قسیم اظہر جی ہاں حسین ابن علی، خاتون جنت اور حیاء کے ماتھے کی تاج، فاطمہ زھرا کالخت جگر، خلیفۂ راشد، شیرخدا، حیدر کرار علی کرم اللہ وجہہ کانورنظر، محبوب خدا، نبی آخرالزماں، رسول الثقلین، رحمتہ للعالمین، دعاءابراہیم، فرزند اسماعیل، سید الانبیاءﷺ کے خوابوں کی تعبیر..! ہاں میں ہی ہوں […]
جی ہاں حسین ابن علی، خاتون جنت اور حیاء کے ماتھے کی تاج، فاطمہ زھرا کالخت جگر، خلیفۂ راشد، شیرخدا، حیدر کرار علی کرم اللہ وجہہ کانورنظر، محبوب خدا، نبی آخرالزماں، رسول الثقلین، رحمتہ للعالمین، دعاءابراہیم، فرزند اسماعیل، سید الانبیاءﷺ کے خوابوں کی تعبیر..! ہاں میں ہی ہوں وہ حسین…!
میری پیدائش مدینہ منورہ میں ١٤/ جمادی الاولی/٤ہجری بمطابق ٤/جنوری/٦٢٦عیسوی میں ہوئی، عالم وجود میں آتے ہی میری سب سے پہلی غذا حضورﷺکا مقدس لعاب دہن اور سب سے پہلی گود، حضور ﷺکی گود قرارپائی۔
میری پرورش و پرداخت، میرے بابا علی، میری ماں فاطمہ اور میرے نانامحمدﷺ نے کیں، ہاں میں ہی وہ حسین ہوں جسے دربار رسالت سے بے پناہ محبتیں ملی ہیں، وہ درخشاں چہرہ، جس کے دید کی امید سینے میں جگائے فلک کے ستارے آنکھ مچولی کھیلتے تھے، وہ ہر وقت میری نظر کے سامنے ہواکرتاتھا، وہ زبان مقدس جس کے ذریعے ان گنت افرادکو ہدایت نصیب ہوئی تھی، اس پہ ہمیشہ میراذکر خیر ہواکرتاتھا، وہ پشت مطہر جس کو مہر نبوت سے سجایاگیاتھا، میں اس پہ بیٹھ کر سواری کیاکرتاتھا۔
جس وقت عرب میں بچوں کو کندھے پہ اٹھاناعیب سمجھاجاتاتھا، اور نبی ﷺ اپنے شانے پہ لیے جس بچے کو باہر گھمایا کرتے تھے، میں وہی حسین ہوں، وہ نمازمیں ہوتے تو میں ان کی پشت مبارک پر بیٹھ جاتا اور وہ سجدے کو محض اس بنیاد پر طویل کردیتے کہ کہیں میں گرنہ جاؤں..! مجھےکوئی چوٹ ناپہنچ جائے..! ہاں میں ہی وہ حسین ہوں، جب میرے ناناجی کے پاس ٹھنڈی کے وقت، کوئی شخص مسئلہ دریافت کرنے آیا اور اس نے آپﷺ کوزیادہ فربہ پایا تو اس نے فربہ ہونے کی وجہ دریافت کی، نانامحترم نے اسے اپنے اوڑھے ہوئے کمبل کواتارنے کا اشارہ کیا، جب اس نے اسے ہٹایا تو مجھے اور میرے بھائی حضورﷺکے جسم اطہر سے بغل گیر ہوئےدیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا، پھرمیرےسرکوسونگھتے دیکھ کر اس نے سونگھنے کی وجہ بھی معلوم کرنا چاہی تو ناناجان نے کہا تجھے خوشبو کی ضرورت ہوتی ہے، تو پھول سونگھتاہے اور میں محمدﷺ خوشبو کے لیے اپنے نواسے کے سرکو سونگھتاہوں….! ہاں میں وہی نواسہ ہوں..!
ہاں میں ہی ہوں وہ حسین جس کے رونے اور بلکنے کی آواز جب بھی ناناجی کے پردۂ سماعت سے ٹکراتی تو وہ بے چین ہوجاتے ، دوڑے دوڑے مجھے ڈھونڈتے میرے پاس آجاتے اور کہنے لگتے" ہائے…! یہ میرے بیٹے حسین کو کیاہوگیاہے؟ وہ کیوں رورہاہے؟
ہاں میں ہی وہ حسین ہوں جب سروردوعالمﷺ کاقافلہ میرے غریب خانے کے اردگرد سے گزررہاتھا اورمیں رورہاتھا، میری آہ سن کر میرے نانا جان اپنے ہمنشینوں کو راستے میں چھوڑکر فوراً میرے پاس آگئے، میرے سینے کو دباتی چست قمیص کی گھنڈی کھولی، پھر میرے سینے کو دیکھا تو اس پر سرخ نشان پڑچکے تھے، انہوں نے میرے سینے کو بوسہ دیا اور میری والدہ سے فرمایا "بیٹی فاطمہ…! میرے بیٹے حسین کو رونے نادیاکرنا..! یہ جب روتاہے تو میں محمدﷺمیرادل بہت دکھتاہے۔
اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو ٥/ ہزار سے زائد احادیث کے راوی ابو ہریرہ سے پوچھو…!وہ میرے نانا کے ساتھ تھے، جب میں کسی سفر میں اپنی ماں کی گود میں پیاس کی وجہ سے رورہاتھا، مشکیزے میں پانی نہیں تھا، میری والدہ نے آپﷺکے پاس پانی کا پیغام بھیجا، آپ نے اپنا مشکیزہ دیکھا، اس میں بھی پانی نہیں تھا، آپﷺنے فرمایا"فاطمہ حسین کو میرے پاس لاؤ! پھر آپ نے مجھے اپنی گود میں لے لیا اور اپنی مقدس زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا، میں اسے چوسنے لگا، میری پیاس چلی گئی، خشک رگیں تر ہوگئیں، میں رونے سے چپ ہوگیا۔
جب ابوبکر صدیق نانا محترم کے منبر پر خطبہ دینے بیٹھے تو ان کے لب نہیں کھل پائے وہ خاموش سرجھکائے بیٹھے تھے، لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی، فرمایا" حسن وحسین کہاں ہیں؟ انہیں میرے پاس لاؤ…! انہوں نے ہمیں بلایااور اسی طرح مجھے اور میرے بھائی کو اپنے پاس بٹھایا جس طرح ہم اپنے نانا محترم کے دور میں ان کے پاس بیٹھاکرتےتھے، ہاں میں وہی حسین ہوں۔
جب خلیفۂ وقت کے صاحبزادے عبداللہ سے میری بحث چھڑگئی تو میں نے غصے میں آکراس سے کہہ ڈالا " تو مجھ سے جھگڑاکرتاہے…! تیراباپ تو ہمارے گھر کاغلام تھا..! اس شہزادے نے یہ بات اپنے خلیفہ باپ کو پہنچادی، جسے سن کر ٢٢/ہزار مربع میل پر حکومت کرنے والا عظیم الشان بادشاہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل کر مجھ سے میری غلامی کی سند مانگنے آیا، میں وہی حسین ہوں..!
جب میرے خالو عثمان غنی کے گھر کاتشددپسندوں نے محاصرہ کرلیا تھاتو ہمارے باباعلی نے ہم دونوں بھائیوں کو ان کی حفاظتی ذمہ داری کے لیےپہرہ داری کرنے پر مقرر کیاتھا، میں ہی ہوں وہ حسین…!
یہ سب خوشیوں کے حسین لمحات مجھے اسی وقت تک میسر رہے جب تک میرے نانا، میری اماں، میرے بابا اور ان کے مخلصین زندہ رہے، ان سب کے رخصت ہوجانے کے بعد ایک ظالم وجابر، یزید نامی شخص جبرامسند خلافت پر متمکن ہوا، اس نے مجھ سے بیعت کامطالبہ کیا، میں رسول اللہ کانواسہ، قرآن کاداعی، اپنے نانا جان کی محبتوں اور کاوشوں کاثمر، زمین اور اہل زمین پرہورہے ظلم وجور کاساتھ کیسے دے سکتاتھا____؟
میرے باباجان نے کوفہ کو خلافت راشدہ کامرکز قراردیاتھا، اسی لیے میرے اور میرے اہل خانہ کے طرفداروں کی تعداد کوفہ میں بہت زیادہ تھی، کوفیوں نے مجھ سے کہاتھا کہ آپ تشریف لائیں…! ہم آپ ہی کاساتھ دیں گے اور آپ کے ہاتھوں بیعت بھی کریں گے، میں نے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا اور خودبھی سفر کی تیاری کرنے لگا، میرے دوستوں نے سناتو وہ سخت مضطرب ہوئے، وہ کوفیوں کی عہدشکنی، بے وفائی اور زمانہ سازی سے آشناتھے، انہوں نے میرے اس سفر کی سخت مخالفت کی، لیکن میں نے کسی کی بھی ایک نہ سنی۔
میں روانہ ہوچکاتھا، مکہ سے عراق کے صفاخ نامی مقام پر پہنچا تو فرزدق سے ملاقات ہوئی، میں نے اس سے پوچھا"تیرے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے…؟ اس نے مجھ سے کہا "ان کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں مگرتلواریں بنی امیہ کےساتھ" میں نے مشیت ایزدی کو اپنا سہارابناتے ہوئے سفر جاری رکھا، زرددنامی مقام پر مجھے معلوم چلاکہ مسلم بن عقیل اب اس دنیامیں نہیں رہے، انہیں اعلانیہ قتل گیا اور کسی کے کان میں جوں تک نہ رینگی۔
میں بار بار کلمۂ تاسف اپنی زبان سے باہر نکالنے لگا، میرے ساتھیوں نے مجھےلوٹنے کا مشورہ دیا، میں ابھی یہ سوچ ہی رہاتھا کہ مسلم بن عقیل کے عزیز اٹھ کھڑے ہوئے "خداکی قسم..! ہم ہرگز نہیں لوٹیں گے، ہم اپنا انتقام لیں گے یااپنے بھائی کی طرح مرجائیں گے، مجھے بھی مسلم بن عقیل کی یادآرہی تھی، اس کے بعد میری زندگی میں اب کوئی مزہ باقی نہیں تھا۔
قصر بنی مقاتل نامی مقام پر مجھے اونگھ آگئی، میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک سوار کہتا چلا آ رہا ہے" لوگ چلتے ہیں اور موت بھی ان کے ساتھ چلتی ہے" میں سمجھ گیا کہ یہ ہمارے موت کی خبر ہے، لیکن میں صبر و استقامت کا پہاڑ بناراہ میں آئے نشیب وفراز کو عبور کرتا، دشمنوں کی جانب سے پیش آئے تلخیوں کا تحمل کرتا وہاں پہنچ گیا جہاں خدانے میرے اور میرے ساتھیوں کے لیےجام شہادت کا انتظام کر دیا تھا۔
میں دشمنوں کے نرغے میں پھنس چکاتھا، میں جنگ کی ابتدا خود کی جانب سے نہیں کرنا چاہتاتھا، جب دشمن قریب آگئے تو میں اپنی اونٹنی پر سوار ہوا، قرآن سامنے رکھا اور دشمن کی صفوں کے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز سے یہ کہنا شروع کیا۔
لوگو..!میری بات سنو!جلدی نہ کرو! مجھے نصیحت کر لینے دو! مجھےاپنا عذر بیان کرنے دو! اپنی آمد کی وجہ کہہ لینے دو! اگر میرا عذر معقول ہو اور تم اسے قبول کر سکو اور میرے ساتھ انصاف کرسکوتویہ تمہارے لیے خوش نصیبی کا باعث ہوگا اور تم میری مخالفت سے باز آ جاؤ گے، لیکن اگر تم سننے کے بعد بھی میرا عذر قبول نہ کرو اور انصاف کرنے سے انکار کردو تو پھر مجھے کسی بات سے بھی انکار نہیں تم اور تمہارے ساتھی متحد ہو جاؤ! مجھ پر ٹوٹ پڑو! مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو! میرا عتماد ہر حال میں صرف پروردگار عالم پر ہے اور وہ نیکو کاروں کا حامی ہے۔
میرے گھر کی عورتیں یہ سن کر رونے لگیں، خیمے سے آہ وبکاکی آوازیں بلند ہونے لگیں، میں نے انہیں کہلابھیجا کہ ان آنسؤوں کو بچائے رکھو! ابھی تو تمہیں اور بھی رونا ہے۔
ہاں میں ہی ہوں وہ حسین جو اپنے دشمن کو یاددہانی کروارہاتھا، لوگو..! میرا حسب و نسب یاد کرو! سوچو کہ میں کون ہوں؟ پھر اپنے گریبان میں منہ ڈالو! اور اپنے ضمیر کا محاسبہ کرو! خوب غور کرو! تمہارے لئے میرا قتل کرنا اور میری حرمت کا رشتہ توڑنا رواں ہے.؟ کیا میں تمہارے نبی کی لڑکی کا بیٹا نہیں ہوں؟ اس کی عم زادکا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا سیدالشہداء سیدنا حمزہ میرا باپ کے چچا نہ تھے؟ کیا ذوالجناحین سیدنا جعفر طیار میرے چچا نہیں ہے؟ کیا تم نے رسول اللہ کا یہ مشہور قول نہیں سنا کہ آپ میرے اورمیرے بھائی کے حق میں فرماتے "سید شباب اہل الجنۃ" کہ وہ جنت کے سردار ہیں اگر میرا یہ بیان سچ ہے اور ضرور سچ ہے…! کیونکہ واللہ میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا…!تو بتلاؤ کیا تمہیں برہنہ تلوار سے میرا استقبال کرنا چاہیے؟ اگر تم میری بات پر یقین نہیں کرتے تو تم میں ایسے لوگ موجود ہیں جن سے تصدیق کرسکتے ہو! جابر بن عبداللہ انصاری سے پوچھو! ابو سعید خدری سے پوچھو! سہیل بن سعد ساعدی سے پوچھو! زید بن ارقم سے پوچھو! انس بن مالک سے پوچھو! وہ بتائیں گے کہ انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا ہے یا نہیں؟ کیا یہ بات بھی میرا خون بہانے سےنہیں روک سکتی؟ واللہ اس وقت روئے زمین پر بجز میرے کسی نبی کی لڑکی کا بیٹا موجود نہیں..! میں تمہارے نبی کا بلاواسطہ نواسہ ہوں..کیا تم اس لئے مجھے ہلاک کرنا چاہتے کہ میں نے کسی کی جان لی ہے؟ کسی کا خون بہایا ہے ؟کسی کا مال چھین لیاہے؟ کیا بات ہے؟ آخر میرا قصور کیا ہے؟
