جو ہندوستان جیسے غریب ملک کے مسلمانوں کی استطاعت کے مطابق تھا لیکن ۳۲سال سے حکومت نے بحری جہازوں سے حج کرنے پر پابندی عائد کردی، ہندوستان میں حج کا پورا نظام سرکاری کنٹرول میں ہے لہذا عازمین حج کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا کہ وہ حکومت کی مرضی کے آگے سر جھکا دیں، اُس وقت دلیل یہ دی گئی کہ سعودی حکومت نے بحری جہازوں سے حج کے سفر پر پابندی عائد کردی ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ایک بے بنیاد عذر ہے کیونکہ آج بھی دنیا کے مختلف ممالک سے بڑی تعداد میں عازمین حج بحری راستہ سے سعودی عرب پہونچ کر حج ادا کرتے ہیں۔
ہندوستانی عازمین حج پر ہوائی جہاز سے سفر کی پابندی غالباً اس لئے عائد کی گئی ہے کہ سرکاری ایر لائن (ایر انڈیا) کو اس کا فائدہ پہونچ سکے، حج کی ادائیگی کے گہرے ذوق وشوق کی وجہ سے مسلمانوں نے اُسے بھی برداشت کرلیا، لیکن جس برق رفتاری سے حج کے دیگر اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے خاص طور پر ایرٹکٹ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی رہائش کا کرایہ بڑھایا جاتا رہا ہے ، اس کی وجہ سے گزشتہ سات سال میں حج کے اخراجات دوگنے ہوگئے ہیں۔
بظاہر حکومت سینٹرل حج کمیٹی کے وسیلہ سے سفر حج کے اخراجات پر سبسڈی دیتی ہے لیکن ایک ہاتھ سے دیکر اسے دوسرے ہاتھ سے وصول کرلیا جاتا ہے اور سب کی زبان پر یہی رہتا ہے کہ حکومت مسلمانوں کے مذہبی امور میں سرکاری مدسے کروڑوں کی رقم خرچ کررہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے حج کے سفر پر مسلمانوں کو سبسڈی نہیں دی جاتی بلکہ یہ ایر انڈیا کیلئے ہوتی ہے کیونکہ ایر انڈیا کے ٹکٹ کی قیمت حج کے موقع پر یکایک بڑھادی جاتی ہے جبکہ دوسری ایرلائین کا ٹکٹ کافی کم ہوتا ہے۔اسی سال کے بارے میں یہ اطلاع ہے کہ حج کمیٹی سے دوبارہ حج پر جانے والوں سے حج کمیٹی ۷۵ہزار روپے کرایہ وصول کررہی ہے۔ جو اصل کرایہ سے تین گنا ہے۔ آخر یہ اندھیر کب تک جاری رہے گی، پہلی مرتبہ جانے والوں سے بھی کرایہ کے نام پر موٹی رقم لی گئی ہے۔اس کا علاج یہی ہے حج کمیٹی کو ’’حج کارپوریشن‘‘ کا درجہ دے کر بااختیار بنادیا جائے جو حج کے سفر کیلئے گلوبل ٹینڈر منگاکر سستے کرایہ پر طیارے حاصل کرے اور ایر انڈیا کے عمل ودخل ختم کردیا جائے جس کے بعد حکومت کی طرف سے ملنے والی حج سبسڈی کی بھی ضرورت نہیں رہے گی، یا پھر حکومت ہند ، اس کی وزارت خارجہ اور حج کمیٹی آف انڈیا کارگر اقدامات عمل میں لائیں اور ایسا نظام مرتب کریں کہ حج کے لئے ملنے والی سبسڈی کاجہاں صحیح استعمال ہو وہیں سعودی حکومت پر بھی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنے بعض غیر ضروری اخراجات واپس لے مثال کے طور پر معلم کی فیس کے نام پر جو ایک بڑی رقم وصول کی جاتی ہے اب اس کا کوئی جواز نہیں رہا ہے کیونکہ پہلے کی طرح معلم حضرات آج نہ حجاج کرام کی دیکھ بھال کرتے ہیں، نہ ان کی تربیت ورہبری کی ذمہ داری نبھاتے ہیں ہر حاجی کو یہ شکایت رہتی ہے کہ اس نے اپنے معلم کو چہرہ تک نہیں دیکھا۔ بیشتر عازمین حج مناسک حج کی ادائیگی کا طریقہ ہندوستان سے سیکھ کر جاتے ہیں، معلموں کے کارندوں کا صرف یہ کام رہ جاتا ہے کہ وہ جدہ سے مکہ مکرمہ کی قیام گاہ تک اور وہاں سے منیٰ وعرفات حاجیوں کو لے جائیں اور واپس لائیں اور یہ کام بھی وہ اطمینان بخش طور پر انجام نہیں دیتے لہذا سعودی حکومت سے گزارش کی جائے کہ وہ معلموں کے نظام پر نظر ثانی کرے تاکہ معلموں کی فیس ادا کرنے کے بوجھ سے حجاجِ کرام کی گلو خلاصی ہوسکے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے، آزادی کے۶۷ سال ہوگئے ہیں، ملک کے دوسرے طبقوں کا معیار زندگی کافی بلند ہوگیا لیکن مسلمانوں کی پسماندگی ازہر من الشمس ہے لہذا غریب ہندوستانی مسلمانوں کیلئے حج کا ہوائی سفر اور روز افزوں دیگر اخراجات کافی گراں ثابت ہورہے ہیں ، غریب اور متوسط طبقہ کے مسلمان پہلے بھی بحری راستہ سے جاکر حج کیا کرتے تھے، اس سلسلہ کو بند کرنے کے بعد ہی سفر حج پرسبسڈی فراہم کرنے کا آغاز ہوا ہے، اول حکومت ہند اس سبسڈی کا مناسب استعمال کرے ورنہ پھر سستے بحری جہاز چلائے تاکہ مسلمان سستے کرایہ میں سفر حج کرسکیں۔
جواب دیں