اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 860 بار اسرائیلی جنگی طیاروں نے 600 ٹن دھماکہ خیز مواد غزہ کے مظلوم لوگوں پر برسایا ہے اور اس بمباری میں سے زیادہ افراد شہید، جن میں بچے اور خواتین کی خاصی تعداد شامل ہے، 700 سے زائد افراد زخمی، 150 رہائشی مکان تباہ اور 900 افراد بے گھر ہوگئے ہیں، ماہ مبارک رمضان میں غزہ کے مظلوم مسلمان بھائیوں پر یہ مصیبت، امت مسلمہ اور بین الاقوامی اداروں و انسانی حقوق اداروں کے لئے بڑا امتحان ہے، لیکن غزہ کے مظلوم عوام اور امت اسلامی کی نگاہیں اس وقت عرب ممالک کے حکمرانوں کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ وہ اس سلسلے میں کیا اقدام کرتے ہیں،چونکہ بہرحال غزہ کے لوگوں کے ساتھ عالم اسلام اور عرب ممالک کا انسانی، دینی، عربی اور قومی رشتہ ہے۔ لہذا اگر یہ حکمران اپنے نزدیکی بھائیوں کی حمایت نہ کریں تو ان سے دور کے مسلمان کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔
البتہ اس بار بھی عرب ممالک نے وہی ماضی والا رویہ اور موقف برقرار رکھا، یعنی وہی منافقانہ اور شیطانی رویہ، جس میں دراصل انہوں نے اسرائیل کو اپنی خاموشی کے ذریعہ سمجھایا ہے کہ ہمیں ان وحشیانہ و جارحانہ کاروائیوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اس سلسلے میں اگر ہم کبھی عوامی دباؤ میں اکر لب کشائی بھی کریں تو اسے تم (اسرائیل) برا نہیں ماننا بلکہ اسے ہماری مجبوری تصور کیا جائے۔ عرب ممالک کے اس ’’گرین سگنل‘‘ کی وجہ سے ہی اسرائیل کی ہمت بڑھ گئی ہے اور ہمارا تجزیہ ہے کہ کبھی بھی ایسا ممکن نہیں ہے کہ اسرائیل علاقے میں کوئی فوجی کارروائی کرے، لیکن عرب ممالک کے حکمرانوں کو مخفیانہ طور اعتماد میں نہ لے، یہ ہم نہیں کہتے بلکہ اسرائیلی عہدیداروں نے جنوبی لبنان پر کئی سال پہلے حملہ کرنے کے بعد کھل کر کہہ دیا تھا کہ ’’حملے سے پہلے ہم نے اپنے علاقائی ساتھیوں (عرب دوستوں) کو اعتماد مین لیا تھا۔”
لہذا اج بھی غزہ میں جو خون بہایا جا رہا ہے، اس کی بہت حد تک ذمہ داری عرب ممالک پر ہے، جو اسرائیل کی اس سرکاری دہشت گردی پر ہمیشہ خاموشی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اگر کبھی کوئی بیان دیتے بھی ہیں تو وہ صرف بیان کی حد تک ہی محدود ہوتا ہے اور بس، اسرائیل بھی عرب حکمرانوں کی بیان بازی سے بخوبی واقف ہے۔ ا?ج کی اس جنگ میں غزہ کے مظلوموں کو اسرائیلی جارحیت سے بچانے کے لئے عرب ممالک کئی طرح کے اقدامات کرسکتے ہیں اور یہ اقدامات سخت قسم کے ہوسکتے ہیں اور نرم بھی، سخت جیسے اسرائیل کے ساتھ جنگ کا اعلان کریں اور اس سلسلے میں اپنے طور ا?مادگی کا اظہار کریں، متوسط جیسے اسرائیل کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات کو ختم کردیں، یعنی اسرائیلی سفیروں کو اپنے ملک سے باہر کریں اور اسرائیل کو تیل اور گیس کی سپلائی بند کر دیں، نرم و ا?سان اقدام اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور اپنے عوام کو اسرائیل کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرنے کے لئے انہیں سڑکوں پر ا?نے دیں۔ لیکن سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ عربوں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے، نہ سخت اقدامات اور نہ ا?سان اقدامات ان سے انجام پانے والے، کیونکہ اس کام کے لئے ایمان قوی اور شجاعت کی ضرورت ہوا کرتی ہے، جو یہاں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔
جواب دیں