غلامی ہرگز تسلیم نہیں لیکن احتجاج پرامن ہو

ظفر آغا

ہر ظلم کی ایک انتہا ہوتی ہے لیکن اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے ظلم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ صوبہ کی پولس یوگی کے حکم کے مطابق اتر پردیش کے مسلمانوں پر وہ قہر ڈھا رہی ہے جس کو ویڈیو پر دیکھ کر اور سن کر ظالم سے ظالم شخص بھی لرز جائے۔ 20 دسمبر کو جمعہ کے روز شہریت قانون کے خلاف مسلم علاقوں میں جو احتجاج ہوا اس میں خود حکومت کے مطابق اب تک 22-20 افراد کے مارے جانے کی خبر ہے۔ پولس یہ جھوٹ بول رہی ہے کہ اس کی گولی سے کوئی نہیں مرا ہے۔ لیکن ہمارے رپورٹر نے میرٹھ میں مارے جانے والے بچوں کے اہل خانہ سے جب بات کی تو گھر والوں نے بتایا کہ گولی سینے پر لگی، ماتھے پر لگی اور پیٹھ میں لگی۔ فیروز آباد سے یہ اطلاع ملی کہ وہاں دو بچے مر گئے۔ کچھ بچے جیل میں ہیں۔ مظفر نگر میں گھر میں گھس کر پورے گھر کو تہس نہس کر دیا گیا۔ ایک گھر سے پولس والے لاکھوں روپے اور جہیز کا سامان اٹھا لے گئے۔ پولس کا رویہ وہ تھا جو کبھی فاتح فوج کا محکوموں کے ساتھ ہوتا ہے۔

آخر یہ ظلم کی انتہا کیوں! کیا جمہوریت میں احتجاج کی اجازت نہیں؟ کوئی بھی جمہوری نظام مخالفت کے بغیر چل ہی نہیں سکتا ہے، تو پھر یو پی میں احتجاج کے خلاف پولس کی یہ بے رحم کارروائی کیوں! الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ مجمع پر اشتعال ہو گیا تھا اور پولس نے اپنی دفاع میں گولی چلائی۔ بالکل جھوٹ۔ لکھنو میں صدف جعفر نام کی ایک عورت کو صرف اس لیے گرفتار کر لیا گیا کہ اس نے یہ ویڈیو چلایا کہ وہاں چل رہے پرامن احتجاج میں یکایک کچھ بلوائی اور شرپسند عناصر آ گئے اور انھوں نے توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ صدف نے خود پولس سے جا کر کہا کہ پولس ان کو پکڑ کیوں نہیں رہی ہے، تو پولس وہاں سے ہٹ گئی۔ جب اس نے شور مچایا اور ویڈیو چلایا تو اس کو گرفتار کر لیا گیا۔ تھانے میں ایک عورت ذات کی بری طرح پٹائی کی گئی اور پھر اس کو جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ صدف جعفر لکھنو کی مشہور سماجی کارکن ہے، کانگریس کی ترجمان بھی ہے، لیکن بے چاری ابھی تک جیل میں سڑ رہی ہے۔

اس کے ویڈیو سے یہ بات عیاں ہے کہ ایک سازش کے تحت مجمع میں شرپسند عناصر کو شامل کر پرامن احتجاج کو پرتشدد بنوایا گیا تاکہ پولس مسلمانوں پر اپنا قہر ڈھا سکے۔ لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے! آر ایس ایس، بی جے پی، مودی اور یوگی کی مسلم دشمنی سے تو سب واقف ہیں۔ مودی کی سرپرستی میں ہزاروں مسلمان گجرات میں مارے گئے اور وہ فرماتے ہیں کہ ان موتوں کا انھیں اتنا ہی افسوس ہے جتنا ایک کتّے کے پلے کا کار سے کچلنے کا افسوس ہوتا ہے۔ یوگی نے سنہ 2010 میں اپنے شہر گورکھپور میں یہ تقریر کی کہ اگر مسلمان ایک ماریں گے تو ہم سو ماریں گے۔ پھر ابھی احتجاج سے قبل یوگی نے یہ بیان دیا کہ اگر احتجاج میں تشدد ہوا تو پولس مسلمانوں سے بدلہ لے گی۔ تب ہی تو یو پی پولس یوگی کا حکم بجا لا رہی تھی۔ لیکن اتر پردیش میں جو ظلم ہوا اس کا مقصد صرف ظلم ڈھانا یا سبق سکانا ہی نہیں تھا بلکہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سنگھ کے پورے منصوبہ کے تحت ہو رہا ہے۔ سنگھ کی کھلی پالیسی ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دو۔ اس کے لیے شہریت قانون میں ترمیم ہوئی ہے۔ اب قومی آبادی رجسٹر کی بات چھیڑی گئی ہے۔ جب یہ رجسٹر بن جائے گا تو پورے ملک گیر پیمانے پر این آر سی لاگو کر مسلمانوں کی کثیر آبادی کو شہری حقوق سے بے دخل کر دیا جائے گا۔ اور پھر جیسے اسرائیل میں فلسطینیوں کو کیمپوں میں رکھا جاتا ہے ویسے ہی مسلمانوں کو کیمپوں میں قید میں رکھا جائے گا۔ اس کے لیے جگہ جگہ پورے ملک میں ابھی سے کیمپ بنائے جا رہے ہیں۔ اور یو پی میں جو ظلم ہو رہا ہے اس کا مقصد مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر غلام بنانے کی کوشش ہے۔ یعنی اگر تم احتجاج کرنے کی جرأت کرو گے تو پھر ہم تمھارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو یو پی میں کیا گیا۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان خود کو دوسرے درجے کا شہری تسلیم کر لے اور غلاموں کی طرح ایسی خوف کی زندگی جیے کہ اس کی احتجاج کی جرأت نہ ہو۔ اس اعتبار سے یو پی میں جو کچھ ہوا اور جو ہو رہا ہے وہ ایک لیب کا تجربہ تھا جس کا استعمال پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہوگا۔

اب اس ملک کا مسلمان کرے تو کرے کیا! یا تو وہ جو سنگھ کی مرضی ہے کہ وہ اپنے کو غلام تسلیم کر لے یا پھر جدوجہد کرے۔ لیکن اگر جدوجہد کرنا ہے تو یو پی جیسے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ اب اس ملک کی اقلیت کو ان دو باتوں میں سے ایک بات چننی پڑے گی۔ ظاہر ہے کہ اس اکیسویں صدی میں کوئی بھی قوم غلامی کی زندگی نہیں جی سکتی ہے۔ تو پھر بس ایک جدوجہد کا راستہ بچا ہے۔ پھر جدوجہد ہو تو کیسی ہو! اس دور میں جدوجہد کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ممکن ہے اور وہ گاندھی جی کا طریقہ ہے۔ یعنی آپ پر کتنا ہی ظلم ہو، آپ کو ہر حال میں پرامن رہنا ہوگا۔ ہر احتجاج کا طریقہ محض گاندھی جی والا ہونا چاہیے۔ یعنی مسلمان کو ہر حال میں پرامن رہنا ہوگا۔ لیکن پرامن احتجاج میں شرپسند عناصر کو گھسوا کر مجمع کو پراشتعال کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ اس سازش سے بچنے کے لیے مجمع پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ منتظمین کو پہلے سے اعلان کر کے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے اور پرامن رہنے کی مستقل اپیل کرتے رہنا چاہیے۔

ہر احتجاج میں ایک بات کا اور لحاظ رکھنا ہوگا، اور وہ یہ کہ جہاں تک ممکن ہو احتجاج یک طرفہ مسلم احتجاج نہ ہو۔ یعنی غیر مسلمانوں کے ساتھ مل کر احتجاج ہو۔ مجمع میں کسی قسم کے جذباتی یا مذہبی نعرے نہیں لگیں اور ہر اجتماع میں غیر مسلم شرکا ضرور سے ضرور موجود ہوں۔ اچھی بات یہ ہے کہ شہریت قانون معاملے پر ہزاروں کی تعداد میں غیر مسلم نہ صرف احتجاج کر رہے ہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ کاندھا سے کاندھا ملا کر چل رہے ہیں۔ یہ ملک کی گنگا-جمنی تہذیب کا ملک ہے اور اس ملک کا ہندو بھی اس تہذیب کے تحفظ کے لیے کھڑا ہو گیا ہے۔ اس لیے گھبرائیے مت۔ لیکن یاد رکھیے کہ کسی بھی شرط پر غلامی تسلیم نہیں کی جا سکتی ہے۔ ایک جنگ آزادی اور سہی- اگر ہندو-مسلم مل کر سنگھ کی غلام بنانے کے خلاف لڑیں گے تو کامیاب ضرور ہوں گے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہر صورت اور حالت میں پرامن رہنا ہے۔

«
»

عہدنبویؐ میں نظام تعلیم……(دوسری قسط)

پھوٹے گی صبحِ امن لہو رنگ ہی سہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے