مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس کو کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایک ریاست چھتیس گڈھ اس کے ہاتھ سے نکل گئی لیکن تلنگانہ اس کے حصہ میں آگیا، راجستھان والوں نے ہر پانچ سال پر حکومت بدلنے کی […]
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس کو کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایک ریاست چھتیس گڈھ اس کے ہاتھ سے نکل گئی لیکن تلنگانہ اس کے حصہ میں آگیا، راجستھان والوں نے ہر پانچ سال پر حکومت بدلنے کی اپنی روایت کو قائم رکھا اور اقتدار بھاجپا کے سپرد کر دیا، مدھیہ پردیش پہلے سے اس کے قبضہ میں تھا، حکومت بر قرار رہی، میزورم میں وہاں کی عوام نے کانگریس، بھاجپا دونوں کو مسترد کر دیا اور ایک نئی پارٹی زیڈ پی ایم (زورم پویپلز مومنٹ) کو مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار سونپ دیا، کانگریس کی ہار اس قدر ذلت آمیز ہے کہ تلنگانہ کی جیت بھی مات ہو کر رہ گئی اور فتح کا جشن بھی تین ریاستوں کی ہار میں دب کر رہ گیا، ایکزٹ پول اور سیاسی تجزیہ نگار مدھیہ پردیش اور چھتیس گڈھ میں کانگریس کو اقتدار کے قریب بتا رہے تھے، لیکن ای وی ایم سے جو’’ جن‘‘ نکلا اس نے سب کو چونکا کر رکھ دیا، بی اس پی سپریمو مایا وتی نے اس نتیجے کو عجیب وغریب اور پر اسرار کہا ہے اور اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرور ت پر زور دیا ہے، انہوں نے کہا کہ پورے انتخاب کے دوران پارٹیوں کے ما بین کانٹے کی ٹکر تھی، لیکن نتائج بالکل اس کے بر عکس آئے، کانگریس نے بصد ادب واحترام عوام کی رائے کے سامنے سر جھکا دیا اور جن لوگوں نے انہیں ووٹ دیا اس کا شکریہ ادا کیا، اس کے علاوہ ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بچا ہی کیا تھا، وزیر اعلیٰ کا رسمی انتخاب بھی ہوگیاہے، کانگریس نے تلنگانہ میں پارٹی کے صدرریونت ریڈی کو وزیر اعلیٰ بنایا ہے، میزورم میں زیڈ پی ایم کے بانی ،سابق آئی پی اس اور سابق وزیر اعظم اندراگاندھی کی سیکوریٹی کے ذمہ دارلال دوہا ما بھی وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں،بھاجپا کو تینوں ریاستوں میں وزیر اعلیٰ کے کئی کئی دعویدار ہونے کی وجہ سے انتخاب میں تھوڑی دشواری ضروری ہوئی، خاص کر راجستھان اور مدھیہ پردیش میں پارٹی ہائی کمان کو جمنااسٹک کرنی پڑی، لیکن نریندر مودی ، امیت شاہ اور جے پی نڈا بغاوت کو دبانے میں کامیاب ہو گیے، اور اب چھتیس گڈھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب پارٹی ہائی کمان کی منشا کے مطابق ہو چکا ہے، راجستھان میں بھجن لال شرما ، چھتیس گڈھ میں وشنو دیو سہائے اور مدھیہ پردیش میں ڈاکٹر موہن یادو وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ان کے انتخاب میں بھاجپا نے ذات پر مبنی سیاست کا بھی خاص خیال رکھا ہے، راجستھان میں برہمن وزیر اعلیٰ کے ساتھ دونائب وزیر اعلیٰ راجپوت اور دلت نیز اسپیکر سندھی سماج سے بنایا ہے، مدھیہ پردیش میں یادو کو کرسی دے کر بہار اور اتر پردیش کے یادو وں کو پیغام دیا گیا ہے کہ ہمارے یہاں تمہارے لیے بھی موقع ہے، چھتیس گڈھ میں بتیس (۳۲) فی صد آدی باسی ہیں اور وشنو دیو سہایے اسی زمرے سے آتے ہیں، تینوں نام چونکا نے والے ہیں، اور سب سے تعجب خیز راجستھان میں پہلی بار رکن اسمبلی بنے بھنجن لال شرما کا انتخاب ہے، جس سے بھاجپا نے اپنے نوجوان کارکنوں کو خاموش پیغا دیا ہے کہ میرے ساتھ لگے رہو، تمہارے لیے کرسی منتظر ہے۔
راجستھان میں وجے راجے سندھیا اور مدھیہ پردیش کے شیو راج سنگھ چوہان، کو پارٹی نے حاشیہ پر ڈال دیا ہے، ان حضرات کی پارٹی توڑنے کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔یہ صحیح ہے کہ دونوں سابق وزراء اعلیٰ اپنی اپنی ریاستوں میںانتہاء مضبوط تھے، وجے راجے سندھیا دو بار راجستھان کی وزیر اعلیٰ رہیں، اور شیو راج سنگھ چوہان چار بار مدھیہ پردیش میں وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے، مگر بھاجپا کی اعلیٰ قیادت نے جب لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے لوگوں کو ’’مارگ درشک‘‘ منڈی میں ڈال دیا اور یہ لوگ چوں نہ کر سکے تو ان کے مقابل ان دونوں کی بساط ہی کیا تھی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اس جیت کو 2024 کے انتخاب میں فتح کا اشارہ اور ہیٹ ٹرک قرار دیا ہے، پارلیامنٹ کے باہر سرمائی اجلاس کے پہلے دن اخباروالوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ نو(9) سالوں میں حزب مخالف نے جو منفی ذہن بنایا ہے اس عادت کوان کو بدلنا چاہیے، اور شکست کا غصہ سدن میںنہیں نکالنا چاہیے، وزیر اعظم کا یہ کہنا ایک حد تک صحیح بھی ہے؛ لیکن پارلیامنٹ کو یوپی اے کے دور اقتدار میں اس نہج پر کام کرنے کا طریقہ بھاجپا نے ہی سکھایاتھا، جو انہوں نے کانگریس کے دور اقتدار میں کیا، وہی حزب اختلاف والے پارلیامنٹ میں اب ان کی حکومت میں کر رہے ہیں، جیسی کرنی ویسی بھرنی، اب کس کی طاقت ہے کہ اس طریقہ کار کو بدلے، پارلیامنٹ میں حکمراں طبقہ ہمیشہ حزب مخالف کو دبانے میں لگا رہتا ہے، صحیح اور سچی باتیں بھی مان کر نہیں دیتا، اکثریت کے بَل پر بغیر بحث کے بِل کو قانون بنا لیتا ہے تو حزب مخالف کے پاس شور، ہنگامے، احتجاج، مظاہرہ کے علاوہ کرنے کو اور بچتا بھی کیا ہے۔
جن تین ریاستوں میں کانگریس کی ہار ہوئی ہے، وہاں ووٹوں کے تناسب میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے،صرف مدھیہ پردیش میں فرق کچھ زیادہ ہے، بقیہ ریاستوں میں معمولی فرق سے بھاجپا کامیاب ہوئی ہے، الیکشن کمیشن کے ویب سائٹ کے مطابق چارریاستوں میں کانگریس کو بھاجپا سے ساڑھے نو لاکھ ووٹ زیادہ ملے، اس کے باوجود اسے ہار کا سامنا کرنا پڑا،اس کی ایک بڑی وجہ کانگریس کے تجربہ کار لیڈروں میں بر تری کی لڑائی رہی، راہل، پرینکا اور ملکا ارجن کھرگے، جی جان سے کانگریس کو فتح دلانے کے لیے بھاگ دوڑ کر تے رہے، لیکن کمل ناتھ، اشوک گہلوت، سچن پائلٹ، بھپیش بگھیل، ٹی ایس سنگھ دیو، اپنی اپنی ڈفلی بجاتے رہے۔
یہ ایک اچھی بات ہے کہ پارٹی نے سونیا گاندھی کی قیادت میں شکست کے اسباب وعلل کا تجزیہ شروع کر دیا ہے، ’’منتھن‘‘ کا یہ عمل چلتا رہے گا، لیکن ’’منتھن‘‘ تو ہزیمت کے اسباب کی تلاش کا نام ہے۔’’منتھن‘‘ علاج کا نام نہیں ہے، جب کہ شکست کے اسباب کا جائزہ لے کر ان اسباب کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
نتائج کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تلنگانہ میں کانگریس کی جیت کے باوجود بھاجپا ایک(۱) سیٹ سے نو(۹) سیٹ پر پہونچ گئی ہے، یہاں کانگریس سے کوئی مسلم امید وار کامیاب نہیں ہوسکا، مشہور کرکٹر اور سابق کپتان اظہر الدین بھی اپنی سیٹ نہیں نکال سکے،اس کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی ہند میں بھی ہندتوا نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے ہیں، ایم آئی ایم کے علاوہ کسی پارٹی سے بھی کوئی مسلمان جیت کر نہیں آسکا ہے،کانگریس کے سبھی چھ مسلم امیدوار اپنی جیت درج نہیں کراسکے، اس کا نقصان یہ ہوا کہ تلنگانہ حکومت میں کوئی مسلم چہرہ وزارت اور کابینہ میںنہیں آسکا،مدھیہ پردیش میں بھی دو ہی مسلمان آسکے۔ مسلمانوں میں انتشار کی وجہ سے یہ نوبت آئی، مسلم قائدین کو اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے۔
انتخاب کے اس غیر متوقع نتیجہ کی وجہ سے عظیم اتحاد ’’انڈیا‘‘ کے مستقبل پر بھی سوالات کھڑے ہوگیے ہیں اس کو 6 دسمبر کی میٹنگ ملتوی کرنی پڑی ،نتیش بیمار پڑ گئے۔اکھلیش کو شرکت کے لیے فرصت نہیں تھی۔ممتا بنرجی کے رشتہ دار کی شادی تھی۔اب اگلی میٹنگ 17دسمبر کو ہونی ہے، لیکن پارٹیوں کے درمیان سرد مہری اس قدر ہے کہ مقابلہ کے پہلے ہی ’’انڈیا اتحاد‘‘ منتشر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس شکست کے بعد کانگریس کی ہیکری تھوڑی کم ہوئی ہے۔اب شایدوہ زیادہ سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا مطالبہ ترک کر کے آپسی تال میل بنانے میں کامیاب ہو جائے۔تبھی ’’انڈیا اتحاد‘‘ باقی رہ پائے گا،اگر ایسا ہوتا ہے تو2024میں پارلیمنٹ کا نقشہ بدل بھی سکتا ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کھیل اور سیاست کی دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں