ہیں؛ کیوں کہ اللہ کے فضل سے ہمیں کم ازکم ان لوگوں کے مقابلے میں تو محفوظ زندگی نصیب ہے۔پھریہ کہ ہمیں اچھی طرح پتاہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت کا تحفظ جتنا مسلمان کررہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں،اس سے زیادہ خود یہاں کا ہندوکرتاہے،ظاہر ہے آج کے طوفانی رفتار سے آگے بڑھ رہے عہد میں کون چاہے گا کہ مذہب کے نام پر آپسی خانہ جنگی،خوں ریزی اور نفرت انگیزی میں پھنس کراپنی تعلیمی و معاشی ترقی کی راہ میں روڑااٹکالیا جائے، دنیا برق کی سی سرعت کے ساتھ کامیابیوں ،بامرادیوں اور ترقیات کی منزلیں طے کرتی رہے اورہم ایک ملک میں،ایک ساتھ رہ کر بھی ایک دوسرے کے جیب و داماں کی دھجیاں بکھیرنے میں مصروف رہیں اوراپنے آپ کو روزبروزترقی کی دوڑمیں پیچھے کرتے چلے جائیں۔وہ توکچھ لوگ ہوتے ہیں،مسلمانوں میں بھی اور ہندووں میں بھی ،کچھ سیاسی،کچھ مذہبی،جو دونوں طرف کے لوگوں کوجھوٹے بھرم میں مبتلاکیے رکھتے،ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے اوراپنی مارکیٹنگ کی خاطردونوں مذہب کے عام لوگوں کوآپس میں بھڑادیتے ہیں،ہندوستان کی آزادی سے پہلے سے لے کر آج تک کی تاریخ میں جتنے بھی فسادات ہوئے،اگران کی تہوں میں جھانکاجائے اوراصل حقائق کی چھان بین کی جائے،تو سب کے پیچھے یہی عامل کارفرمانظرآئے گا۔سوہندومہاسبھااوراس جیسی جتنی’تیس مارخاں‘ٹائپ کی تنظیمیں ہیں،ان سے دست بستہ عرض ہے کہ ؂
ہم نے دیکھے ہیں بہت تیز ہواؤں کے عذاب
ہم چراغوں کوڈراتے ہو،یہ کیا کرتے ہو؟! (یو این این) 

«
»

اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

مودی کا اسرائیل دورہ ۔قومی مفاد میں یا نظریاتی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے