شانِ رسالت میں گستاخی پر مضبوط قانون سازی ہو نفرتی پجاریوں کے متعصبانہ بیان بازیوں پر لگام کسی جائے

محمد ارشد ادیب

لداخ کے سونم وانگ چک سے گھبرائی ہوئی حکومت کے اقدامات پر سوالات ’راجستھان۔۔ دلی۔۔۔ رشیا۔۔‘دہلی کا ہوٹل راجستھان میں موضوع بحث۔
حراست میں نفرت کا پجاری
نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے یتی نرسنگھا نند کو مسلمانوں کی شدید ناراضگی کے بعد حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یو پی کے ضلع غازی آباد میں واقع ڈاسنا مندر کو احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں نے گھیر لیا تھا اس کے بعد پولیس نے مندر کے آس پاس پولیس کا پہرہ بٹھا دیا اور مظاہرین کو وہاں سے بھگا دیا اس کے باوجود مظاہرین متنازعہ بیان دینے والے مندر کے پجاری کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے رہے۔ اس سے پہلے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت مسلمانوں کی سبھی ملی تنظیموں نے شان رسالت میں گستاخی کی مذمت کرتے ہوئے گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے ایک بیان میں اسے سرخ لائن عبور کرنے سے تعبیر کیا تاہم انہوں نے مسلمانوں کو جذبات میں بہہ کر تمام برادران وطن سے بدگمان نہ ہونے کی اپیل کی۔ انہوں نے گاندھی جی کی مثال دی جس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ کی زندگی کو انسانیت کے لیے آئیڈیل اور نمونہ قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے غیر مسلم شعراء نے نبیؐ کی شان میں نعت لکھ کر مدح سرائی کی ہے اس لیے کسی کی بد زبانی کو برادران وطن کی سوچ پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔
پجاری یا نفرقی بیان دینے کا عادی مجرم؟
ڈاسنا مندر کا پجاری یتی نرسنگھانند نفرتی بیان دینے والا عادی مجرم بنتا جا رہا ہے۔ اس الزام میں وہ جیل بھی جا چکا ہے۔ ملک کے کئی تھانوں میں اس کے خلاف معاملے درج ہیں اس کے باوجود اس کے ہرزہ سرائی پر فرق نہیں پڑا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس طرح کے نفرتی بیان دینے والے بابا اکثریتی طبقہ کے جذبات ابھار کر سیاسی اور مادی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ سیاسی پشت پناہی اس کا ایک اہم سبب ہے۔
امن وآشتی کے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کرنا اور ناموس رسالت پر کیچڑ اچھالنا کچھ شر پسندوں کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔ مہاراشٹر کے سادھو رام گری کے بعد یو پی کے اس مہنت نے شان رسالت میں گستاخی کر دی جس سے شمال سے جنوب تک مسلمانوں میں ہیجان برپا ہو گیا۔ نفرتی بیان دینے کے خلاف یو پی کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی شکایتیں درج ہو چکی ہیں۔ اخباروں سے لے کر سوشل میڈیا تک ان پر لعنت ملامت ہو رہی ہے۔ مسلم تنظیموں نے نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی گرفتاری اور سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعیت علمائے ہند کے صدر محمد محمود مدنی نے اس معاملے میں وزیر داخلہ کو خط بھی لکھا ہے۔ جمعیت کے ایک وفد نے غازی آباد کے پولیس کمشنر سے ملاقات کر کے اس کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ مشہور مورخ عرفان حبیب نے اس معاملے میں اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ یتی نرسنگھانند مسلسل زہر افشانی کر رہا ہے کیونکہ ریاست اسے مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔ ہمیں آئین کا اطلاق کرتے ہوئے ان نفرتی کرداروں کو مناسب سزا دینی چاہیے۔
فیکٹ چیکر محمد زبیر نے یتی نرسنگھانند کی پرانی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا "یو پی کا یہ پجاری اسلام اور پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس کے خلاف کئی مقدمات درج ہے اس کے باوجود بھی وہ نفرتی بیانات دیتا رہتا ہے کیونکہ پولیس اس کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی ہے”
سیاسی مبصرین کے مطابق کچھ لوگ سستی شہرت یا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد سے نفرتی بیانات دیتے ہیں۔ پونے کے سینئر صحافی ساجد خان نے سوشل میڈیا پر اپنا ذاتی تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا میں کہ رام گری مہاراج کو اچھی طرح سے جانتا تھا، انہوں نے مہاراج پر ایک فلم بھی بنائی ہے اس دوران انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اچھے خیالات کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اچانک پیغمبرِ اسلام کے بارے میں ان کے خیالات سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ دراصل ایسا لگتا ہے کہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے بیان دیا ہوگا۔ بی جے پی لیڈروں کی حمایت سے یہ بات مزید واضح ہو گئی۔ تاہم اس طرح کے بیانات سے کوئی فائدہ ہوگا یہ کہنا صحیح نہیں ہے، یہ صرف دماغ کا فتور ہے۔
سنجولی مسجد کی اضافی منزل گرانے کا فیصلہ
ہماچل پردیش کے سنجولی میں واقع مسجد کی بالائی تین منزلوں کو شملہ کی ایک مقامی عدالت نے گرانے کا حکم دیا ہے۔ مقامی لوگوں نے مسجد پر غیر قانونی تعمیر کا الزام لگایا تھا جس کے خلاف مسجد کے باہر احتجاج بھی کیا گیا تھا۔ شملہ میونسپل کمیشنر کی کورٹ نے فیصلہ کر دیا ہے اس کے لیے مسجد انتظامیہ کمیٹی کو دو ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ وقف بورڈ کے وکیل بی ایس ٹھاکر نے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس معاملے میں کورٹ 21 دسمبر کو دوبارہ جائزہ لے گی اور اصل مسجد کے بارے میں بعد میں فیصلہ کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ مسجد انتظامیہ نے بالائی منزلوں کو خود توڑنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ مسجد انتظامیہ نے مقامی لوگوں کے احتجاج کے دباؤ میں یہ بات کہی تھی لیکن کمشنر کورٹ نے اسی پر اپنی مہر لگا دی۔
ہریانہ اور جموں و کشمیر میں الیکشن کے بعد کا منظر نامہ
جموں و کشمیر اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات کے کامیاب انعقاد کے بعد دونوں ریاستوں کا سیاسی منظر نامہ بدلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ہریانہ کے بارے میں سوشل میڈیا پر اس بات پر کر بحث نہیں ہو رہی ہے کہ کونسی پارٹی حکومت بنا رہی ہے بلکہ یہ قیاس لگائے جا رہے ہیں کہ ریاست کا اگلا وزیر اعلیٰ کون ہوگا۔ ہریانہ میں اس بار اینٹی انکمبینسی یعنی حکومت مخالف لہر کا اثر صاف طور پر دیکھا گیا ہے۔ کسانوں مزدوروں اور پہلوانوں نے ووٹنگ میں سارا زور لگایا۔ میوات میں سب سے زیادہ ووٹنگ ریکارڈ کی گئی۔ میوات میں اوسط ووٹنگ سے تقریبا سات فیصد ووٹنگ ہوئی۔ واضح رہے کہ میوات مسلم آبادی والا علاقہ ہونے کے سبب پچھلے دنوں فرقہ پرستی کی زد میں رہا ہے۔ لیکن عوام اپنے حقوق کے لیے ڈٹے رہے اور رائے دہی کا موقع ملتے ہی انہوں نے اپنی ووٹ کی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔
جموں و کشمیر میں بھی ووٹنگ کا فیصد بڑھنے سے سیاسی ماحول بدلنے کی امید!
جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے لیے تین مرحلوں میں اس بار خاصی ووٹنگ ہوئی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کے دو پہلو ہو سکتے ہیں یا تو کشمیری عوام موجودہ سیاسی نظام سے بے زار ہیں اور انہوں نے ووٹ کے ذریعے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے یا یہ کہ جمہوری عمل میں شامل ہونے سے عوام کو اپنی مرضی کی حکومت بنانے اور اپنے مسائل خود حل کرنے کی امید بندھی ہے۔ جماعت اسلامی کشمیر کے حمایت یافتہ امیدواروں اور انجینئر رشید احمد کی پارٹی کے امیدواروں نے بھی رائے دہی کے عمل میں عوام کی شرکت میں اضافہ کیا ہے۔ بہرحال عوام کی توقعات کس حد تک پوری ہوتی ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک کی پیدل یاترا سے حکومت خوف زدہ اے جی ایل کی لیڈر حجن بانو نے سونم وانگ چک کی گرفتاری پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ سونم وانگ چک اور ان کے ساتھیوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ وہ وہاں لڑنے نہیں گئے تھے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ لداخ کو دستور کی چھٹی فہرست میں شامل کیا جائے۔ واضح رہے کہ سونم وانگ چک لداخ کے باشندے ہیں ایک طویل عرصے سے ماحول اور قدرتی وسائل کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔ موسم سرما میں وہ منفی درجہ حرارت میں کھلے آسمان کے نیچے دھرنا دینے کا ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔ کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی نے بھی انہیں روکنے پر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے ایکس ہینڈل پر طنز کیا "پرچار تنتر میں دنیا کے سب سے طاقتور وزیراعظم لوک تنتر میں اتنے کمزور ہیں کہ چند پیدل مسافروں سے ڈر گئے!
دہلی کی ایک ہوٹل راجستھان میں موضوع بحث!
سنٹرل دہلی کی ایک ہوٹل لی میریڈین ان دنوں راجستھان کے سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ دراصل اس ہوٹل کے کمرہ نمبر 301 میں راجستھان کے کابینی وزیر ٹھیرے تھے۔ اتفاق سے پولیس کے دھاوے میں اس کمرے میں کابینی وزیر کے ساتھ ایک غیر ملکی طوائف پائی گئی جو پہلے سے پولیس کی رڈار پر تھی۔ جب معاملہ تھانے پہنچا تو پولیس کو پتہ چلا کہ وزیر موصوف راجستھان کی بی جے پی حکومت میں نائب وزیر اعلی کے عہدے پر فائز پریم بیروا ہیں۔ پارٹی کی اعلیٰ کمان نے بدنامی کے ڈر سے بیروا کو تھانے سے ہی چھڑوا دیا لیکن سیاسی حلقوں میں اس کی خبریں گرم ہو گئیں۔ کانگریس ترجمان سپریہ سرینیت نے اپنے ایکس ہینڈل پر چند الفاظ لکھ کر اس کی پول کھول دی۔ انہوں نے لکھا راجستھان۔۔ دلی۔۔۔ رشیا۔۔ ان کے لکھتے ہی سوشل میڈیا صارفین نے مزے لینے شروع کر دیے۔ کچھ لوگوں نے لکھا بیروا تھکن دور کرنے کے لیے ہوٹل گئے تھے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا

«
»

بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کے سامنے لاچارو بے بس۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کایہودی ریاست میں داخلہ ممنوع

وحشیانہ بربریت کے خلاف فلسطینیوں کے صبر واستقلال کا ایک سال مکمل