حج بیت اللہ:خداپرستی، وحدت ملی ، عشق الہی کابہترین مظہر

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شرک سے نفرت ، دعو ت حق اور بیت الہی کی تعمیر وتجدید کے ایسے زندہ وتابندہ نقوش خدا کی زمین پر چھوڑے، کہ خود خدا کو اپنے اس برگزیدہ ،وفاشعار بندے کی ادائیں محبوب ومرغوب ہو گئیں، اور حضرت ابراھیم ؐ کی دعاکا نتیجہ ہے کہ خانہ کعبہ کو رشد وہدایت امن وامان کاگہوارہ بنا نے کے ساتھ ہی اس کعبہ ابراہیمی کو وہ مقام عطا کیا کہ آنے والی تمام نسلوں کے لئے قبلہ مخصوص قرار دے دیا، جو ہمیشہ سے دینی ودنیوی برکتوں کا مرکزبناہوا ہے
خانہ کعبہ کو بحکم الہی حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا ، پھر اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام سے ا سکی تجدید فرمائی،اور تعمیر کا کام لیا،جو روئے زمین پر خداکی عبادت کے لئے سب سے پہلامقدس، پاکیزہ مبارک وبابرکت گھر ہے، جس کے بے شمار فضائل اور برکت وہدایت کی بہت سی نشانیاں ہیں،اللہ نے اس گھر کو عظمت و حرمت سے نوازا ہے۔
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خداکا ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
خداکے سامنے تسلیم ورضا کا شعار، اسلام کی یگانگت، عالمی اجتماع و اتحاد ، مساوات، وحدت ملی، عشق الہی کابہترین مظہر، تمام جسمانی ومالی عبادات کا مجموعہ، اخلاقی ، معاشرتی،قومی ، ملی زندگی کے ہر رخ و ہر پہلو پر حاوی ہونے کے ساتھ اسلام کی تمام عبادات میں حج ایک ایسی منفرد عبادت وفریضہ ہے جس میں اللہ نے روحانی ، اخلاقی،آفاقی منافع وبرکات کا خزانہ یکجافرمادیا ہے،یہ اسلام کی بڑی شان و امتیاز والی ایسی عبادت ہے کہ دنیاکا کوئی مذہب، کوئی تہذیب اسکی نظیرو مثال نہیں پیش کرسکتی اور نہ ہی دنیا کاکوئی سماجی، مذہبی، ملی اجتماع اس کا مقابلہ کرسکتا ہے حج اسلام کاایسا ستون ہے جہاں سارے امتیا زات بالائے طاق رکھ کر رنگ ونسل،زبان وقوم کا فرق دم توڑ دیتا ہے،لباس او ر نظریئے کی تفریق کا خاتمہ ہوجاتا ہے،امیر وغریب، شاہ وگدامیں کوئی تمیز نہیں رہتی، نفرت وکدورت کی خلیج پیاور ومحبت میں بدل جاتی ہے،عربی وعجمی، کالے اور گورے سب ایک صف میں کھڑے اور ایک ہی فقیرانہ لباس میں نظر آتے ہیں،او ر رب ذوالجلال کے در پر پروانہ وار طواف کرتے ہوئے’’ لبیک الھم لبیک‘‘کے پاکیزہ کلمات کے ذریعہ اپنی عبدیت وبندگی کا اظہار کرتے ہوئے تڑپ،جوش، ولولے کے ساتھ وہ خانہ خدااور دیگر مقامات مقدسہ پر حاضر ہوتے ہیں، جہاں زم زم کا چشمہ حیات حضرت اسمعیل علیہ السلام کے لئے نصر ت الہی کی یاد دلاتی ہے،صفا ومروہ کی سعی سے ایک بندہ صالحہ حضرت ہاجرہ ؐکی بے چینی اور بے تابی کی یاد تازہ ہوتی ہے،پھر منی کی قربانی اس ذبح عظیم کی یاد گار ہے، جس میں حضرت ابراہیمؐ اپنے لخت جگر کواللہ کی خوشنودی اور اسکی رضا کی خاطر قربان کرتے ہیں، جمرات کی کنکریاں عزم ابراہیمی اور وسوسہ شیطانی سے پنجہ آزمائی کا اظہا رہے،جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہرعبادت کا جوہراور ہر عبادت کی روح اس میں زندہ وتابندہ ہے،اس میں نماز بھی ہے،اور روزے کا مجاہدہ اور اسکی مشقت بھی،زکوۃ سے کہیں زیادہ مالی ایثار بھی اور جہاد کی طرح سپاہیانہ، مجاہدانہ زندگی کی جھلک بھی،اور یہی حج کی شان وجامعیت ہونے کے ساتھ ہی اسلامی نظام اجتماعیت کی واضح مثال بھی ہے۔
حج میں کس قدر روح پرور اور عجیب وغریب عاشقانہ منظر ہوتا ہے کہ سب ایک طرز کے سادہ لباس کے ساتھ ننگے سر،ننگے بال ،کبھی کعبہ میں کبھی عرفہ میں،کبھی مزدلفہ میں،کبھی ملتزم سے چمٹے جاتے ہیں،توکبھی مقام ابراھیم پراللہ کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں،توکبھی ہجراسود کو بوسہ دیتے ہیں سینکڑوں گلاف کعبہ سے لپٹے ہوئے گریہ وزاری کررہے ہیں،تو کبھی رکن یمانی کا استلام کرتے ہیں کچھ کعبہ کی چوکھٹ تھامے خشوع وخضوع کے ساتھ استغفار میں مستغرق ہیں، مسجد حرام کی مقدس زمین پرسجدے میں پڑے ہوئے ہیں،اور رو روکرر و روکر دعائیں اور التجائیں کر رہے ہیں۔ 
عاشق جب دیار حبیب کا طواف کرتے اور گلی کوچوں کا چکر لگانے کے ارادے سے نکلتا ہے تو اس پر بہت ساری پابندیاں عائد کردی جاتی ہیں،کہ وہاں بیت اللہ کی وردی یعنی احرام کے بغیر نہیں جاسکتا،بال اور ناخن نہیں تراش سکتا،سلاہوا کپڑا نہیں پہن سکتا،خوشبو اور تیل نہیں لگاسکتا،اور نہ سر اور چہرہ ڈھانپ سکتا ہے،گویا ایسی شکل و صورت اور ایسی ہیئت میں رہنے کا پابندبنادیاجاتا ہے، جیسے ایک دیوانہ وار و عاشق زار رہتا ہے، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جلال کبریائی سے قلوب پگھل پگھل کرپانی ہورہے ہیں،سب ہاتھ پھیلا ئے رب ذوالجلال کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں،نادم وشرمند ہ ہیں،دعائیں اور التجائیں ہیں،گناہوں کا اقرار توبہ و استغفار ہے،بڑے خوش نصیب ، سعادت مند وقسمت والے ہیں وہ لو گ جن کو اس عظیم فرض کی ادائے گی کا موقع نصیب ہوتا ہے اور حضرت ابراھیمؐ، حضرت اسمعیلؐ اور حضرت محمد ﷺ کے بنائے ہوئے خانہ خدا میں سر بسجود ہوتا ہے،جومانگنا ہے مانگ لو،دین کے لئے بھی اور دنیا کے لئے بھی،اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی،بڑے کریم و رحیم کا دربار ہے،جو یہاں آنے والوں کو محروم ومایوس نہیں جانے دیتا۔ 
آ پ ﷺ نے فرمایا کہ حج اور عمرہ گناہوں کو اس طرح پاک وصاف کردیتے ہیں، جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل اور کھوٹ کو صاف کردیتی ہے،اورجو مسلمان حج کو نہیں جاسکے، اللہ تعالی نے انھیں یہ انعام عطافرمایا ہے کہ وہ حاجیوں کی نقل کرلیں تو انھیں بھی اجر وثواب ملے گا، اس طرح سے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آتے ہی ابتدائی دس دنوں میں بال او ر ناخن وغیرہ کانہ تراشنا،اور نویں تاریخ سے تکبیر وتحمیدبلند آواز سے پڑھنا،اورقربانی کرنا،کیونکہ یہ عمل حاجیوں کا بھی ہوتا ہے، مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ،فرماتے ہیں کہ خودحاجی ہوناتو اللہ کاکرم ہے،حاجیوں کی نقل کرنا باعث اجر وثواب ہے۔ اور ضرور ت اس بات کی ہے کہ ملت اسلامیہ وقت کی نزاکت کومحسوس کرکے اسلام کے اس اجتماعی نظام کو اپنی زندگی میں بسائے، خداپرستی ہی وہ بنیاد ہے جس پر انسانیت متحد ہوسکتی ہے۔
اللہ ہم سب کو حج مبارک کی عظیم نعمت سے نوازے،حرم شریف میں ایک بڑی کرین کے گرجانے کے حادثہ میں اپنے مالک حقیقی سے ملنے والے تمام حجاج کرام کوجنت الفردوس عطافرمائے، ان کے ورثہ کو صبرجمیل،زخمی عازمین حج کو جلد صحت یابی عطافرمائے،اور تما م قارئین سے دعاکی درخواست، کیونکہ مانگنا عبادت کا مغز،اور مولاوبندے کے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ ہے ۔

«
»

مہاراشٹر کے بعد کیا بہار کی باری ہے؟

یہودی مافیا کا نیا حربہ۰۰۰ فلسطین کی نئی نسل کو منشیات کی لت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے