گستاخِ رسول کا عبرتناک انجام
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
مٹ گئے ، مٹتے ہیں، مٹ جائیں گے، اعدا تیرے
نہ مٹا ہے ۔نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
معاندین اسلام اور مفاد پرست لیڈر اسلام اور اہل اسلام کے معاملہ میں سنگین حد تک تنگ نظری کا شکار ہیں اور انہوں نے
اپنے نظریہ کے اعتبار سے اسلام کے خاتمہ کا بیڑا ہی اٹھا لیا ہے یہ افراد اسلامی شعار کو کیا برداشت کریں گے کہ جن چیزوں سے مسلمانوں کا ادنیٰ تعلق بھی ظاہر ہو اسے بھی گوارہ کرنے کے روادار نہیں ہیں
کچھ دنوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے؛ ہندوتوا؛ کا رویہ بڑا جارحانہ ہوگیا ہے مذہب، تہذیب، زبان تینوں پر زبردست یلغار ہے فتنہ پرور عناصر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اتنی خفیہ اور طویل المیعاد سازشیں کر رہے ہیں کہ ان کے پیچ و خم کو سمجھنا اور اپنے دفاع کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہر مسلمان کے لیے ازبس ضروری ہو گیا ہے ۔چاروں طرف اسلام کی بد خواہی کی زوردار آندھیاں چل رہی ہیں اسلام مخالفت کی گھنگھور گھٹائیں چھائی ہیں بدین عناصر اور اسلام دشمن تحریکیں اپنی حیلہ سازیوں اور ہماری غفلت شعار یوں کے سبب اسلام کے مذہبی، اصلاحی، تبلیغی، اشاعتی، تہذیبی، اخلاقی، تمدنی، ثقافتی، اقتصادی، معاشی، معاشرتی، سماجی، اور سیاسی نظام و آداب اور اصول و ضوابط کو ناقابل عمل بنانے کی انتھک کوششیں کر رہی ہیں گلشن اسلام کو خاکستر بنا دینے کے خواب دیکھے جارہے ہیں اسلام و مسلمین کے خلاف دنیا بھر میں باطل پرستوں اور طاغوتی طاقتوں کی مختلف جماعتیں باہم متحد اور منظم نظر آرہی ہیں اسلام ان کا مشترکہ دشمن بنا ہوا ہے جسے مٹانے اور نیست و نابود کردینے کی سعی اور مسلمانوں کا مضحکہ اڑانے کی کوشش کی جارہی ہے اسلام پر سامراجیت وصیہونیت کے خوفناک ساۓ ہیں آۓ دن تحریر و تقریر کے ذریعہ عالمی سطح پر اسلام و بانی اسلام کی شان میں بدترین گستاخیاں کر کے ہر محاذ پر مسلمانوں کو حیران و پریشان مرعوب و مغلوب اور مجبور و محکوم بنانے کا سامان فراہم کیا جارہا ہے مجموعی طور پر اسلام کے لئے یہ بڑے خطرے کا وقت ہے ۔ ہمیں زمانے کے تیور حالات کی نزاکت اور عالمی سیاست سے باخبر رہ کر اپنے اسلاف کے طریقہ و انداز سے تعلیم و تربیت اور ارشاد و ہدایت کا کام بڑی سوجھ بوجھ اور باہمی مشورہ سے کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے تشخص کو نقصان پہنچنے اور مسلمانوں کی جمعیت کا شیرازہ منتشر ہونے سے محفوظ رکھا جاسکے اگر ہم نے وقت کی اس دردناک چیخ پر توجہ نہ دی تو مستقبل میں ہماری نسلیں اسلام سے کتنی دور ہوجائیں گی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
انسان کتنا احمق ہے وہ جب ظلم کرتا ہے تو بھول جاتا ہے کہ خود مجھ پر ظلم ہو سکتا ہے جب وہ کسی کی عزت و آبرو خراب کرتا ہے تو بھول جاتا ہے کہ میری آبرو بھی لٹ سکتی ہے جب وہ کسی کا دل دکھاتا ہے تو اسے یاد نہیں رہتا کہ میرا دل بھی دکھایا جا سکتا ہے حالانکہ اس دنیا میں بھی مکافات عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جاتا ہے یہ تو ممکن ہے کہ ظالم کو کچھ وقت کے لئے ڈھیل دے دی جائے لیکن کب تک بالآخر اللہ اسے پکڑتا ہے اور اللہ کا پکڑنا تو پھر نرا لا ہی ہوتا ہے اور ایسا پکڑتا کہ ہے ظالموں اور متکبروں کو عالم انسانی کے لئے عبرت کا نشان بنا دیتا ہے وہ جب پکڑتا ہے تو مال و دولت عہدہ ومنصب اور دوست و احباب میں سے کوئی بھی کام نہیں آتا ۔
اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے جرم کی سزا دنیا میں بھی دے دیتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر ظلم کی سزا اسی دنیا میں دے دی جائے کیونکہ یہ دنیا تو دارالعمل ہے دارالجزاء تو قیامت ہے لیکن ظلم اور غرور یہ دو ایسے جرم ہیں کہ ان کی سزا کسی نہ کسی پہلو سے اس دنیا میں بھی ضرور مل کر رہتی ہے تاریخ اٹھا لیجیۓ اور ایک ایک ظالم اور متکبر کے عبرتناک انجام کا مطالعہ کیجئے حالانکہ گناہ تو دوسرے بھی ہیں شراب نوشی گناہ ہے زناکاری گناہ ہے عبادت سے روگردانی گناہ ہے لیکن ان گناہگاروں کے گناہوں کی جزا کا معاملہ اکثر و بیشتر یومِ آخرت تک مؤخر ہو جاتا ہے لیکن ظالموں اور متکبروں کو ان کے ظلم اور تکبر کا کچھ نہ کچھ مزہ دنیا میں بھی چکھا دیا جاتا ہے۔ اسی لیے امام ابو حنیفہ فرمایا کرتے تھے کہ ظالم اور متکبر اپنی موت سے قبل ہی اپنے ظلم اور کبر کی کچھ نہ کچھ سزا ضرور پاتا اور ذلت و نامرادی کا منہ دیکھتا ہے چنانچہ خدا کے سچے پیغمبروں سے الجھنے والی قوموں اور تاریخ کی ظالم و مغرور ہستیوں کی عبرتناک ہلاکت و بربادی اس دعوے کی بہترین دلیل ہے
قبر نے ٹھکرا دیا
بارگاہِ نبوت کے ایک گستاخ کا واقعہ جس کو امام بخاری نے باب علامات النبوۃ میں نقل فرمایا ہے کہ ایک نصرانی مشرف بہ اسلام ہو ا اور سورہ بقرہ و سورۂ آل عمران کا حافظ بھی ہوگیا اور بارگاہ نبوت میں اس قدر مقرب ہو گیا کہ وحی بھی لکھنے لگا مگر ناگہاں اس کے سر پر بدنصیبی کا ایسا بھوت سوار ہوگیا کہ وہ رحمت عالم کی بے ادبی کرنے لگا اور یہ کہنے لگا کہ محمد کو تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا میں ان کو لکھ کر دیتا ہوں غرض یہ مردود مرتد ہو کر بارگاہ نبوت سے بھاگ نکلا لیکن جب یہ مرا تو اس پر قہر خداوندی نازل ہوا کہ نصرانیوں نے جب اس کو دفن کیا تو قبر نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا نصرانیوں نے جب اس کی کی لاش کو قبر سے باہر دیکھا تو انھیں یہ شبہ ہوا کہ صحابہ نے اس کی لاش کو قبر سے نکال دیا ہو گا چنانچہ نصرانیوں نے دوبارہ نہایت گہری قبر کھود کر اس کو دفن کیا مگر پھر بھی اس کی لاش خود بخود نکل کر زمین کے اوپر آ گئی اس وقت نصرانیوں کو بھی یقین ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے بلکہ یقیناً یہ خدا کا قہر و غضب ہی ہے چنانچہ ان لوگوں نے پھر دوبارہ اس کو دفن کرنا گوارہ نہیں کیا اور اس کی لاش کو پھینک دیا (بخاری)
منہ ٹیڑھا ہوگیا
مکہ مکرمہ میں ایک بہت بڑا دشمن رسول تھا جس کا نام تھا ابوالعاص یہ اپنا منہ ٹیڑھا کر کے حضور اکرم صلی اللہ وسلم کا منہ چڑایا کرتا تھا ایک دن سرور کائنات کے قلب مبارک پر انتہائی صدمہ گزر گیا آپ نے جلال نبوت میں اس کی یہ حرکت دیکھ کر فرمایا کن کذالک یعنی تو ایسا ہی ہوجا زبان مبارک سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ ابوالعاص کا منہ ہمیشہ کے لئے ٹیڑھا ہوگیا جو ہر وقت ہلتا رہتا تھا (خصائص کبریٰ)
ابولہب کا انجام
سورۃ تبت یدا کے نزول کے بعد ابو لہب اور ام جمیل کی آتش غضب اور زیادہ بھڑک اٹھی اور یہ دونوں اور زیادہ خدا کے محبوب کی دل آزاری کرنے لگے مگر خداوند ذوالجلال کا قہاری حکم عذاب دارین بن کر ان دونوں کے سروں پر منڈلا رہا تھا چنانچہ صرف چند ہی دن گزرے کہ خداوندعالم کا قھر و غضب اس طرح عذاب بن کر ان دونوں پر اتر پڑا کہ دونوں انتہائی ذلت و رسوائی اور بے پناہ تکالیف میں مبتلا ہو کر موت کے گھاٹ اتر گئے ابولہب خطرناک اور زہریلی چیچک کی بیماری میں مبتلا ہو گیا اس کا تمام جسم پھوڑا ہو گیا جس کی بدبو سے کسی کا اس کے پاس ٹھہرنا دشوار تھا اس نے اپنے علاج پر پانی کی طرح روپیہ بہا دیا مگر خدا کا قہاری اعلان کہ ما اغنی عنہ مالہ وماکسب کب ٹلنے والا تھا نہ اس کا مال اس کو بچا سکا نہ اس کی کمائی اس کے کام آئی اس کا سارا بدن سڑ گیا اور وہ جنگ بدر کے ساتویں دن یعنی 24 رمضان 2ھجری کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگیا
ام جمیل کی پھانسی
ام جمیل ابو لہب کی بیوی تھی یہ خبیثہ کانٹوں کا گٹھا جو مونجھ کی رسی سے بندھا ہوا تھا اور رسی کا کچھ حصہ اس کے گلے میں لپٹا ہوا تھا حسب عادت اپنے سر پر لئے ہوئے چلی جا رہی تھی کہ ناگہاں تھک کر ایک پتھر کی چٹان پر بیٹھ گئی اتنے میں عذاب الہی کا ایک فرشتہ آیا اور اس گٹھے کو اس کے سر سے گرا دیا اور ایک دم رسی سے اس کے گلے میں ایسی پھانسی لگ گئی کہ اس کا دم گھٹ گیا اور وہ وہیں تڑپ تڑپ کر مرگئی
الغرض جس شخص کو یہ دیکھیں کہ وہ خدا کے مقدس بندوں انبیاء اولیاء اور صدیقین و شہداء یا علماء و فقہاء کی شان میں گستاخی و بے ادبی اور طعنہ زنی و بدگوئی کرتا ہے تو پھر سمجھ لیں کہ قہر خداوندی عذاب کا بادل بن کر اس کے سر پر منڈلا رہا ہے اور یقین کر لیں کہ یہ شخص طرح طرح کے عیوب اور بداعمالیوں میں مبتلا ہوکر دونوں جہاں میں خائب و خاسر اور ذلیل و رسوا ہونے والا ہی ہے
جواب دیں