ہاں میں ہی ہوں وہ حسین جس نے کربلا میں یہ خطبہ دیاتھا، اگر میں یہ بات آسمان سے کہتاتو وہ میری اس درد بھری آواز میں پھٹ پڑتا….! اگر میں یہ چاند اور ستاروں سے کہتاتو وہ ٹوٹ ٹوٹ کر میرے قدموں میں گرآتا…..! اگر میں کسی بادل سے کہتاتو وہ میرے دکھ میں روروکر زمین کو اپنی آنسؤوں سے بھر دیتا…! لیکن یہ تو انسان تھے، ایسے انسان جو وحشی کاروپ دھار چکے تھے،جن کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوچکے تھے، میری یہ تمام واسطے اور تمام فضائل ان کے سامنے کچھ کام نا آئے۔
اب گھمسان کی جنگ شروع ہوچکی تھی، میرے ساتھی بڑے بے جگری سے لڑرہے تھے، لیکن وہ کب تک لڑتے؟ کب تک ان سے مقابلہ کرتے؟ کب تک ان سے برسرپیکار رہتے؟ آخر ان کے بازو کٹ کٹ کر گر گئے، ان کے سر دھڑ سے جداہوگئے، میرے اردگرد لاشوں کے ڈھیر لگ گئے، جانتے ہو کن کی لاشیں تھیں وہ..؟ ان میں عورت بھی تھی، ان میں اسی سال کابوڑھابھی تھا، ان میں اٹھارہ سال کا نوجوان بھی تھا، ان میں وہ نومولود بھی تھا جس کے کانوں نے ابھی اذان کی آواز ہی سنی تھیں۔
میں وہی حسین ہوں،وہی بہادر اور وہی مرد مجاہد ہوں جو یہ تمام منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاتھا، میں بھی لڑنا شروع کیا، لڑتے ہوئے شدت کی پیاس لگی، میں دریا فرات کے کنارے پانی پینے گیا، لیکن تب تک دشمن کا تیر میرے حلق میں پیوست ہو چکا تھا، میں نے خون بھرے چلو کو آسمان کی طرف اچھالتے ہوئے کہا" دیکھ خدا تیرے حبیب ﷺکے نواسے کے ساتھ کیاہورہاہے____؟
شمر اور ابن زیاد تو میرے خیمے کوبھی لوٹنا چاہتے تھے لیکن میں نے سرزنش کی کہ ذرہ برابر بھی دنیاکی انسانیت تم میں باقی ہے تو تم اس سے باز رہو…!
میں میدان کی طرف بڑھ ہی رہا تھاکہ زرعہ بن شریک تمیمی نے میرے بائیں ہاتھ کو زخمی کردیا، پھر میرے شانے پر تلوار ماری، میں کمزوری سے لڑکھڑایا، لوگ پیچھے ہٹ گئے، مگر سنان بن انس نخفی نے آگے بڑھ کر نیزہ مارا اور اسی نے میرے سر کو تن سے جداکردیا اور میں اپنے خدا اور ناناﷺکے حضور پہنچ گیا۔
تم جانتے ہو میری اور رسول کے خاندان کی یہ حالت کس نے کی ہے___؟ انہی غداروں نے کی ہیں جوقاتل سے عشق رکھتے ہیں اور مقتول سے ہمدردی بھی، جو ظالموں کے آگے سر جھکاتے ہیں اور مظلوموں پرگھڑیال کے آنسو بہانا بھی نہیں چھوڑتے، چاپلوس بن کر بدکردار لوگوں کو اپنا پیشوا بنالیتے ہیں اور معزز لوگوں کے تئیں عہدوفا کاراگ الاپنابھی نہیں ترک کرتے۔
ہاں میں ہی ہوں وہ حسین جس کے حقائق کو افسانے کے ترازو میں تولا جاتاہے اور یہ معاصیات کی دنیامیں بدمست دنیاہرسال میراماتم کرتی ہے، میری یاد میں اپناخون بہاتی ہے،ڈھول تاشے بجاتی ہے، میرے نام کے فلک شگاف نعرے بازی کرتی ہے، ان سے کہو..! میں مراکب تھا__؟ میں تو شہید ہواتھا، میں تو اپنے نانا جان کے پاس آیاتھا، بل احیاء عندربھم یرزقون۔
تو پھر بتاؤ!___میں کیسے مرگیا، بتاؤنا..! تم خاموش کیوں ہو__؟
مضمون نگار کی رائے سے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
29اگست2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں