فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسد

حفیظ نعمانی

لوک سبھا کی 72  سیٹوں کے جن ریاستوں میں الیکشن ہوئے ان میں بنگال بھی تھی اور سابقہ روایت کے مطابق بنگال میں ترنمول کانگریس کے ورکروں سے مودی، یوگی اور امت شاہ کے تیار کئے ہوئے مرغ جگہ جگہ ٹکرا رہے تھے۔ اور ہگلی ضلع کے ”سپرا میسور“ میں وزیراعظم کی زبان پولیس کی لاٹھی کی طرح چل رہی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ 23  مئی کو جب نتیجے آئیں گے تو پورے بنگال میں ہر طرف کمل کھلا ہوا دکھائی دے گا اور ممتا بنرجی کے 40  ایم ایل اے جو ہمارے رابطہ میں ہیں دیدی کو چھوڑکر ہمارے پاس بیٹھے ہوں گے۔ وزیراعظم کو ممتا بنرجی نے کنکر والے رسوگلا پیش کرنے کے بارے میں کہا تھا ان کا اشارہ تھا کہ وہ جو بنگال سے لوک سبھا کے ممبر لانے کا پلان بنا رہے ہیں انہیں ہم کنکر والے رسوگلا پیش کریں گے۔ جس کے جواب میں مودی جی نے کہا کہ بنگال نے ایسی ہستیاں پیدا کی ہیں کہ ہمیں وہاں کا کنکر بھی پیارا ہے۔
ملک میں آزاد ہونے کے 20  برس کے بعد آپس کا سیاسی اختلاف شروع ہوگیا تھا لیکن جس پارٹی نے بھی اختلاف کیا وہ صرف زبان اور قلم تک محدود رہا۔ یہ نئی روایت بی جے پی نے شروع کی کہ جو نہ ملے اسے چھین لو زبردستی لے لو غنڈہ گردی کرکے لے لو لیکن لے لو۔ بنگال میں ہر ریاست کی طرح ابتدا میں کانگریس کی ہی حکومت رہی 1967 ء کے بعد بایاں بازو کی پارٹیوں نے کامریڈ جیوتی بسو کی قیادت میں حکومت بنائی۔ بسو دادا نے اتنا پیار دیا کہ پورا بنگال ان کی مٹھی میں آگیا اور وہ ہر پانچ سال کے بعد الیکشن جیتتے رہے اور حکومت بناتے رہے۔ بسو دادا نے جب صحت کی وجہ سے وزیراعلیٰ کا عہدہ پارٹی کو واپس کیا تو دوسرا بسو نہ مل سکا اور جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت آئی وہ پیسے کے پیچھے دوڑ پڑے اور کاشت والی زمینیں ٹاٹا کو موٹر کے کارخانے بنانے کے لئے دے دیں اور مخالفت کرنے والے غریب کسانوں نے جب احتجاج کیا تو طاقت سے ان کی آواز بند کردی۔
کمیونسٹ پارٹی جب پٹری سے اُتری تو ممتا بنرجی کو موقع ملا اور وہ بجلی بن کر کڑکی اور غریبوں کی آواز بن گئی اور حکومت کا ہی نہیں ٹاٹا کا بھی جینا حرام کردیا۔ یہی وقت تھا جب نریندر بھائی مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے انہوں نے ٹاٹا کی دولت پر رال ٹپکائی اور ان کو آمادہ کیا کہ وہ اپنے کارخانے لے کر گجرات آجائیں۔ اور بنگال سے ٹاٹا جیسے سونے کے پہاڑ کو جب ممتا دیدی نے نکال کر باہر کردیا اور غریبوں کی زمینیں ان کو واپس کردیں تو وہی کارنامہ تھا کہ وہ بنگال کی فاتح بن گئی اور اکیلے دم پر انقلابی بنگال کو جیت لیا۔ ان غریب کاشتکاروں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی جنہوں نے ممتا دیدی کو رضیہ سلطان بنا لیا اور دیدی نے بھی یہ اعلان کرنے میں دیر نہیں کی کہ مجھے مسلمانوں اور عورتوں نے جتایا ہے۔
بنگال کی جس زمین کو ممتا نے اپنی جان کی بازی لگاکر فتح کیا ہے اور جس نے اس شان سے حکومت بنانے کے بعد نہ کپڑے بدلے نہ مکان بدلا نہ چپل بدلی نہ کار بدلی اسے وہ مودی کیا اُکھاڑ پائیں گے جو دن میں تین مرتبہ لباس بدلتے ہیں ہفتے میں دس مرتبہ پگڑی اور آٹھ مرتبہ سدری۔ جو کہیں جاتے ہیں تو درجنوں گاڑیوں کا قافلہ چلتا ہے اور دوسرے ملک جاتے ہیں تو بڑا جہاز ان کی سواری میں رہتا ہے۔
بنگال کانگریس اور کمیونسٹ حکومتوں کی وجہ سے فرقہ پرستوں کی چراگاہ نہ بن سکا اور نریندر مودی سے پہلے کسی نے اس کی فکر بھی نہیں کی کہ بنگال کے بازاروں میں گائے کا گوشت آلو گوبھی کی طرح بک رہا ہے۔ گاندھی جی کے سب سے ممتاز جانشین آچاریہ ونوبا بھاوے نے دھمکی دی تھی کہ بنگال میں گائے کاٹنا بند کیا جائے ورنہ میں آکر مرن برت رکھوں گا۔ جواب میں بسو دادا نے لکھ دیا تھا کہ شوق سے آیئے مگر گائے بند نہیں ہوسکتی کیونکہ مسلمان غریب ہے وہ مہنگی مچھلی نہیں کھاسکتا سستا گوشت کھالیتا ہے۔ اور ونوباجی چپ ہوگئے۔
2014 ء کے بعد مودی وزیراعظم نے ان ریاستوں میں زہر کی کھیتی شروع کردی جہاں اس کے امیدوار ہار گئے تھے اور بنگال بھی ان میں سے ایک ریاست ہے۔ اب سنا ہے کہ دونوں ہاتھوں سے خزانہ لٹایا جارہا ہے اور ہر ووٹر کو خریدا جارہا ہے۔ ہم ان تمام غریبوں سے جن میں مسلمان بھی ہیں اور ہندو بھی دل کی گہرائی سے کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی روپیہ دے تو لے لو کیونکہ وہ تمہارا یعنی عوام کا ہی روپیہ ہے مگر ووٹ ممتا دیدی کو ہی دینا ہے۔ اس وقت بنگال والوں کے سامنے دو لیڈر ہیں ایک شیرنی ممتا بنرجی جس نے جھاڑو مار مارکر ٹاٹا جیسے ملک کے چوٹی کے سرمایہ دار کے پنجے سے تمہاری زمینیں چھین کر تمہیں واپس دے دیں اور دوسرے وہ ہیں جو دُم ہلاتے ہوئے ٹاٹا کو گجرات لے گئے اور جہاں کارخانے لگے وہاں کا پانی بھی کارخانہ کو دے دیا اور سنا ہے کہ عوام وہ گاؤں خالی کرکے دوسرے علاقے میں چلے گئے۔ اب یہ فیصلہ تم کرو کہ تم کو کیسا لیڈر چاہئے شیرنی جیسی ممتا یا گیدڑ جیسے مودی، یوگی اور امت شاہ؟

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 

02مئی 2019(فکروخبر

«
»

رمضان کے مہینے کا استقبال کیسے کریں؟

بابری مسجد کا انہدام۔ پرگیہ ٹھاکر کے فخریہ کلمات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے