از: ارفع میڈیکل یہ کس کی یاد میں چھپتے ہیں تعزیت نامہیہ کس کی یاد میں طغرا طراز ہے خامہ یہ روز یاد بعنوان تازہ کس کی ہے؟ یہ بار بار نمازِ جنازہ کس کی ہے؟ طویل پھر بھی مختصر…!!! بھٹکل فاروقی محلہ میں واقع ”اقبال منزل“ میں 17 اگست 1945کو ایک ایسی عظیم شخصیت نے اس وقت […]
یہ کس کی یاد میں چھپتے ہیں تعزیت نامہ یہ کس کی یاد میں طغرا طراز ہے خامہ یہ روز یاد بعنوان تازہ کس کی ہے؟ یہ بار بار نمازِ جنازہ کس کی ہے؟
طویل پھر بھی مختصر…!!! بھٹکل فاروقی محلہ میں واقع ”اقبال منزل“ میں 17 اگست 1945کو ایک ایسی عظیم شخصیت نے اس وقت اپنی آنکھ کھولی جب ہر طرف بدعات عام تھیں اور خرافات کی چادر نے لوگوں کو اپنی آغوش میں کر رکھا تھا اور لوگ غلط رسم و رواج کو نبوی طریقہ کار سمجھ رہے تھے اور شہر بھٹکل، بھٹکل کی ہر گلی، گلیوں کی ہر گھر سے غیر شعوری طور پر سنت کے جنازے اٹھ رہے تھے، یہی بچہ جب سن شعور کو پہنچتا ہے تو اس کا داخلہ کانوینٹ اسکول میں ہوتا ہے، پھر سالوں بعد بھٹکل کی عظیم شخصیت محی الدین منیریؒ کے بیان سے متاثر ہوتا ہے اور اسکول چھوڑنے کا فیصلہ کر بیٹھتا ہے، اس وقت اس بچے کا حال یہ تھا کہ ذہانت میں وہ ایک ضرب المثل بن گیا تھا، اسکول کے ماسٹر، اساتذہ اور ذمہ دار اِ س بچہ کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے اور آپس میں کہتے کہ یہ وہ بچہ ہے جو ہمارے اسکول کے مستقبل کی امید ہے، پھر یہی بچہ جب اپنے بڑوں سے کہتا ہے کہ مجھے اسکول چھوڑ کر جامعہ جانا ہے، مدرسہ میں پڑھ کر دین کی خدمت کرنی ہے تو سب ذمہ داروں کے ہوش اڑ جاتے ہیں، اور اس بچہ سے کہتے ہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہو، آپ کا اس اسکول میں ایک مستقبل نظر آرہا ہے، آپ اس اسکول کے ایک روشن چراغ ہو، آپ شہر بھٹکل کے ایک بہترین ڈاکٹر بن سکتے ہو، ہزاروں کوششوں کے باوجود وہ یہی کہتا رہا کہ مجھے جامعہ جانا ہے، ایک طرف پوری قوم، اسکول کے ذمہ دار اور گھر کے تمام افراد، تو دوسری وہ معصوم سا تن تنہا وہ لڑکا جو ابھی تک پوری طرح سے جوانی کی دہلیز پر قدم بھی نہیں رکھا تھا، جس کے ایک فیصلے نے شہر بھٹکل کی تقدیر بدل دی، یہیں سے اس کی بے باکی، بلند ہمتی اور قوت ِ فیصلہ کا ایک باب شروع ہوتاہے۔ پھر جامعہ سے فراغت اور ندوة العلمائکی فضیلت کی تکمیل کے بعد تین نوجوانوں پر مشتمل ایک ٹیم، جس میں مولانا صادق صاحب اکرمی، مولانا غزالی صاحب خطیبیؒ اور مولانا اقبال صاحب ملا ؒ۔ یہ نوجوان بھٹکل کے تاریک ماحول میں قدم رکھتے ہیں اور لوگوں کے دلوں کا مداوا بنتے ہیں، یہی وہ اشخاص ہیں جنہوں نے مئے توحید کا جام لے کر دیوانہ وار رندوں کی محفلوں میں پھرے۔یہی وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنہوں نے ایک تاریک علاقے کو سنت ِ نبوی سے منور کیا، یہی وہ بندگانِ خدا ہیں جو روشنی کا مینار بنے، یہی وہ ملکوتی صفات کے حامل ہیں جنہوں نے سوز ِ دروں سے ظلمتوں کے پردے چاک کئے، اور پھر اپنی شعلہ بیانی سے نوجوانوں میں اس قدر ولولہ پیدا کیا کہ خاک کی چٹکی میں پرواز آگئی، اور پھر اس سکانِ زمین یعنی انسانوں کے چرچے آسمانوں میں ہونے لگے، یہی وہ اللہ کے محبوب بندے ہیں جنہوں نے لوگوں کے تاریک دلوں کو ایمان کے نور سے مزین کیا، یہی وہ افراد ہیں جنہوں نے بدعات و خرافات کے اندھیروں میں توحید کا صور پھونکا، یہی وہ افراد ہیں جنہوں نے ذرے کو آفتاب بنایا، یہی وہ اشخاص ہیں جنہوں نے نوجوان نسل کو کج روی سے نکال کر صراطِ مستقیم کی طرف لے آئے، یہی وہ اشخاص ہیں جو معاشرہ میں پھیلی بے راہ روی پر نکیر کی، یہی وہ افراد ہیں جنہوں نے غافل دلوں کو اپنے مواعظ ِ حسنہ سے جھنجھوڑا، یہی وہ افراد ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی کلمہ توحید اور کلمہ حق کا درس دیا، یہی وہ اشخاص ہیں جنہوں نے پتھر دل انسانوں کو بھی لاالہ الا اللہ کے زمزمے سنائے، یہی وہ اشخاص ہیں جنہوں نے اپنے حکیمانہ اسلوب سے ہر برائی کا خاتمہ کیا، یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے اس گئے گزرے دَور میں بھی شرافت کا سبق پڑھایا، یہی وہ اشخاص ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانیت کے لئے وقف کی، یہی وہ اشخاص ہیں جنہوں نے شہر بھٹکل کی اس گدلی فضا کو چمنستانِ علومِ نبوت سے آراستہ کیا، یہی وہ اشخاص ہیں جنہوں نے ایمانی روح اس وقت پھونکی جب یہاں کی کلی کلی بدعات میں ڈوبی ہوئی تھی، یہی وہ افراد ہیں جنہوں نے لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت سے سرشار کرایا، یہی وہ افراد ہیں جنہوں نے لوگوں کو اتباعِ سنت کا پابند بنایا، اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہی وہ خدا کے محبوب بندے ہیں جنہوں نے لوگوں کو تاریکی سے نکال کر نور کی طرف لے آئے۔ اور یہ کام انہوں نے بڑی مردانگی، ہمت، عزم و استقلال، جرات مندی، مستقل مزاجی اور اعلیٰ درجہ کی منصوبہ بندی سے انجام دیا۔
شورشِ عندلیب نے روح چمن میں پھونک دی ورنہ کلی کلی یہاں مست تھی خوابِ ناز میں
یہ تواضع بھی کیا تواضع ہے، جب میں عالیہ رابعہ میں زیرتعلیم تھا تو مولانا مرحوم کتاب الجنائز پڑھایا کرتے تھے، کچھ دن گھنٹوں میں غیر حاضری کی وجہ سے مولانا نے مجھے بلا بھیجا، پھر وجہ پوچھی میں نے کہا کہ میری کمر میں تکلیف ہے، مولانا نے فوراً کہا کہ میرا ایک دوست ڈاکٹر ہے میں آپ کو اس کے پاس لے جاتاہوں، میں نے انشائاللہ کے ذریعہ بات ٹال دی، اور پھر میں بھول ہی گیا، مولانا نے مجھے پھر یاددہانی کی اور کہا کہ بیٹا کب چلنا ہے؟ میں نے کہا کہ جب آپ مناسب سمجھیں، اس طرح میں بھولتا رہا اور مولانا یاد دلاتے رہے، پھر اسی طرح سال گزر جاتاہے، جامعہ سے فراغت بھی ہوجاتی ہے اور ندوہ سے فضیلت بھی، پھر اسی سال حفظ ِ قرآن کے لئے جامعہ میں داخلہ ہوتاہے، پھر مولانا سے ملاقات ہوتی ہے، پہلی ہی ملاقات میں مولانا پوچھتے ہیں کہ طبیعت کیسی ہے؟ اتنا سننا تھا کہ میرے ہوش اڑ جاتے ہیں اور میری زبان سے بے ساختہ سبحان اللہ نکلتا ہے۔ دو تین سال گزر گئے اتنی لمبی مدت کے بعد سیکڑوں ذمہ داریوں کے باوجود قوم کے مسائل میں الجھا ہوا شخص پھر دوبارہ وہی بات کہتا ہے کہ کب چلنا ہے؟ میں نے کہا کہ جب آپ مناسب سمجھیں، پھر اسی طرح نصف سال گزر جاتاہے، مولانا یاد دلاتے رہے اور میں ٹالتا رہا۔ پھر کچھ دنوں بعد میں نے مولانا سے کہا کہ فلاں دن چلنا ہے، پھر دن بھی متعین ہوجاتاہے اور سواری بھی تیار ہوجاتی ہے، میں اور میرے کچھ ساتھی مولانا کے ہمراہ چلتے ہیں، وہاں پہنچنے کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر خود مولانا کے استقبال کے لئے نیچے آیا ہوا ہے، اور ڈاکٹر ہمیں اپنے ساتھ کلینک لے جاتاہے، ہم قطار میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے اور مولانا باہر ہمارا انتظار کررہے تھے، وہ شخص اپنی کمزوری اور پیرانہ سالی کے باوجود گھنٹوں ہمارا انتظار کررہا تھا، جس کا لوگ گھنٹوں انتظار کیا کرتے ہیں۔ آہ اقبال آہ! دوپہر کا وقت تھا، عصر کی اذان سے کچھ منٹ قبل حسب ِ معمول آنکھ کھلی تو میں موبائل میں واٹس اپ چیک کررہا تھا کہ ايک گروپ میں میسج آیا کہ مولانا کا انتقال ہوگیا، تو میں نے پوچھا کہ کون مولانا؟ بے صبری کا عالم تو یہ تھا کہ اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر میں نے مولوی شمیر کو فون ملا کر بات کی تصدیق کی، تو مولوی شمیر نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ہے، تو وہ اپنے والد ِ محترم اور ہم سبھوں کے استاد مولانا مقبول صاحب کو پوچھنے لگا، اس وقت مولانا کو بھی پتہ نہیں تھا، وہ بھی کسی سے فون پر مشغول تھے، پھر کچھ دیر بعد مولوی شمیر نے انا للہ وانا الیہ راجعون کہا، اتنا سننا تھا کہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، پاؤں تلے زمین کھسک گئی، یہ اصطلاح میں نے اپنی طالب ِ علمی میں بہت بار سنی تھی، اور متعدد بار غیر درسی کتابوں میں پڑھ بھی چکا تھا اور بڑوں سے بارہا سنا بھی تھا، لیکن اس کی کیفیت سے اور صحیح حقیقت سے ناآشنا تھا۔ زندگی میں دوسری دفعہ مجھے اس کی صورتِ حال کا اندازہ اس وقت ہوا، جب مولوی شمیر نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، پہلی دفعہ اس وقت ہوا تھا جب محسن ِ قوم، خادمِ قوم وملت، بلبل ِ خوش نوائےِ جامعہ، قابل ِ فخر سپوت مولانا عبدالباری رحمة اللہ علیہ کے انتقال پر ہوا تھا۔ مولانا اقبال صاحب آج سے تقریباً دو ماہ قبل ایک وبائی مرض سے لڑ رہے تھے جس کی وجہ سے متعلقین پر ایک اداسی چھاگئی، اور اسی اداسی میں ہزاروں افراد نے ان کی صحت یابی کے لئے دعائیں بھی کیں، کئی دنوں سے مولانا کی طبیعت خراب چل رہی تھی، اور منگل کی رات ذرا سنبھل گئی، تو متعلقین الحمدللہ پڑھنے لگے اور چہرے پر خوشی سی چھاگئی اور ایک امید کی کیفیت طاری ہوگئی، جس پر خوف کا غلبہ تھا، پھر دل کو اطمینان دلانے کے لئے ”لا تقنطوا من رحمة اللہ“ کا سہارا لیا کرتاتھا، اتنے شدت ِ مرض کے باوجود بھی ہر کوئی اپنی زبان پر مایوسی کے کلمات لانے سے اجتناب کررہا تھا، کیونکہ اسے اللہ پر ایمان تھا، کیونکہ صرف بھٹکل ہی میں نہیں بالکل اطراف ِ بھٹکل اور ایک قدم آگے بڑھ کر میں کہوں پورے ہندوستان بلکہ پورے بر صغیر میں دعائیں کی جارہی تھیں، اور خاص طور پر حرمِ شریف اور مدینہ طیبہ اوردنیا کے مختلف علاقوں سے بزرگانِ دین کی جو دعائیں تھیں وہ دل کو بہلا رہی تھیں، شاید جہاں دوا دارو کام نہ کرسکے وہاں دعائیں ہی اپنا کرشمہ دکھاسکتی تھی اور یہ مولانا کی کرامت بن کر سامنے آسکتی تھی، پھر دوسرے دن عصر سے پہلے مولانا داع · اجل کو لبیک کہہ گئے "خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں " پھر دیکھتے ہی دیکھتے جو شہر بھٹکل اپنی رنگینی کی وجہ سے جانا جاتاتھا اس کی رنگینی میں خوف کے بادل چھاگئے اور ہر گلی کوچہ ماتم کدہ میں تبدیل ہوگیا، ہر گھر میں اداسی، ہر فرد غمگین، لوگوں کے چہرے اترے اترے نظر آنے لگے، ہر آنکھ آبدیدہ، گھر کی خواتین بچوں کو تسلی دیتی نظر آئیں، بڑے بوڑھوں کا تو رو رو کر برا حال ہوگیا، پورے بھٹکل اور اطراف ِ بھٹکل میں غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، محکمہ شرعیہ کی وہ عمارت جہاں بیٹھ کر مولانا فیصلے کیا کرتے تھے اور جامع مسجد کی در و دیوار اور خاص کر وہ کرسی جس پر کئی سالوں سے مولانا نمازِ جمعہ ادا کررہے تھے، جو کرسی کئی مدتوں تک ایک عظیم ہستی اور انقلابی رہنما کا بوجھ خوشی خوشی اٹھا رہی تھی اور جامعہ اسلامیہ کی چہار دیواری اور اس شہر کے شجر و حجر اور دیواروں کے چپہ چپہ پر اور ہر شے پر ماتم عیاں تھا، اور ہر کوئی اپنے دل پر پتھر رکھ کر صبرایوبی کا نمونہ بنا ہوا تھا، جی ہاں! وہ ہمیں یتیم بنا کر چلا گیا، وہ چلا گیا جو پیچیدہ سے پیچیدہ گتھی سلجھانے کے لئے جس کے تجربوں اور مفید آرائکی ضرورت پڑا کرتی تھی، وہ شخص چلا گیا جس سے محفلیں بارونق تھیں، وہ چلاگیا جو ہر محفل کی زینت تھا، وہ چلاگیا جو فقہ شافعی کی مجسم شکل تھی، وہ چلا گیا جو لایخافون لومة لائم کا مصداق تھا، وہ چلا گیا جو تاریکیوں میں مشعل تھا، وہ چلا گیا جو تواضع کی زندہ جاویدمثال تھا، وہ چلا گیا جس کی رائے قولِ فیصل تھی، ہاں ہاں آج وہ چلا گیا جو دعوتی میدان میں مؤثر رول ادا کرتاتھا، وہ اس سورج کی روشنی کی طرح تھا جسے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی ”آفتاب آمد دلیل آفتاب“
ولیس یصحح فی الاذہان شیٌّ اذا احتاج النہار الی دلیل
جب محسن ِ قوم و ملت مولانا اقبال صاحب کا جنازہ بھٹکل لایاگیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے باوجود بھی جنازہ کی نماز چار بار ادا کی گئی، اس رات یہ منظر دیکھ کر شاید آسمان و زمین، چاند و ستارے سب حیران ہوئے ہوں گے اور آسمان یہ پوچھ رہا ہوگا کہ کون سا مہمان آرہا ہے، اور یہ کون شخص ہے جس کے ایک دیدار کے لئے لوگ گھنٹوں سے قطار میں کھڑے ہیں اور قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں، ہر کسی کا دل قلب ِ مضطر بنا ہوا ہے، ستارے بھی فلک سے پوچھنے پر مجبور ہوئے ہوں گے کہ یہ عالم باکمال کون آرہا ہے،پھر فلک بھی جواب دیتا ہوگا یہ وہ شخص ہے جو انسانیت کا ہمدرد تھا، وہ آج عارضی زندگی کو چھوڑ کر ابدی حیات کی جانب آرہا ہے اس وقت میں علامہ اقبال ؒ کا ایک شعر بطور مستعار لینے پر مجبور ہوں ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا بہت کم شخصیتیں ایسی گزری ہیں جو اپنی حیات اور بعد ِ حیات شہرت و ناموری کی معراج پہ جا پہنچتی ہے، ان میں سے ایک ایسی ہی ایک نابغئہ روزگار شخصیت قاضی شہربھٹکل حضرت مولانا اقبال صاحب رحمة اللہ علیہ کی تھی۔ زندگی کے تمام شعبہ پر ان کی گہری نظر تھی، ان کی شخصیت ایک ایسی خوشبو کی مانند تھی جو ہر طرح کی فضا میں مشکبار ہوتی، ان کی مفارقت بذات ِ خود ایک ایسا کوہِ گراں ہیں جس کے بوجھ تلے پورا وجود دب سا جاتاہے، اس کی فکر سے دل مغموم ہوجاتاہے اور یقین کی حس ساکت و صامت ہوجاتی ہے، خیال طوفان کی طرح شورشِ غم ابھارتے ہیں اور انسان بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ زندگی کا لطف اسی میں ہے کہ اپنی خوشی آئے اور اپنی خوشی چلے گئے۔
حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی میں آج چین سے سوتا ہوں پاؤں پھیلا کر
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں