نازش ہما قاسمی
جی چودھری ٹکیت! خاندانی کسان، دہلی پولس کا سابق ملازم، ایم اے، ایل ایل بی ڈگری یافتہ، کسان لیڈر، عزم وحوصلے کا پکا، کسانوں کی عملی رہنمائی کرنے والا، ان کے دکھ درد کو سمجھنے والا، ان کے لیے خون کے آنسو رونے والا، موجودہ حکومت کے کسان مخالف قانون کے خلاف آواز اُٹھانے والا،کسان با پ کا کسان بیٹا، غازی پور بارڈر کا ہیرو،کسانوں کے حقوق کی بازیابی کےلیے مختلف الزامات میں ۴۴؍ بار جیل کی سلاخوں میں زندگی گزارنے والا، ، بھارتیہ کسان یونین کا قومی ترجمان، ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۹ میں جاٹوں کا ووٹ بی جے پی کو دلانے والا، بی جے پی کا سابق حامی، وزیر اعظم نریندر مودی کے نوٹ بندی کے فیصلے کی تائید کرنے والا، آر جے ڈی کا موجودہ رکن، مظفر نگر کا پاور فل اور طاقتور کسان لیڈر، جاٹوں کا مخلص ہمدرد ، بالیان کھاپ لیڈر راکیش ٹکیت ہوں۔ میری پیدائش ۴؍جون ۱۹۶۹کو مغربی یوپی کے مظفر نگر ضلع کے سسولی گائوں میں جاٹوں کے قائد، جاٹ۔ مسلم اتحاد کے علمبردار ، کسانوں کی پکار، کسانوں کے مسیحا آنجہانی مہندر سنگھ ٹکیت کے گھر ہوئی۔ میرے والد مہندر سنگھ ٹکیت کی قیادت میں کسانوں کے حقوق کےلیے کئی کامیاب احتجاجات ہوئے، میں نے اپنی کانسٹبل کی نوکری بھی حکومت کے دبائو میں آکر چھوڑی؛ لیکن کسانوں کے حقوق کی لڑائی سے منہ نہیں موڑا۔ میری ابتدائی تعلیم نام گیال ہائی اسکول میں ہوئی ، بعد میں میرٹھ یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور ایل ایل بی کی بھی ڈگری حاصل کی۔ میری شادی ۱۹۸۵ میں باغپت کے دادری گائوں میں سنیتا دیوی سے ہوئی، میرے بیٹے کا نام چرن سنگھ ٹکیت ہے اور میری دو بیٹیاں جیوتی اور سیما ہیں ۔ ۲۰۱۱ میں والد بابا ٹکیت کے انتقال کے بعد بالیان کھاپ کی رسم و رواج کے مطابق بڑے بھائی نریش ٹکیت کو پگڑی پہنا کر بھارتیہ کسان یونین کا صدر منتخب کیاگیا اور میں قومی ترجمان قرار پایا؛ لیکن عقل وہوش اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت مجھ میں بڑے بھائی کے مقابل کچھ زیادہ ہے؛ اسی لیے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نام کے صدر ہیں میں ہی بھارتیہ کسان یونین کا ہیڈ ہوں۔میں اپنے بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہوں، سب سے بڑے نریش ٹکیت جو بھارتیہ کسان یونین کے صدر ہیں، مجھ سے چھوٹے سریندر ٹکیت میرٹھ میں ایک چینی مل میں منیجر ہیں اور سب سے چھوٹے نریندر ٹکیت وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ میں دو بار انتخابی میدان میں ا ترا ، پہلی مرتبہ ایم ایل اے کے انتخاب کے لیے ۲۰۰۷ میں مظفر نگر کے کھتولی حلقہ اسمبلی سے آزاد امیدوار کے طور پر کھڑا ہوا اور دوسری بار لوک سبھا کے انتخاب کےلیے ۲۰۱۴ میں امروہہ سے راشٹریہ لوک دل پارٹی سے امیدوار بنا لیکن شومئی قسمت دونوں بار ہار نصیب ہوئی۔
ہاں میں وہی راکیش ٹکیت ہوں جس کے گھریلو تعلقات اور دوستانہ مراسم ۲۰۱۳ کے مظفر نگر مسلم کش فسادات کے کلیدی ملزم سابق مرکزی وزیر و ممبر پارلیمنٹ سنجیو بالیان سے رہےہیں وہ ہمارے بالیان کھاپ سے تعلق رکھتے تھے اسی بنا پر کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ میں بھی اس فساد میں شریک رہا ہوں گا؛ لیکن میری ایسی کوئی سرگرمی نہیں تھی جس کی بنا پر میں ملزم قرار دیاجائوں، ہاں جاٹ ہونے کے ناطے کچھ ہمدردیاں رہی ہوں گی اور یہ فطری بات ہے ؛ لیکن میں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی ہمیشہ کوشش کی اور اسی کوشش پر میں یقین رکھتا ہوں، میں نے حالیہ مظفر نگر مہا پنچایت میں کچھ سابق مسلم دوستوں کو بلاکر اسی بات کی تصدیق کروائی ہے کہ میں جاٹ مسلم اتحاد کا علمبردار ہوں ، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ مجھ سے کچھ غلطیاں جانے انجانے میں ہوگئی ہوں جس سے میرے کچھ دوست ناراض ہوئے تھے جو اب مان گئے ہیں؛ لیکن میں ابھی جس دوراہے پر کھڑا ہوں وہاں مجھے سبھی مذاہب اور ہرطبقے کے افراد کی ضرورت ہے ، ویسے تو یہ کہنے کی بات نہیں ہے، تمام مذاہب کے افراد میرا تعاون اور میری حمایت کررہے ہیں، اسی بنا پر میں دو ماہ سے چل رہے اس احتجاج کا اصل ہیرو قرار پایا ہوں۔ ہاں میں وہی راکیش ٹکیت ہوں جس کے بھائی پر الزام ہے کہ انہوں نے مظفر نگر فساد میں اہم کردار ادا کیا ہے ان کے بیان کی اخباری کٹنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے، عین ممکن ہے کہ اس الزام میں صداقت ہو، ان کی وجہ سے مجھے بھی مظفر نگر فساد کا مجرم مانا جارہا ہے اور میری سیکولر شبیہ بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔
ہاں میں وہی راکیش ٹکیت ہوں جس کے والد نے ۲۵؍ سال تک کسانوں کے مسائل کو لے کر جدوجہد کی، ان کے حقوق کی بازیابی کےلیے، کسان مخالف حکومتی اقدامات کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ان کی یہ خوبی تھی کہ ان کی آواز پر ملک بھر کے تمام کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کسان جمع ہوجاتے تھے، انہوں نے ۱۹۸۸ میں راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں دہلی کے بوٹ کلب میں پانچ لاکھ کسانوں کی بھیڑ جمع کردی تھی۔ ہاں میں اسی بابا ٹکیت کا فرزند ہوں جس کے ۱۹۹۳ کے لال قلعہ احتجاج کو ختم کرانے کےلیے سرکاری ملازم ہونے کے ناطے مجھ پر دبائو ڈالا گیا کہ میں اپنے بابا کو سمجھائوں اور احتجاج سے بازرکھوں؛ لیکن میں نے پولس کی سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور مستقل طور پر بابا کے ساتھ ہوکر کسانوں کی لڑائی میں شریک ہوگیا جو اب تک جاری ہے اور یہ لڑائی جاری ہی رہے گی ۔ ہاں میں وہی راکیش ٹکیت ہوں جس نے کسانوں کی خوشحالی کےلیے اپنی خوشیوں کو تج دیا، ان کے حقوق کے لیے بھوپال کی جیل کو آباد کیا، تہاڑ میں راتیں گزاریں، جے پور کی جیل میں شب بیداری کی، ملک کی مختلف جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہا؛ لیکن اپنے موقف سے کبھی نہیں ہٹا، حکومتی استبداد کے آگے کبھی نہیں جھکا، سر تسلیم خم نہ کیا، کسانوں کا سودا نہیں کیا اور نہ ہی مرتے دم تک کروں گا۔ ابھی میں پورے جوش وخروش کے ساتھ غازی پور بارڈر پر حکومت کے کسان مخالف تینوں زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی لڑائی لڑرہا ہوں ، یوم جمہوریہ کو لال قلعہ پر ہوئے سانحے کے بعد ایسا تاثر آیا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ انتظامی دبائو کے ساتھ اس احتجاج کو سبوتاژ کردیاجائے اور اس کی کوششیں تیز ہوگئی تھیں، غازی پور، سنگھو بارڈر، یوپی گیٹ، ٹکری بارڈر سمیت تمام احتجاج گاہوں کے باہر سیکوریٹی سخت کردی گئی تھی، باغپت میں تو رات کے اندھیرے میں احتجاج کررہے کسانوں کو اُٹھا دیا گیا تھا اور ٹینٹ اکھاڑ پھینکے گئے تھے؛ لیکن میں نے روتے ہوئے ۲۸؍جنوری کو یہ اعلان کیا تھا کہ ملک کے کسان سینے پر گولی کھائیں گے؛ لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر قوانین واپس نہیں ہوئے تو میں خودکشی کرلوں گا، اس اعلان کے ساتھ ہی میں نے بھوک ہڑتال شروع کردی، میرے اس آنسو کی لاج رکھتے ہوئے یوپی، پنجاب ، ہریانہ اور راجستھان کے کسانوں میں امید کی ایک نئی کرن جاگ اُٹھی اور انہوں نے پوری قوت سے میرا ساتھ دے کر حکومت کو یہ باور کرادیا کہ اب کوئی بھی طاقت ہمیں نہیں ہلا سکتی، جب تک کہ یہ تینوں قوانین واپس نہیں ہوجاتے ہم اپنے مطالبے سے ٹس سے مس نہیں ہوں گے، اخیر تک لڑتے رہیں گے، خواہ ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے ۔ حکومت ہمیں کسی طو رنہیں جھکا سکتی، آپ نے اندازہ کرہی لیا ہوگا جب گزشتہ روزیوپی انتظامیہ نے غازی پور بارڈر کے احتجاج کو ختم کرانے کےلیے نوٹس بھیجی اور میں نے ملک بھر کے کسانوں کو آواز دی تو سبھی نے میری آواز پر لبیک کہا اور جوق در جوق غازی پور بارڈر پر آجمع ہوئے جسے دیکھ کر انتظامیہ کے پسینے چھوٹ گئے اور رات بھر ہائی وولٹیج ڈرامہ کے بعد ایک بجے کے قریب میری خیریت پوچھ کر واپس ہوگئے۔ پھر اسی شان سے تینوں سرحدوں پر کسان مخالف قوانین کے خلاف احتجاج جاری ہے، حکومت نے نیٹ بند کرکے ہماری آواز دبانے کی بھی کوشش کی ہے؛ لیکن ہمارے کسانوں نے واضح اعلان کردیا ہے کہ ہمارے ساتھ غلط کریں گے تو اچھا نہیں ہوگا، ہریانہ کے کسانوں نے تو بی جے پی اور جے جے پی کے کسانوں کے سماجی بائیکاٹ کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اگر اسی طرح حکومت کی ڈھیٹ روش جاری رہی تو ہم بھی اپنے موقف پر قائم رہیں گے یہ ہمارا وعدہ ہے۔ جب تک یہ تینوں سیاہ قوانین واپس نہیں لئے جاتے ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے اور حکومت کے سامنے ہرگز گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔۔۔!
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
02فروری2021
جواب دیں