گمشدہ بچپن

جو اپنے ماں کی گود کے محتاج اور دادی یانانی کی کہانیوں کے ضرورت مند ہوتے ہیں، ان کو شفقتوں سے محروم کرکے انہیں تعلیمی اداروں میں داخل کرانے کی دوڑ میں شامل کیاجاتاہے۔ نرسری میں داخلے کسی IITکے داخلے سے کم نہیں ہوتے۔ وہ بھاگ دوڈ ، مختلف کارروائیاں ، ایک بڑی رقم کی بھرپائی۔اس قیامت خیزمنظر کے دوران ان معصوم بچوں پر جو گذرتی ہے اس کااحساس کرنا مشکل ہے۔ کارپوریٹ نظام نے ایسا ماحول بنادیا ہیکہ خطیر رقم دے کر بچوں کو اسکول میں داخلہ دلوانا ناگزیرضرورت بن گئی ہے۔ 
اچھی خاصی فیس لینے کو جائز قرار دینے کی خاطر اسکول کے نصاب میں وسعت کی جاتی ہے۔ کتابوں کی تعداد میں اور اسکول کے اوقات میں اضافہ کیا جاتاہے۔ والدین کو مطمئن رکھنے کے لئے بچوں کو مشقی سرگرمیوں اور ہوم ورک میں اتنا مصروف کردیاجاتاہے کہ بچے اپنی فطرت کے تقاضوں کوپورانہیں کرپارہے ہیں۔ یہ تقاضے پورے کرنا ان کی متناسب نشوونما کے لئے ضروری ہیں۔ 
بچوں کے فطری تقاضوں میں ایک تقاضہ یہ ہے کہ اپنے ابتدائی دور میں وہ اپنے والدین اور بزرگوں سے قریب رہیں ۔ تاکہ ان میں والدین اور بزرگوں سے قربت ہوسکے۔ ان کی نفسیات میں بالیدگی پیدا ہوسکے۔ وہ ان سے کچھ سیکھیں اور تربیت حاصل کریں اور اپنی مذہبی اور تہذیبی روایات کوآگے لے جاسکیں ۔ لیکن ڈھائی تین سال کے عرصے سے ہی اسکول کی شروعات نے بچوں کے اندروالدین سے دوری کااحساس پید اہورہاہے۔ ان میں ڈر، خوف کے ساتھ ساتھ عدم اعتمادی اور تنہائی کے احساسات پروان چڑھ رہے ہیں۔ 
بچوں کادوسرا تقاضہ آزادی ہے۔ جو اسکول کے اصول وضوابط کے نتیجے میں سلب کرلی جاتی ہے۔ تین سے پانچ سال کی عمر کے بچے اصول وضوابط کی اہمیت کو نہیں جانتے ۔ وہ خود کو بادشاہ تصور کرتے ہیں اور تمام افراد کی توجہ کامرکز بنناچاہتے ہیں۔ روکر یا ضد کے ذریعہ اپنے احکامات کو نافذکرتے ہیں ۔ اگر ابتداء ہی میں ان کی مرضی اور خواہشات پر پابندی لگائی جائے تو وہ بڑے ہوکر ایک اچھے اور فرمانبردار غلام بن سکتے ہیں اور ایک روبوٹ کی طرح کارپوریٹ کمپنیوں کی خدمت میں لگ جاتے ہیں۔ 
بچوں یا بچپن کا تیسر اتقاضہ کھیل کودہے۔ کچھ سال پہلے تک بچوں میں میدانی کھیل بہت مشہور تھے۔اگر ان کھیلوں کے نام اور تفصیلات جمع کی جائیں تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔ لیکن اب وہ تمام کھیل معدوم ہورہے ہیں۔ جس کے لئے والدین ، اسکولس اور نئی ٹکنالوجی ذمہ دارہے۔ 
اسکول کے منتظمین اکثر تاجر حضرات ہوتے ہیں۔ جو کھیل کودکو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں ۔ بچوں میں پڑھنے ، لکھنے کی صلاحیت اور اچھے نمبرات کاحصول ہی ان کامقصد ہوتاہے۔ تاکہ اُن کے ادارے کانام روشن ہوسکے۔ اسلئے ہوم ورک، مفواجات(Assignments)، امتحان وٹسٹ ، نمائش Exhibitionاور اسکول ڈیس ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ۔ وہ نہیں جانتے کہ کھیل کے ذریعہ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتاہے۔ بچوں کے کھیل کے ذریعہ جو خوشی حاصل ہوتی ہے ، آج وہ گم ہوتی نظر آرہی ہے۔ اُن کا جو ش وجذبہ اسکول کے بستے تلے دب گیاہے۔ اور والدین بھی بچوں کامستقبل بنانے کے لئے بچوں کو ان کے حق سے محروم کررہے ہیں۔ صرف پیسہ ہی مستقبل نہیں ہوتا۔ بلکہ صحت ، اخلاق، اعتماد، سماجی روابط، خوشیاں اور آزادیِ فکر کامیاب انسان کے لئے ضروری ہے۔ 
الیکٹرانک ٹکنالوجی کے ارتفاع نے بھی بچوں میں کھیل کو دکے رجحانات میں تبدیلی لائی ہے۔ وہ ٹی وی اور اسکے کارٹون دیکھنے میں اپنا فارغ وقت لگادیتے ہیں ۔ کمپیوٹر ، ویڈیو گیمس ، اور موبائل کی عادت (اور آج کل واٹس اپ)نے توکھیل کے میدانوں کو بچوں سے خالی خالی کردیاہے۔ 
آج طلباء حقیقی دنیا سے زیادہ مجازی دنیا میں رہنا پسند کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اُن کی صحت، ذہنی بالیدگی اور سماجی اخلاق بڑی حدتک متاثر ہورہے ہیں ۔ یہ ایک بڑاسنگین معاملہ ہے۔ تعلیمی ماہرین اس پر غور کریں کہ بچے اپنے فطری تقاضوں کوپوراکرنے کی طرف کیسے لوٹیں ؟ یہ ہوسکتاہے کہ اسکول اپنے اوقات میں کھیل کو ایک لازمی جز قراردیں ۔ کیونکہ کھیل سے بھی طلباء بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔ سب سے اہم ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوتاہے۔ وہ ٹیم ورک Team Workکی اہمیت کو سمجھتے ہیں ۔ ان میں کھیل کے ذریعہ قیادت کی صلاحیت پید اہوسکتی ہے۔ مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور آگے بڑھنے کاجذبہ پروان چڑھتاہے ۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جل رہنے اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی صلاحیت آگے بڑھتی ہے۔
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں پر ہروقت سوارنہ ہوں ۔ ورنہ محبت کے نام پر وہ اپنے بچوں کو برباد کرنے کے ذمہ دار ہوں گے ۔ان کی نفسیات کو سمجھ کر کھیلنے کودنے کا موقع فراہم کریں تاکہ بچے آپ کو اپنا ہمدرد اور ساتھی سمجھیں ۔ آپ ان کے سرپرست بننے کے ساتھ ساتھ ان کے دوست بھی بنیں ۔ یادرکھیں ، صرف مال ودولت ہی سے خوشحال خاندان نہیں بن سکتا۔ اس کے لئے پیارومحبت اور خوشیاں درکار ہیں ۔ امید کہ ہم اپنے بچوں کی خوشیاں لوٹائیں گے۔ (یو این این)

«
»

جہیز کے خلاف ذہنی بیداری مہم نہایت ضروری

معتبرصحافی عارف عزیز سے ’’اُردوہلچل ‘‘ کے لئے جاوید یزدانی کی بات چیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے