جواپنے طورپرسیرتِ نبویﷺسے آشنائی حاصل کرتے اور آپؐکی زندگی،آپؐ کی دعوت و تبلیغ اور آپؐ کے حیرت ناک انقلابی کارناموں سے متاثرہوئے بغیر نہیں رہتے اور ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہزار حملوں،بدبختانہ پروپیگنڈوں اوردامنِ اسلام کو داغ دار کرنے والے اشتہارات کے باوصف آج بھی اسلام دنیا بھرکا سب سے تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ہے اور اس کی اِس رفتار میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس دین کی حفاظت کا وعدہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے لے رکھاہے،آج اگر مسلمان بد اعمالیوں کی پوٹ بنے ہوئے ہیں،آج اگر ان کے دلوں سے اپنے مذہب کی اہمیت ووقعت کا احساس و ادراک ختم ہوچکاہے،آج اگر وہ ہواؤں کے دوش پر چل رہے اوروقت کا دھاراانھیں بدعملی و بد فکری کی جس بدبودارکھائی میں پھینکے،وہیں گرپڑنے پروہ راضی ہیں،آج اگر عربی اسلامی دنیابرضاورغبت یہودیت،صلیبیت و صہیونیت کے آغوش میں پناہ لیتی جارہی ہے اور وہاں اسلام پسندوں اور دین سے حقیقی تعلق رکھنے والوں کی جانوں کے لالے پڑتے جارہے ہیں،تو ان سب چیزوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام آیندہ چندبرسوں میں دنیا کے نقشے سے اسی طرح نیست و نابود ہوجائے گا،جیسا کہ ماضی میں دنیا کی بہت ساری تہذیبیں وجودکے بعدعدم اور تعمیر کے بعدشکست و ریخت کے حادثے سے دوچارہوکرقصۂ پارینہ بن گئیں۔اسلام ایک آفاقی مذہب ہے،عالم گیر مذہب ہے،دائمی مذہب ہے،اس کی بقاکی رسی باری تعالیٰ کی ازلی و ابدی ہستی کے وجودسے مربوط ہے؛لہذاقیامت تک نہ صرف یہ کہ اس دین کو باقی رہنا ہے؛بلکہ اِس شان کے ساتھ کہ یکے بعد دیگرے دنیا کے تمام آلایش زدہ مذاہب اس کے عظیم الشان وجود کے سامنے ٹوٹتے،بکھرتے،تاریخ کے پنّوں میں گم ہوتے اورگردِراہ بنتے چلے جائیں گے۔ بحیثیت ایک مسلمان کے یہ ہمارا عقیدہ ہے،جوقرآن و سنت کی تعلیمات پر بھی مبنی ہے اورگزشتہ کم و بیش ڈیڑھ ہزارسال کی انسانی تاریخ کے نشیب و فراز، اتھل پتھل اور انقلابات کے مطالعے سے بھی ہمیں اس حقیقت کا بخوبی علم ہوتا ہے۔
البتہ یہ مسئلہ ہر دورکے مسلمانوں کا نجی ہے کہ وہ اپنی مسلمانی کی حفاظت کس طرح کرپاتے ہیں،اسلام کی بقاکی توسوفیصدضمانت ہے کہ اس کے سرپربراہِ راست اللہ عزوجل کا ہاتھ ہے،مگر مسلمان کی مدداللہ تعالیٰ تو تبھی کرے گا،جب خوداس کے اندر اس مددکوپانے کی صلاحیت ہوگی اور وہ واقعتاًویسا بندۂ مومن ہوگا،جس کے بارے میں حکیمِ امت علامہ اقبالؒ نے کہاتھا’’ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ‘‘اوراسی معنیٰ کو نبی اکرمﷺکی ایک حدیثِ مبارک میں بھی صراحت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔مگراس کے برخلاف آج کے مسلمانوں کے حالات عجیب و غریب تضادات کا ملغوبہ بنے ہوئے ہیں،ان کے دعووں میں اورزمینی حقائق میں اس قدر مغایرت ہے کہ خداکی پناہ! اور اسی تباین و تغایرکی وجہ سے اگروہ’ اتفاقاً‘کوئی کا م واقعی دینی جذبے سے کرتے ہیں،توبھی اس کے اُلٹے نتائج ہی برآمدہوتے ہیں،مثال کے طورپرفرانس کی ہفتہ وارمیگزین’چارلی ایبدو‘کے آفس پرہونے والے حالیہ حملے (جس میں دس سے زائدلوگ ہلاک ہوئے)کے پس منظر میں اگرہم گزشتہ دس سالوں میں ایسے چنداخبارات و اشخاص کے بارے میں تفصیلات معلوم کریں،توہمیں پتاچلتاہے کہ اس قسم کے جس جس اخبار یا میگزین یا اشخاص کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج و مظاہرات کیے یا ان کے دفاتر وغیرہ پر (جیساکہ کہا جاتا ہے) مسلمانوں نے حملہ کیا،توایسے تمام اخباروں کی اشاعت و آمدنی میں کئی گونااضافہ ہوگیا اوراس قسم کے انسانوں کودنیانے قبولیت و ہردل عزیزی کے اوجِ کمال پر پہنچادیا۔
خودمذکورہ فکاہی میگزین’’چارلی ایبدو‘کوہی لیجیے،اس کا آغاز۱۹۷۰ء میں ہوا تھا،فرانس کے سابق ں در’چارلس ڈگل‘کامزاحیہ کارٹون شائع کرنے کی وجہ سے ۱۹۸۱ء میں اس کی اشاعت ملتوی ہوگئی،پھردس سال کے بعد۱۹۹۲ء میں اس کی اشاعت کا دوسرا دورشروع ہوا۔اس اخبار پرجنوری کے پہلے ہفتے میں ہونے والا حملہ کوئی نیانہیں تھا،اس سے پہلے بھی جب اس نے نومبر۲۰۱۱ء میں ایک خصوص شمارہ شائع کیاتھا،جس میں اس نے نبی اکرمﷺکے متعددایسے کارٹون شائع کیے،جوگستاخانہ تھے ،تو اس کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں احتجاج و مظاہرات کے علاوہ خود فرانس میں بھی غیر معمولی عوامی غم و غصے کا طوفان اٹھ کھڑا ہواتھا،حتی کہ اس اخبار کے دفتر میں آگ لگا دی گئی تھی،مگر ان سب کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلاکہ جہاں پہلے اس اخبار کا سرکولیشن ۴۵؍ہزارتھا،وہیں اس حملے کے بعداس کا سرکولیشن ایک لاکھ پچہترہزارتک پہنچ گیا اور غضب یہ ہوا کہ ان میں سے پچہترہزارکاپیاں توصرف ایک رات میں بک گئیں اورپھراس کے دوسرے،تیسرے ایڈیشنزکی بھی نوبت آگئی۔
اَبھی جواس اخبارکے دفترپرحملہ ہوا،اس کے بعد کے حالات اور سیاسی تبدیلیوں سے بھی دنیا واقف ہے۔سیاسی تجزیہ کاراس حملے کے مضمرات و عواقب پر مختلف اعتبارسے اپنے اپنے احساسات کا اظہارکر رہے ہیں،بعض بڑے ماہر تجزیہ کاروں کایہ بھی مانناہے کہ یہ حملہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کروایا گیا ہے۔معروف فرانسیسی صحافی،تجزیہ کار،سیکورٹی امورکے ماہراورنائن الیون کے درپردہ حقائق کا انکشاف کرنے والے تھیری میسن(Thierry Meyssan)نے تو صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ یہ حملہ اسلامی مجاہدوں کی طرف سے نہیں کیاگیا ہے؛بلکہ یہ مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کے لیے حکومتی جاسوسی ادارے کی کارستانی ہے۔انھوں نے اپنے مضمون میں اس حملے کے درپردہ بد نامِ زمانہ اسرائیلی جاسوسی تنظیم ’موساد‘کے ہاتھ ہونے کابھی شبہ ظاہر کیا ہے۔ان کے علاوہ سابق امریکی نائب وزیر خارجہ ڈاکٹرپال کریگ رابرٹس اور دیگرکئی ایسے لوگ ہیں،جنھو ں نے حملے کے طریقۂ کاروغیرہ پرسوال اٹھاتے ہوئے یہ کہااورلکھاہے کہ یہ حملہ مسلمانوں نے نہیں کیاتھا۔پھرہمیں بھی تب اس بات کا یقین ہوگیا،جب عالمی میڈیامیں حملے کے اگلے ہی دن القاعدہ کی جانب سے ایسا پیغام آیا،جس سے معلوم ہواکہ ’چارلی ایبدو‘کے دفترپرحملہ کرنے والے اُس کے آدمی تھے ،جبکہ اس کے اگلے دن (میڈیاکے حسبِ صراحت) داعش کی طرف سے یہ دعویٰ کیاگیا کہ وہ اس کے لوگ تھے۔
یہ تواُس حادثے کا ایک پہلو تھا،دوسرا پہلویہ رہاکہ حملے کے چوتھے دن چالیس ملکوں کے رہنماؤں کوفرانس بلایاگیا اوران کی مشارکت میں تین ملین سے زیادہ لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف مارچ کیا،مارچ کرنے والوں میں سے اکثرلوگوں کے ہاتھوں میں ایک پلے کارڈتھا جس پرلکھاہواتھا’میں چارلی ہوں‘۔دوسری جانب اس حملے کے بعد’چارلی ایبدو‘کی سائٹ گوگل سے لے کر سوشل رابطے کی تمام تر سائٹس پر سب سے زیادہ شےئراورپسندکی جانے والی ویب سائٹ بن گئی،اتنا ہی نہیں، فرانس کی حکومت نے فوری طورپراس میگزین کو بارہ لاکھ امریکی ڈالرکا تعاون پیش کیا،’گوگل‘کی طرف سے دولاکھ پچاس ہزارڈالرکی امدادکی گئی،معروف برطانوی اخبار’دی گارجین‘نے ایک لاکھ پچاس ہزارڈالردیے۔ظاہرہے کہ اتنے غیر معمولی تبرعات کے بعد اس میگزین کا حوصلہ بڑھنایقینی تھا،سواس نے اپنا اگلا شمارہ تیس لاکھ کی تعداد میں شائع کرنے کا فیصلہ کیااوراس میں بھی حسبِ نبی اکرمﷺسمیت دیگر مذہبی شخصیات کے کارٹونزشائع کیے گئے۔ اور اگر بات کریں اس خصوصی ایڈیشن کے سرکولیشن کی،توذرائع کے مطابق لوگ اس میگزین پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں،اس واقعے کے بعد اس میگزین کو بہت سے ایسے لوگ بھی وفورِ شوق سے لے رہے ہیں،جنھوں نے پہلے کبھی اسے نہیں دیکھا اور نہ دیکھنا چاہا۔بلکہ ایک خبر تویہ ہے کہ کل تین یورومیں بکنے والی یہ میگزین ناظرین تک جلدی پہنچانے کی دوڑمیں بعض تجارتی ویب سائٹوں پر۱۵؍ہزاریورومیں بیچی جارہی ہے اور اس میگزین کے اظہارِ یکجہتی کے لیے بہت سے اسرائیلی،انگریزی اخباروں نے بھی ان کارٹونوں کو شائع کیاہے۔
اسی طرح ۲۰۰۵ء میں ڈنمارک کے ایک اخبار’جیلاندپوسٹن‘ (Jyllands-Posten)نے حضوراکرمﷺکی شانِ اقدس میں اہانت آمیزکارٹون شائع کیاتھا،جس کی وجہ سے ساری اسلامی دنیا میں ایک ہنگامۂ رستاخیزبرپاہوگیاتھا،پرتشددمظاہروں میں بہت سے لوگ مارے بھی گئے،مختلف عربی اور یورپی ملکوں میں بھی ڈنمارک کے سفارت خانے کو نذرِ آتش کیاگیا،اوربھی بہت کچھ ہوا،مگر ان سب کے نتیجے میں ہوایہ کہ اُس اخبار کی کاپی پہلے ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں چھپتی تھی،تواس واقعے کے بعد پونے دولاکھ اور دولاکھ تک پہنچ گئی،یہی نہیں’ اظہارِ رائے کی آزادی‘کے تحفظ کی مہم میں اُس اخبار کی ہمنوائی کرنے کے لیے فرانس کے مذکورہ’چارلی ایبدو‘،جرمنی کے ’دی ویلٹ‘(Die Welt)(جس کی تعدادِاشاعت ڈھائی لاکھ ہے)ہالینڈکے’ ٹیلی گراف ‘(تعدادِ اشاعت سات لاکھ)جرمنی کے ایک دوسرے اخبار’فوکس‘( تعدادِ اشاعت سات لاکھ پچاس ہزار)فرانس کے’فرانس سوائر‘(تعداداشاعت ایک لاکھ) اور ان کے علاوہ بیسیوں دیگر اخباروں نے اس ڈنمارکی اخبار کے کارٹونوں کوشائع کرکے نام نہادرائے کی آزادی کا اظہارکیا۔
اُن کے علاوہ تسلیمہ نسرین،سلمان رشدی اور پادری ٹیری جانس جیسے لوگ بھی ہیں،جنھوں نے محمدعربیﷺ،اسلام اور قرآنِ کریم کی سرِعام بے حرمتی کی اور اس کے جواب میں دنیا بھر کے مسلمانوں نے احتجاجات بھی کیے،مگرنتیجہ یہ نکلاکہ ایسے لوگ دنوں میں زیروسے ہیروبن گئے،ان کی مقبولیت وشہرت کا دائرہ پھیل گیا،ان کے چاہنے والے لوگوں اور ملکوں کی فہرست طویل ہوتی گئی اور ان کے عزمِ دریدہ دہنی کو مزید حوصلے ملتے گئے۔
پس چہ بایدکرد؟
اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ رائے قائم کرنا بالکل بجاہوگا کہ یاتواِس قسم کے لوگ،اخبارات یا ادارے اپنی اوچھی حرکتوں سے سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیںیااسلام دشمن صلیبی و صہیونی حکومتیں ان کے قلم و زبان کواپنے مقاصدکے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں؛لیکن دوسری جانب چوں کہ اہانتِ رسولﷺکواسلام کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرسکتا؛اس لیے اسلام کے اصل مزاج اور فطرت پر عمل کرتے ہوئے اس سلسلے میں مسلم حکومتوں اوراصحابِ فکرونظرکوکوئی مؤثرراہ نکالنی چاہیے اور دنیا بھرکے تمام ملکوں کواس بات کا پابند کیاجانا چاہیے کہ وہ اپنے یہاں اس حوالے سے باقاعدہ قانون بنائیں اوراظہارِرائے کے حوالے سے اپنے دوغلے رویے کا سلسلہ بندکریں۔ دوسرا کرنے کا اہم ترین کام یہ ہے کہ مسلمان نبیﷺسے محبت وعقیدت کے زبانی سے زیادہ عملی مظاہرے کی طرف مائل ہوں۔ہمیں شایداس بات کا احساس تک نہیں ہوتا،مگر ہم اپنے شب وروزکے اعمال و اشغال میں نہ جانے کتنی مرتبہ اہانتِ رسول ﷺکا ارتکاب کرتے ہیں اورہماری ہی عملی کوتاہی و سیہ کاری ہمارے دشمنوں کوشہہ دیتی اوراسلام اورانھیں پیغمبرِ اسلامﷺکی شانِ اقدس میں گستاخی کی جرأت فراہم کرتی ہے۔
جواب دیں