تحریر! جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے یعنی مذہب اسلام کے پانچ رکن ہیں توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور پانچواں رکن حج ہے اور آجکل حج کا سیزن بھی چل رہا ہے مطلب یہی وہ وقت ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے فرزندان توحید کا حج بیت اللہ کیلئے روانگی کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے اور جاری رہتا ہے لیکن سمجھ میں نہیں ارہا ہے کہ امسال احتیاطی تدابیر کہا جائے یا بدنصیبی کہا جائے کہ معاملہ امسال کچھ اور ہے یعنی سعودی عرب کے علاوہ دیگر ممالک کے مسلمانوں کے لئے امسال حرم کے دروازے بند ہیں یوں تو ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کعبۃ اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس کا طواف کرے اس لئے خوش نصیب ہے وہ مسلمان جس کو یہ سعادت حاصل ہوئی اور یہ مقدر کی بات ہے ورنہ بڑے بڑے سرمایہ کار و سرمایہ دار اس دنیا میں ہیں اور کتنے اس دنیا سے رخصت ہوگئے انہیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسی پاک و مقدس سرزمین پر جانا نصیب نہیں ہوا اور بہت سے ایسے مسلمان بھی ہیں جنہیں دیکھ کر یہ محسوس نہیں کیا جاسکتا کہ یہ وہاں تک پہنچیں گے لیکن اللہ کا کرم ایسا کہ سارے وہم وگمان کو توڑتے ہوئے ان کی قسمت وہاں تک پہنچا تی ہے اور انکے مقدر کا ستارہ روشن ہوتا ہے حج مقدس ترین عبادت ہے حج کی فضیلت یہ ہے کہ احادیث کی کتابوں میں یہ روایت ملتی ہے کہ جس نے حج کیا اور جس کا حج بارگاہ خداوندی میں قبول ہوگیا تو گویا اس کے سارے گناہ معاف ہوگئے اور وہ ایسا ہوگیا جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے یعنی گناہوں سے پاک و صاف ہوگیا اب آگے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو معصوم رکھتا ہے یا پھر دنیاوی رنگ میں اپنی زندگی کو رنگتا ہے حج کے لیے جائے تو دل میں خلوص کا ہونا ضروری ہے حج سے قبل حقوق العباد کی ادائیگی بھی ضروری ہے لین دین کا سارا معاملہ پاک وصاف کرنا ضروری ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی اتنی مہلت دی ہے کہ جب وسعت ہوجائے تب حج کرنے جاؤ گھر سے پوری طرح فراغت پاجاؤ تب حج کرنے جاؤ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حج کرنے کے بعد اب اتنی ہی پاک صاف زنگی گزارنی ہے جتنی پاک صاف زندگی بندہ حج کے ایام میں گزارتا ہے دل میں یہ خیال ہی نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ میرے پاس دولت تھی تو میں حج کرنے آیا یا میں نے حج کرلیا بلکہ دل میں یہی خیال رہنا چاہیے کہ بس اللہ رب العالمین کا فضل ہے کہ میں اس کے دربار میں پہنچا اور اس کے محبوب کے مقدس آستانے پر حاضری کا شرف حاصل ہوا اور جب یہ شرف حاصل ہوا تو اب ضروری ہے کہ اہل وعیال کی فکر نہ کرے، کاروبار کی فکر نہ کرے بس اللہ پر بھروسہ کرے، اللہ سے لولگائے، اللہ سے مدد طلب کرے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا کا واقعہ یاد کرے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اور اپنی بیوی حضرت ہاجرہ کو جنگل و بیابان میں چھوڑ کر چل دیئے حضرت ہاجرہ نے بار بار آواز دی لیکن ابراہیم علیہ السلام پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہے ہیں جس جگہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑا تھا وہاں کھانے پینے کا کوئی سامان نہیں تھا پانی بھی میسر نہیں تھا جب حضرت ہاجرہ کو یقین ہوگیا کہ ابراہیم علیہ السلام پلٹنے والے نہیں ہیں تب یہ پوچھا کہ آخر ہمیں اس بیابان میں جہاں چرند و پرند بھی نہیں ہیں نہ کچھ کھانے کیلئے ہے نہ کچھ پینے کے لیے ہے آخر کس کے حوالے کس کے بھروسے پر چھوڑ کر جارہے ہیں ہماری دیکھ بھال کون کرے گا تب ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نگہبان ہے اللہ کے بھروسے پر چھوڑ کر جارہا ہوں اتنا سننا تھا کہ ہاجرہ کو اطمینان ہوگیا اور کہا کہ تب جاؤ بیشک اللہ ہماری حفاظت کریگا یہی وہ مقام ہے جسے صفا مروہ کے نام سے جانا جاتا ہے جو اللہ کی نشانیوں میں سے ہے جہاں پانی کی تلاش میں حضرت ہاجرہ سات مرتبہ دوڑیں یہ ادا اللہ تبارک و تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ حج کے ارکان میں شامل کردیا ہر حاجی کو صفا مروہ کی سعی کرنا ہے اللہ پر توکل کا یہ صلہ ملا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑیں اور اللہ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام نے پر مارا اور پانی کا چشمہ جاری ہوا جسے آج ہم آب زمزم کہتے ہیں جو دنیا کا سب سے پاکیزہ پانی ہے جو شفاؤللناس ہے جس میں ہر مرض کی شفا ہے ایسی مقدس سرزمین پر جاکر کسے دنیا یاد رہے گی جہاں دن رات اللہ کی رحمتیں برستی ہیں مکہ مکرمہ وہ شہر ہے جسے اللہ نے بلدالامین کہا ہے مکہ وہ شہر ہے کہ اللہ نے جس کی قسم کھائی ہے مکہ وہ شہر ہے جسے اللہ نے ام القریٰ کا درجہ عطا فرمایا ہے یعنی ساری بستی کی ماں قرار دیا ہے مکہ وہ شہر ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے سید الکونین شہنشاہ عرب وعجم صل اللہ علیہ وسلم کی ولادت فرمائی ہے جہاں غارحرا ہے جہاں قرآن کی پہلی وحی نازل ہوئی ہے مکہ وہ شہر ہے جہاں خانہ کعبہ ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ایسے پاکیزہ شہر اور مقدس بستی میں پہنچیں اور اس سے بھی زیادہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ حج بیت اللہ کیلئے حاضری کی سعادت نصیب ہوجائے ایسی پاک سرزمین پر پہنچ کر صرف عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لبىك اللھم لبیك لبىك لاشریک لك لبىك ان الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك لبيك کی صدائیں بلند کرتا رہے اور اپنے آپ کو ایک مجرم سمجھے دلوں میں تقویٰ پیدا کرے خوف خدا سے پورا جسم لرزہ براندام رہے دل میں یہ خیال رہے کہ ائے اللہ میں گنہگار و خطاکار ہوں سیاہ کارہوں تیری عدالت اور تیری بارگاہ میں آج حاضر ہوں بیشک توہی خالق ومالک ہے عزت و ذلت، زندگی اور موت سب کچھ تیرے ہی قبضہ قدرت میں ہے تو ہماری حاضری کو قبول فرمالے ہمارے دلوں کو روشن فرمادے ہمارے گناہوں کو معاف کردے ساتھ ہی ساتھ حج بیت اللہ کی جنہیں سعادت حاصل ہوئی ہے وہ اپنی آنکھوں سے اسلامی مساوات بھی دیکھیں اور اللہ کا انصاف بھی دیکھیں کہ بادشاہ اور فقیر، آقا اور غلام، عربی اور عجمی، گورے اور کالے سب کا ایک ہی لباس ہے ایک کپڑا اوڑھنا ہے اور ایک کپڑا لپیٹنا ہے یہیں سے قبر کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ چاہے بڑے سے بڑا امیر، حکمراں بھی جب موت کی نیند سوئے گا تو قبر میں دفن ہوگا اوپر سے مٹی ڈال دی جائے گی کسی نے آج تک یہ وصیت نہیں کی کہ میری قبر میں ٹائلس لگا دینا بہترین قسم کی قالین بچھا دینا دنیا میں چاہے کوئی کتنا ہی کسی کے ساتھ حق تلفی کرے لیکن مرنے کے بعد آخرت کی پہلی منزل قبر سے ہی انصاف شروع ہوجاتا ہے یہ اللہ کا قانون ہے اور میدان عرفات میں ایک اور سبق ملتا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور لوگ عرفات کے میدان میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے بھی رہتے ہیں کاش اسی طرح ہمیشہ تھامے رہتے تو آج امت مسلمہ انتشار کا شکار نہیں ہوئی ہوتی اور پوری دنیا میں ذلیل و خوار بھی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو ایک موقع دیا ہے زندگی میں انقلاب لانے کا جہنم سے نجات پانے کا اور جنت کا حقدار بننے کا لہٰذا ہر حاجی کیلئے ضروری ہے کہ اس مقدس سرزمین سے اپنے آپ کو رب کے قرآن اور نبی کے فرمان کے سانچے میں ڈھال کر آئے اس کے بعد تا عمر ایسا ڈھلا رہے کہ لوگ اس سے متاثر ہوں اور انہیں دیکھ کر اپنے آپ کو تخیُل کی شاہراہ پر سوار ہو کر سوچیں اور غور کریں اور اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں اور ہر حاجی اس مقدس سرزمین پر پوری امت مسلمہ کی خیر و بھلائی کی اور ملک میں امن و سلامتی کی دعا کریں اور جب مدینہ منورہ جائیں اور دربار رسالت میں حاضر ہوں تو پوری امت کا سلام پیش کریں انتہائی ادب و احترام کے ساتھ نگاہیں جھکی ہوئی رکھیں اور دل میں یہ بھی خیال رکھیں کہ ہم اس قابل تو نہیں کہ اس دربار میں پہنچیں لیکن یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کی بات ابتک بنی ہوئی ہے اپنے حالات پر نظر ڈالیں اور آنکھوں سے ندامت کے آنسو برسائیں کیونکہ جو کچھ بھی بھلا ہونا ہے وہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسليم کے صدقے میں ہی بھلا ہونا ہے آخر میں دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حج بیت اللہ کیلئے جانے والے مسلمانوں کا حج رسول اکرم صل اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے میں قبول فرمائے اللھم آمین یا رب العالمین بجاہ نبیک سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وصحبہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین –
مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
16جولائی ۲۰۲۰(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں