حج کے سفر میں نماز قصر کرنے کے ضروری مسائل

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

۸ ہجری میں مکہ مکرمہ فتح ہوا اور ۹ ہجری میں حج فرض ہوا،یعنی مدینہ منورہ کی ہجرت کے بعد سے آٹھ سال تک مسلمان حج ادا نہیں کرسکے۔ ۹ ہجری کو آپ ﷺ نے حج ادا نہیں کیا بلکہ صحابۂ کرام کی ایک جماعت نے خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں حج ادا کیا۔ آئندہ سال۱۰ ہجری کو آپﷺ نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابۂ کرام کے ہمراہ حج ادا کیا، جس کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ حج کرنے کے صرف تین ماہ بعد آپ ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا حج کا مکمل سفر پندرہ روز سے کم کا تھا۔ نبی اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ۴۸ میل (۷۸ کیلومیٹر) کی دوری کے سفر کے دوران اور منزل پر پہنچنے کے بعد پندرہ روز سے کم قیام پر ظہر، عصر اور عشا کی نمازوں میں قصر (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو رکعت فرض) کی جاتی ہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے حج کے پورے سفر میں یعنی مدینہ منورہ کی واپسی تک ظہر، عصر اور عشا کی نمازیں چار کے بجائے دو رکعت پڑھائیں۔ ابتداء اسلام سے ہی فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قصر سفر کی بنیاد پر کی یا حج کی بنیاد پر۔ علماء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ سفر حج میں حضور اکرم ﷺ کا قصر کرنا حج کی بنیاد پر تھا، جبکہ دیگر علماء جن میں علماء احناف بھی شامل ہیں، کی رائے ہے کہ شرعی سفر کی بنیاد پر قصر کرنے کا مسئلہ شریعت اسلامیہ میں مسلّم ہے، لیکن حج کی وجہ سے قصر کرنے کی کوئی واضح دلیل قرآن وحدیث میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہی کہا جائے گا کہ حضور اکرمﷺ کا سفر حج میں قصر کرنا سفر کی وجہ سے تھا نہ کہ حج کی وجہ سے، کیونکہ اگر حج کی وجہ سے قصر کا حکم ہوتا تو حضور اکرم ﷺ جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے رہبر بناکر بھیجے گئے، کم از کم ایک مرتبہ ضرور ارشاد فرماتے کہ میں نے اس سفر میں قصر سفرکی وجہ سے نہیں بلکہ حج کی وجہ سے کیا ہے اور پوری امت ہمیشہ حج میں قصر کرے، لیکن ذخیرۂ حدیث میں اس سلسلہ میں حضور اکرم ﷺ کا ایک فرمان بھی موجود نہیں ہے۔ صرف بعض علماء کا یہ کہنا کہ آپ ﷺ کا مکہ مکرمہ والوں کو نماز مکمل کرنے کا حکم کتب حدیث میں موجود نہیں ہے، کسی ایسے شرعی حکم کے اثبات کے لیے کافی نہیں ہے جس کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے پوری زندگی میں ایک مرتبہ بھی نہیں کہا۔ آپ ﷺ کے بعد صحابۂ کرام سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا سفر حج میں قصر کرنا حج کی بنیاد پر تھا۔ ہند وپاک کے جمہور علماء بھی یہی فرماتے ہیں کہ حج میں قصر صرف دو جگہوں پرہے: مسجد نمرہ (عرفات ) میں ظہر وعصر کی نماز امام کے ساتھ پڑھنا اور مزدلفہ میں عشا کی نماز مغرب کے وقت میں ادا کرنا کیونکہ ان کے متعلق شریعت اسلامیہ میں واضح دلیل موجود ہے ۔ ان دو جگہوں کے علاوہ تمام نمازیں حجاج کرام اگر مقیم ہیں تو ظہر، عصر اور عشاکی نماز چار رکعت ادا کریں اور اگر مسافر ہیں تو دو رکعت ادا کریں ۔لہٰذا اگر کوئی حاجی ۸ ذی الحجہ کو منی جانے سے قبل مکہ مکرمہ میں پندرہ روز یا اُس سے زیادہ قیام کرتا ہے تو وہ مقیم ہوجائے گا۔ اور وہ ۸ ذی الحجہ سے ۱۳ ذی الحجہ کی نمازیں قصر نہ کرکے پوری پڑھے گا۔ ہاں اگر کوئی حاجی پندرہ روز سے کم مکہ مکرمہ میں قیام کرکے منی روانہ ہو تو وہ منی، مزدلفہ اور عرفات میں ظہر ، عصر اور عشا کی نمازیں دو درکعت ادا کرے گا۔ غرضیکہ ہندوپاک سے آنے والے حجاج کرام اگر مکہ مکرمہ میں پندرہ روز یا اُس سے زیادہ قیام کرکے منی جارہے ہیں تو مقیم ہیں ورنہ مسافر۔ 
سعودی عرب کے مختلف علاقوں مثلاً مدینہ منورہ، ریاض، الدمام، تبوک، جازان اور نجران سے حج پر آنے والے حضرات عموماً پندرہ روز سے کم کے سفر پر حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ آتے ہیں، اس لیے وہ شرعی مسافر ہونے کی وجہ سے اس پورے سفر میں قصر کریں یعنی ظہر، عصر اور عشا کی فرض نماز چار کے بجائے دو رکعت ادا کریں۔ ہاں اگر وہ کسی مقیم امام کے پیچھے کوئی نماز پڑھیں تو پھر انہیں چار رکعت ہی ادا کرنی چاہئے کیونکہ کوئی بھی مسافر اگر مقیم امام کے پیچھے ظہر، عصر اور عشا کی نماز پڑھے گا تو اسے چار رکعت ہی ادا کرنی ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی مقیم کسی مسافر کے پچھے نماز پڑھے گا تو مسافر امام دو رکعت پر سلام پھیردے گا لیکن مقیم مقتدی کو چار رکعت مکمل کرنی ہوں گی۔ 
علماء احناف کی رائے ہے کہ چونکہ قصر شرعی سفر کی بنیاد پر ہوتا ہے، لہٰذا مکہ مکرمہ کے رہنے والے حج کے دوران قصر نہ کریں، یعنی ظہر، عصر اور عشا کی چار رکعت ہی ادا کیں۔ موجودہ دور کے سعودی علماء کی بھی یہی رائے ہے کہ اب چونکہ منی مکہ مکرمہ کی آبادی سے مل گیا ہے اور منی مکہ مکرمہ کے محلوں میں سے ایک محلہ بن گیا ہے، لہٰذا مکہ والے حج کی ادائیگی کے وقت منی کے قیا م کے دوران ظہر، عصر اور عشا کی چار رکعت ہی ادا کریں جس طرح وہ حج کی ادائیگی کے دوران مکہ مکرمہ میں چار رکعت ادا کرتے ہیں۔ 
جدہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان کا فاصلہ اگرچہ ۴۸ میل (۷۸ کیلومیٹر) سے زیادہ کا ہے، لیکن اب شہر جدہ اور مکہ مکرمہ کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ دونوں شہروں کی باہری آبادی کے درمیان کا فاصلہ ۶۰ کیلو میٹر سے بھی کم رہ گیا ہے۔ اس لیے موجودہ دور کے علماء حتی کہ سعودی علماء بھی یہی فتوی دیتے ہیں کہ اب جدہ اور مکہ کے درمیان شرعی مسافت باقی نہیں رہی، یعنی جدہ والے مکہ مکرمہ میں اور اہل مکہ جدہ میں قصر نہیں کرسکتے۔ البتہ حج کے سفر میں مقصود عرفات کا میدان ہوتا ہے اور جدہ والے عموماً مکہ مکرمہ آئے بغیر جدہ سے سیدھے منی اور عرفات چلے جاتے ہیں، نیز حج کے دوران راستوں کی تبدیلی کی وجہ سے جدہ سے منی اور عرفات کا راستہ کافی لمبا ہوجاتا ہے، اس وجہ سے جدہ والے عازمین حج مسافر بن جاتے ہیں اگر وہ جدہ سے براہ راست عرفات جارہے ہیں۔ ہاں اگر جدہ والے بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے پہلے مکہ آرہے ہیں اور پھر وہاں سے منی اور عرفات کی روانگی کا ارادہ ہے تو پھر احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ وہ حج کے دوران قصر نہ کریں کیونکہ اس صورت میں وہ مسافر نہیں رہیں گے۔ 
جیسا کہ واضح ہوگیا کہ حج کے پانچ مخصوص ایام میں ظہر، عصر اور عشا کی نماز کے متعلق فقہاء وعلماء کا اختلاف ہے کہ چار رکعت پڑھی جائیں یا دو رکعت۔ ہر سال منی کے خیموں میں یہ موضوع بحث بنتا ہے، جس کی وجہ سے قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔ میں عازمین حج سے اپیل کرتا ہوں کہ اس موقع پر بحث ومباحثہ نہ کرکے ہر شخص کو اپنے علماء کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے دیا جائے، اپنی رائے کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ زمانۂ قدیم سے اس مسئلہ میں فقہاء وعلماء کا اختلاف چلا آرہا ہے۔ البتہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر مسافر ظہر یا عصر یا عشا کی نماز دو رکعت کے بجائے چار رکعت ادا کرلے اور دوسری رکعت میں حسب معمول قعدہ (التحیات) میں بیٹھے تو نماز ادا ہوجائے گی۔ اس لیے جب شک وشبہ ہوجائے کہ چار رکعت پڑھی جائے یا دو رکعت تو چار رکعت ادا کرلیا کریں تاکہ نماز صحیح ادا ہوجائے کیونکہ اس طرح کے مختلف فیہ مسائل میں احتیاط پر عمل کرنا بہتر ہے۔ 
نماز میں قصر صرف ظہر، عصر اور عشا کی فرض رکعات میں ہے۔ نماز فجر کی دو رکعت اور نماز مغرب کی تین ہی رکعت ادا کی جاتی ہیں۔ نیز سنن ونوافل میں کوئی قصر نہیں ہے۔ اگر آپ کے پاس وقت ہے تو سفر میں مکمل سنن ونوافل ادا کریں اور اگر دشواری ہے یا وقت کی تنگی ہے تو سفر میں سنن ونوافل چھوڑنے کی اجازت ہے، لیکن وتر کی نماز نہ چھوڑیں۔ حج کے مخصوص ایام میں حجاج کرام کو مختلف موضوعات پر بحث ومباحثہ اور دنیاوی امور پر گفتگو کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کا ذکر، قرآن کریم کی تلاوت، دعاؤں کا اہتمام، سنن ونوافل کی ادائیگی اور دیگر حجاج کرام کی خدمت میں لگانا چاہئے۔ 
بعض حجاج کرام سفر کے دوران نماز کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، حالانکہ انہیں پوری زندگی خاص کر اس مبارک سفر میں ایک نماز بھی قضا نہیں کرنی چاہئے بلکہ وہ ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنے کی پوری کوشش کریں۔ اگر ہوائی جہاز میں نمازپڑھنے کی کوئی مستقل جگہ نہیں ہے اور منزل پر پہنچے پر نماز کا وقت ختم ہوجائے گا تو اپنی سیٹ پر بیٹھ کر ہی نماز پڑھ لیں خواہ رخ قبلہ کی طرف ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح ہوائی اڈے پر بھی نماز کو وقت پر ادا کرنے کی کوشش کریں، عمومی طور پر ہوائی اڈوں پر نماز پڑھنے کی مخصوص جگہ ہوتی ہے، البتہ وضو کرنے اور نماز پڑھنے میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہماری وجہ سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو، نیز ہر ملک کے قوانین کا خیال رکھیں۔ 
تحقیقی بات یہی ہے کہ عید الاضحی کی قربانی ہر صاحب حیثیت پر واجب ہے، البتہ مسافر پر عید الاضحی کی قربانی واجب نہیں ہے۔ لہٰذا جو حجاج کرام ایام حج میں مقیم ہیں تو انہیں عید الاضحی کی قربانی بھی کرنی چاہئے، عید الاضحی کی قربانی وہ منی میں کرسکتے ہیں اور اپنے ملک میں بھی کرواسکتے ہیں۔ البتہ جو حجاج کرام حج کے مخصوص ایام میں مسافر ہیں تو اُن پر عید الاضحی کی قربانی واجب نہیں ہے۔ جو حضرات حج تمتع یا حج قران کرتے ہیں اُن پر حج کی قربانی کرنا واجب ہے، حج افراد میں قربانی کرنا واجب نہیں مستحب ہے، جو حدود حرم یعنی مکہ مکرمہ یا منی میں ہی کرانا ضروری ہے، حج کی قربانی عیدالاضحی کی قربانی سے الگ ہے۔

«
»

مدینہ منورہ میں حجاج کرام کی آمد کا سلسلہ جاری

کانگریس پر ’’مسلم تشٹی کرن ‘‘کے الزام کی حقیقت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے