گجرات میں ترقی کی حقیقت :کیا ملک میں ویسے ہی ترقی ہوگی؟

مثال کے طور پر ورون گاندھی پیلی بھیت سے اس لئے اپنا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں توڑ ڈالنے کی بات کہی تھی ۔ قربان جائیے سیکولر پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو، نوجوان وزیر اعلی اکھلیش یادو کی حکومت اور پولیس پر کہ ان میں سکت نہیں تھی کہ وہ ورون گاندھی کی آواز کا نمونہ حاصل کرسکیں۔ اترپردیش کی حکومت ورون گاندھی سے اتنی ڈری سہمی ہوئی ہے کہ نہ صرف ان کی آواز کا نمونہ لینے سے قاصر رہی بلکہ نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل تک نہیں کی ۔نچلی عدالت نے آواز کا نمونہ پیش نہ کرنے کی وجہ سے ورون گاندھی کو اشتعال انگیز تقریر کے الزام سے بری کردیا ہے۔ اس طرح ایک دو نہیں کہ سیکڑوں کی تعداد میں رہنما ہیں جن کی روزی روٹی مسلم دشمنی سے چلتی ہے۔ ایسے رہنمانہ صرف یہاں کے ہیرو ہیں بلکہ میڈیا اور پولیس میں بھی انہیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پولیس والے اگر کسی معاملے میں انہیں عدالت میں پیش کرتے بھی ہیں تو ایک مجرم کی طرح نہیں بلکہ ایک ہیرو کی طرح پیش کرتے ہیں اس کے برعکس اگر کسی مسلمان کو جھوٹے الزام میں حراست میں لیا جاتا ہے اور انہیں عدالت اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے کہ ہندوستان میں اس سے بڑا خونخوار مجرم کوئی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کو عملی طور پر یہاں خلاف قانون نہیں سمجھا جاتا ہے ورنہ پروین توگڑیا، سادھوی رتھمبرا، اوما بھارتی، کلیان سنگھ، بی جے پی اورسنگھ پریوار کے سیکڑوں لیڈر جیل میں ہوتے۔ ہندوستان میں کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب یہاں مسلمانوں کی مذہبی عبادت گاہوں کو نقصان اور مقدس کتاب کی بے حرمتی نہ کی جاتی ہو۔ خصوصاً جب کوئی تہوار کاموقع آتاہے تومسلمانوں کے ساتھ خوشیاں بانٹنے سے زیادہ ان کی توجہ مسلمانوں کی عبادات گاہوں اور مقدس کتابوں کی بے حرمتی کے طریقے ڈھونڈنے پر ہوتی ہے ۔ہولی ، رام نومی اور دیگر تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کا خوف ستانے لگتا ہے۔اگر اس موقع پر کوئی سانحہ رونما ہوجائے توجانی و مالی نقصان تو مسلمانوں کا ہوتا ہی ہے ساتھ ہی گرفتاریاں بھی مسلمانوں کی ہی ہوتی ہیں۔ مہاراشٹر کے دھولیہ کے فسادات مارے بھی مسلمان گئے تھے اور گرفتاریاں بھی مسلمانوں کی ہی ہوئی تھیں۔ قانون نافذکرنے والوں کوکیوں کہ کسی طرح کی کارروائی کا خوف نہیں ہوتا بلکہ پروموشن کا سنہرا موقع ملتا ہے جس طرح بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے خلاف فسادات میں اہم رول ادا کرنے والے پولیس افسران نہ صرف اعلی عہدوں پر پہنچے بلکہ ڈائرکٹر جنرل آف پولیس تک بنائے گئے۔ جہاں حکمرانوں کی یہ سوچ اور رویہ ہو وہاں پولیس والے مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم نہیں کریں گے تو کیا کریں گے۔ گزشتہ دس برسوں سے نریندر مودی کی ذہنیت کیفیت، رویہ، قانون کا احترام ، مودی کو سپریم کورٹ کی پھٹکار، بین الاقوامی سطحً پر مودی کی بے عزتی،کبھی موت کا سوداگر اور تو کبھی ’یمراج‘ (موت کا فرشتہ) جیسے مختلف وحشیانہ القاب سے نوازا گیا لیکن ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اس سے انہیں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں زبردست فائدہ ہوا اور وہ ہندوستان کے اسٹار سے سپراسٹار بنتے گئے اور گجرات میں مسلمانوں کا ناطقہ بند ہوتا گیا لیکن گجراتی اور ہندوستانی عوام میں مودی کے تئیں کسی طرح کی نفرت تو دور ناراضگی کا عنصر بھی نہیں پایا گیا انہیں ایک طرح سے بھگوان کا درجہ حاصل ہے۔ اب وہ گجرات کی خدمت کرنے کے بعد پورے ملک کی خدمت کرنے کے درپے ہیں۔ مودی کی خدمت کا مطلب کیا ہوتا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اسی طرح جب گجرات فسادات کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے انہیں ’راج دھرم‘ نبھانے کی نصیحت کی تھی تو انہوں نے بے ساختہ اور نہایت بے شرمی سے کہا تھا کہ ’میں راج دھرم ہی تو نبھا رہا ہوں‘ یعنی مسلمانوں کا قتل عام انجام دے کر راج دھرم ہی تو نبھایا ہے۔
نریندر مودی کا یہ دعوی کہ انہوں نے گجرات کی بہت خدمت کرلی ہے اور اس کے صلے میں انہیں وزارت اعظمی کے تخت پر بٹھایا جانا چاہئے۔جہاں تک گجرات کی ترقی بات سوال ہے وہ گیارہویں بارہویں صدی سے ہی تجارت کا مرکز رہا ہے اور اس وقت بھی مرکز ہے۔ اگر گجرات میں گدھے کو بھی وزارت اعلی کی کرسی پر بٹھادیاجائے تو گجرات ترقی کرے گا کیوں کہ تمام بنیادی ڈھانچے وہاں پہلے سے موجود ہیں۔ دوسری ریاستوں کی شرح ترقی سے موازانہ کیا جائے گا تو بات سمجھ میں آئے گی کہ گجرات میں کیا ترقی ہورہی ہے ۔ بہار کی طرح گجرات میں بھی میڈیا کے سہارے ترقی ہورہی ہے ۔ وہاں کی ترقی کی بات کی جائے گی تو پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ دس سال پہلے گجرات کہاں تھااور اس کے مقابلے میں اس وقت کہاں ہے اور دوسری ریاستیں دس سال پہلے کہاں کھڑی تھیں اور اس وقت کہاں کھڑی ہیں۔ یہ وقت اعداد و شمار پیش کرنے کا نہیں ہے اور اس پر کافی کچھ لکھا جاچکا ہے اس لئے صرف گجرات میں قرض کی صورت حال ایک رپورٹ پیش کی جارہی ہے۔ مودی نے گزشتہ 11 برسوں کے دوران گجرات کو بھاری قرض میں ڈبو دیا ہے۔ مودی نے 2001 میں جب پہلی بار وزیر اعلی کی کرسی سنبھالی تھی، اس وقت سے اب تک تک گجرات پر قرض کا بوجھ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔گجرات پر قرض 2001-02 میں 45

«
»

کیا یہی ہے تہذیبوں کی جنگ

ممبرا میں پولیس کی دہشت گردی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے