گجرات میں شراب بند۔ کیا واقعی؟

ہمارا گجرات سے کوئی تعلق نہ ہونا چاہئے تھا لیکن یہ اتفاق تھا کہ سنبھل اور خاص طور پر ہمارے محلہ کے سیکڑوں لوگ جن میں ہمارے کئی دوست اور کچھ دور کے عزیز بھی تھے زمین داری کے خاتمہ کے بعد احمد آباد میں جاکر بس گئے تھے اور وہاں مختلف کام شروع کردئے تھے۔ ان کی وجہ سے سنبھل کے دو چار باربر وہاں چلے گئے اور پھر اتنے نائی جاکر بس گئے کہ سنبھل کو نائیوں والا سنبھل کہا جانے لگا ان ہی کی پریشانی میں ہم 1969 ء میں اس وقت احمد آباد گئے جب وہاں خاص اس علاقہ میں فساد ہوگیا تھا جہاں یہ سب آباد تھے۔ بعض عزیزوں کی تلاش میں احمد آباد میں کئی دن رہنا پڑا اور اسی زمانہ میں معلوم ہوا کہ سنبھل کے ہی دو چار لڑکے کہیں دور جابسے ہیں جہاں شراب کی بھٹیاں لگی ہیں اور سیکڑوں بوتل شراب احمد آباد آتی ہے۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ گجرات میں انتہائی قیمتی شراب سب سے کم قیمت پر اس لئے ملتی ہے کہ انہیں صرف پولیس کو ان کا حق دینا پڑتا ہے اس کے علاوہ ان کے اوپر کوئی ٹیکس نہیں لگتا کیونکہ یہ سارا کام دو نمبر میں ہورہا ہے۔

اور یہ تو شاید تین سال پہلے کی بات ہے کہ زہریلی شراب پی لینے کی وجہ سے ایک ہی محلہ کے 32 آدمی مرگئے تھے اور پورے گجرات میں شور تھا کہ یہ کیسی پابندی ہے؟ اسی وقت اخبارات اور ٹی وی نے ساری تفصیل سامنے رکھ دی تھی کہ یہ شراب زہریلی نہیں تھی شاید اس کے بنانے والے اناڑی تھے ورنہ گجرات میں جو گاؤں گاؤں شراب کی بھٹیاں لگی ہیں ان میں بہت معیاری شراب بنتی ہے۔ انہوں نے ہی بتایا تھا کہ احمد آباد بڑودہ راج کوٹ وغیرہ ایسے تمام شہروں میں آپ اگر پانی کی بوتل منگوائیں تو پندرہ منٹ لگیں گے اور اگر شراب کی بوتل منگوائیں تو پانچ منٹ میں مل جائے گی۔ انہوں نے ہی بتایا تھا کہ پورے ملک میں گجرات ایسا اکیلا صوبہ ہے جہاں شراب کی ہوم ڈیلیوری ہوتی ہے آپ فون کرکے اپنا نمبر بتائیے وہ جب آپ کو فون کریں تو گھر کا نمبر اور پتہ بتا دیجئے اور یہ بتا دیجئے کہ آپ کو کون سی اور کتنی شراب چاہئے؟ وہ چند منٹ کے اندر آپ کے دروازہ پر پہونچ جائے گی۔
بہت دنوں کے بعد یہ خبر آئی ہے کہ ڈھائی ارب روپئے مالیت کی شراب پکڑی گئی اور یہ بھی کہ اب شراب پر باقاعدہ پابندی لگائی جائے گی مودی جی وزیر اعلیٰ تو بارہ برس رہے اس وقت تو شاید انہوں نے یہ سوچا ہوگا کہ گاندھی جی کے احترام میں جب کانگریسی حکومتوں میں پابندی مذاق جیسی تھی تو ہم کیوں میخواروں کی دل شکنی کریں لیکن اب وہ وزیر اعظم ہیں تو شاید یہ خیال آیا ہو کہ قانون کی خلاف ورزی اور وہ بھی اپنے گھر میں؟ اس لئے انہوں نے سختی کا فیصلہ کیا ہو۔ خیر یہ تو بعد میں معلوم ہوگا کہ نتیجہ کیا نکلا؟ شراب کو ’’اُمّ الخبائث‘‘ کہا گیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ آج کاروں کے حادثے، گینگ ریپ، قتل، الیکشن میں بے ایمانی، لوٹ مار ان سب میں سب سے اہم کردار شراب کا ہے اور ہر ریاست کی سب سے زیادہ آمدنی شراب سے ہے اس لئے وہ کسی طرح کی سختی نہیں کرنا چاہتی۔ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کی حکومت ہے۔ لیکن اسے اس کا کوئی خیال نہیں کہ شراب سے سماج کس طرح تباہ ہورہا ہے؟ پہلے ہر مہینہ کی یکم اور سات تاریخ کو اور ہر منگل کو شراب کی دکانیں بند رہتی تھیں۔ پہلے پابندی تھی کہ شراب کی دکان اسکول یا کسی عبادت گاہ سے سو میٹر کے اندر نہیں ہوگی اب کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے اس لئے کہ شراب جتنی زیادہ بکے گی حکومت کو ایکسائز ڈیوٹی اتنی ہی زیادہ ملے گی اور یہ ہر حکومت کی کمزوری ہے۔ کانگریس نے مرکزی حکومت کو ڈالر حاصل کرنے کے لئے تباہ کیا صوبائی حکومتیں دولت کے لئے صوبوں کو تباہ کررہی ہیں۔
1977 ء میں جتنا پارٹی کی حکومت بنی تو وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی بنائے گئے انہوں نے پورے ملک میں شراب بند کرنے کا اعلان کیا تو ان کے ساتھی ہی چیخ اُٹھے اور اتنا دباؤ ڈالا کہ وہ اس پر آمادہ ہوگئے کہ شروع میںآدھے ہندوستان میں، پھر ایک سال کے بعد پورے ملک میں۔ اس وقت آدھے ہندوستان میں اس طرح شراب بند کی گئی تھی کہ ہر صوبہ کے آدھے شہروں میں بند۔ اس فیصلہ سے پولیس کی بن آئی اور ان کا مستقل کام یہ ہوگیا کہ ان شہروں سے شراب لاتے تھے جہاں کھلی تھی اور وہاں فروخت کرتے تھے جہاں بند تھی۔ پھر یہ مرض اتنا بڑھا کہ پولیس والے جو رشوت کی تلاش میں گھوما کرتے تھے انہوں نے صرف ایک کاروبار پکڑلیا کہ وردی پہن کر بغیر ٹکٹ کسی بھی بس یا ٹرک میں بیٹھ کر سیتاپور یا رائے بریلی گئے اور جتنا موقع ملا اتنی شراب لکھنؤ لائے اور ایک ہی پھیرے میں ہزاروں کما لئے۔ اب اگر مودی جی واقعی شراب بندی کررہے ہیں تو یہ ذہن میں رکھیں کہ ہر پولیس والا مہاراشٹر کے کسی سرحدی ضلع میں جائے گا اور وہی کاروبار شروع ہوجائے گا جو مرارجی کے زمانے میں ہوا تھا۔ اگر ملک کو برائیوں سے پاک کرنا ہے تو پھر ایک ہی راستہ ہے کہ پورے ملک میں شراب بند اور کوئی رعایت نہیں۔ ہمت ہے تو یہ کرکے دکھائیں۔

«
»

’ایروم شرمیلا،انسانیت کے لئے ایک بہترین مثال

سعودیہ کے سرکاری مفتی اعظم کا سرکاری فتویٰ اور اسلامی مزاحمتی تحریکیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے